Inquilab Logo Happiest Places to Work

بڑھتی آلودگی پر واقعی فکر مند ہونے کی ضرورت ہے

Updated: March 16, 2025, 2:24 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ۲۰؍ آلودہ ترین شہروں میں ۱۳؍ شہر ہندوستان کے ہیں جن میں سب سے زیادہ آلودہ راجدھانی کے طورپر دہلی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

مختلف ملکوں میں آلودگی کی سطح کے حوالے سے گزشتہ دنوں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ۲۰؍ آلودہ ترین شہروں میں ۱۳؍ شہر ہندوستان کے ہیں۔ اس فہرست کے مطابق سب سے زیادہ آلودہ شہر میگھالیہ کا برنی ہاٹ اورعالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودہ راجدھانی دہلی ہے۔ ان شہروں کے علاوہ ملان پور، فرید آباد، غازی آباد کا لونی، نئی دہلی، مظفر نگر، ہنومان گڑھ، گروگرام، گنگا نگر، نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا اور بھیواڑی وہ شہر ہیں جہاں آلودگی کی سطح تشویش ناک حد تک خراب ہے۔ یہ فہرست اگر چہ صرف شہری علاقوں میں آلودگی کی خراب صورتحال کوظاہر کرتی ہیں تاہم یہ مسئلہ اب ان دیہی علاقوں میں بھی سر اٹھانے لگا ہے جہاں کھیتوں اور باغات کا رقبہ دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے اور ان کی جگہ کنکریٹ کی سڑکوں اور عمارتوں میں اضافہ روز افزوں ہے۔ جدید تکنیکی اور مادی سہولتوں سے فیض اٹھانا کچھ غلط نہیں لیکن اس فیضیابی کے عوض میں اگر ماحولیاتی آلودگی کی سطح اس درجہ پر پہنچ جائے جو عوام کیلئے بعض اوقات ہلاکت خیز ثابت ہو، تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 
ملک میں بڑھتی آلودگی کے سبب عوام کو کئی سطحوں پر مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان مسائل میں سب سے زیادہ تشویش ناک مسئلہ عوام کی صحت کا ہے۔ آلودگی کے سبب ہر سال لاکھوں افراد کی موت واقع ہوتی ہے۔ آلودگی کے سبب موت کی آغوش میں جانے والے افراد آخری سانس لینے سے قبل مختلف قسم کی سنگین بیماریوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر کئے گئے سروے کے مطابق بڑھتی آلودگی کے سبب ہندوستانیوں کی اوسط عمر میں ۲ء۵؍سال کی تخفیف درج کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ امراض قلب، امراض تنفس اور پھیپھڑوں کے کینسر جیسے موذی امراض کا ایک بڑا سبب تعفن زدہ ماحول میں زندگی بسر کرنا ہے۔ بڑے شہروں اور ان شہروں سے متصل علاقوں میں ان بیماریوں کا موثر علاج دستیاب تو ہے لیکن اس علاج تک رسائی کیلئے جو مالی تمول درکار ہے اس سے آبادی کا بڑا حصہ محروم ہے۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں کے بڑے اسپتالوں میں معیاری علاج تو ممکن ہے لیکن وہ اسپتال جہاں متوسط اور نچلے طبقہ کے افراد بغرض علاج جاتے ہیں ، ان اسپتالوں کا طبی معیار اس حدتک اطمینان بخش نہیں ہے کہ ان کی کارکردگی پر مکمل بھروسہ کیا جا سکے۔ 
آلودگی میں اضافہ عوام کو صرف صحت کی سطح پر ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کے سبب سماجی زندگی کے بعض اہم امور بھی منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ملک کے جن ۱۳؍ شہروں میں آلودگی کی سطح پر تشویش ظاہر کی گئی ہے ان شہروں میں تعلیم، تجارت اور معیشت کے مختلف شعبوں کو بھی خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال دہلی میں آلودگی کے سبب عوامی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل سے دی جا سکتی ہے۔ ہر سال موسم سرما کے دوران اس شہر کی فضا اس حد تک مکدر ہو جاتی ہے کہ عوام کو ہر سانس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ آلودگی میں اضافہ صرف صحت کیلئے ہی مضر نہیں ہوتا، اس کے سبب ان سرگرمیوں پر بھی اثر پڑتا ہے جو سرگرمیاں تعلیمی اور تجارتی سطح پر معاشرہ کو متحرک بنائے رکھتی ہیں۔ قومی راجدھانی کو ہر برس کم از کم تین ماہ اس کیفیت میں گزارنا پڑتا ہے جو طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں اور ملازمت پیشہ و تجارت کرنے والے افراد کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو غیر یقینی صورتحال سے دو چار کرتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۲۰۲۴ء میں پورے سال دہلی میں فضائی آلودگی کی سطح کسی ایک دن بھی اطمینان بخش نہیں رہی۔ ۲۰۲۴ء میں دہلی میں ۱۵۵؍ دن اتنے کثافت زدہ گزرے کہ ان دنوں میں فضائی آلودگی کی سطح اے کیو آئی کے مطابق ۲۰۰؍ سے زیادہ رہی۔ 
 دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں صرف فضائی آلودگی ہی مسئلہ نہیں ہے، ان شہروں میں چند مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر آبادی کا بڑا حصہ ایسے حالات میں زندگی گزار نے پر مجبور ہے جس کے سبب انھیں مختلف قسم کی بیماریوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ان شہروں میں نچلے متوسط اور غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی دیگر بنیادی ضرورتوں کیلئے وہ وسائل اور سہولیات دستیاب ہیں جو ان کی زندگی کو قدرے اطمینان بخش معیار عطا کر سکے۔ شہروں میں پانی اور ہوا کے علاوہ انڈسٹریل اخراج سے پیدا ہونے والی آلودگی بھی عوامی صحت کیلئے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ اس اخراج کے سبب شہروں کے گرد واطراف کے آبی ذخائر غلاظت اور کثافت کا ڈھیر بنتے جارہے ہیں۔ انڈسٹریل اخراج نے ملک کی بیشتر ندیوں کو تعفن کا مرکز بنادیا ہے۔ قومی راجدھانی دہلی میں جمنا ندی کی آلودگی عوامی زندگی کو کئی سطحوں پر متاثر کر رہی ہے۔ ابھی حال میں ختم ہوئے کمبھ میلے میں بھی آبی آلودگی کا مسئلہ بحث کا موضوع تھا۔ 
 آبی آلودگی کے سبب عوام کو درپیش صحت کے مسائل کو بھی فرقہ ورانہ سیاست نے آستھا کا رنگ دے دیاہے۔ حالانکہ اس مسئلے کا کوئی تعلق مذہب یا عقیدے سے نہیں ہے۔ ریاستی حکومت کے ذریعہ مسلسل تردید کے باوجود آلودگی کی نگہداشت اور کنٹرول کرنے والے مرکزی ادارے سی پی سی بی نے بارہا متنبہ کیا تھا کہ سنگم کے پانی میں کثافت اس درجہ ہے کہ اس میں نہانے سے صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ 
آلودگی کے سبب موسم کے مزاج میں بھی ایسی غیر متوقع تبدیلی رونما ہو رہی ہے جو عوام کو وسیع پیمانے پر متاثر کرتی ہے۔ اس تبدیلی کا سب سے بڑا اور برا اثر ملک کے کاشت کاری نظام پر پڑتا ہے۔ یہ تبدیلی بعض اوقات کسانوں کی کئی مہینوں کی محنت اور سرمایہ پل بھر میں ضائع کر دیتی ہے۔ اس تبدیلی کا اثر صرف کاشت کاری پر ہی نہیں پڑتا بلکہ سماجی زندگی کے دیگر معمولات بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ موسم کے مزاج کا یہ انداز گزشتہ کئی برسوں سے عوام کو پریشان کرتا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ آلودگی کی سطح میں ہونے والا وہ اضافہ ہے جو ماحولیات کو کثیف اور غلیظ بنا رہا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ موسم کی تاثیر اور ماحولیات میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی ہے بلکہ انسانوں کے اندر اس تاثیر سے مطابقت پیدا کرنے والا مادہ کم ہو گیا ہے، تو ایسے نادر گیان پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ یہ نادر گیان جب اس منصب پر براجمان شخص کے ذریعہ پھیلایا جائے جس پر ملک و معاشرہ کو ہر قسم کی آلودگی سے محفوظ رکھنے اور عوام کیلئے معیاری طرز حیات فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے تو پھر افسوس کی اس کیفیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
آلودگی میں اضافہ عالمی سطح پر ایک تشویش ناک مسئلہ بن گیا ہے۔ اس مسئلے کو سیاسی اغراض و تحفظات کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انسانی آبادی پر اس کے اثرات کا جائزہ انسانی درد مندی کے جذبہ سے لینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے بڑے ملکوں کے ذریعہ بڑی مقدار میں کاربن کا اخراج عالمی آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔ امریکہ جیسے بڑے ملک اپنی ہٹ دھرمی کے سبب اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیاں آئندہ دنوں میں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عالمی انسانی آبادی کو ایک نظر سے دیکھا جائے اور آلودگی کے سبب پیدا ہونے والے مسائل کا تجزیہ کرتے وقت کسی بھی طرح کے امتیاز اور تعصب کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ اس ضمن میں حکومتی سطح پر کئے جانے والے اقدامات کے علاوہ عوام کو خود بھی حساس اور بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر عوام اپنے گھر، محلے اور اطراف کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے پر سنجیدہ توجہ دینے لگیں تو یہ پہل بھی آلودگی پر قابو پانے میں کارگر ہو سکتی ہے۔ آلودگی صرف جسمانی صحت کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ اس کی وجہ سے افکار و افعال پر بھی پراگندگی کی تہہ جم جاتی ہے کیونکہ یہ سچ ہے کہ ایک صحتمند جسم میں ہی ایک صحتمند دماغ پلتا ہے۔ جسم اور دماغ کی عدم صحت کے مظاہر سماج میں اکثر ظاہر ہوتے ہیں اور یہ مظاہر انسانی قدروں کی پامالی کی تصویر پیش کرتے ہیں لہٰذااس مسئلے پر واقعی فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK