نوجوانو! یادرکھو بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے، صرف بہادر کے نصیب میں طوفان آتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جن کے پاس مقابلہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور وہ ہمت کرتے ہیں تو، انہیں کنارہ مل ہی جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 05, 2025, 1:19 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
نوجوانو! یادرکھو بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے، صرف بہادر کے نصیب میں طوفان آتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جن کے پاس مقابلہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور وہ ہمت کرتے ہیں تو، انہیں کنارہ مل ہی جاتا ہے۔
ہر سوتذبذب، اضطراب اور غیر یقینی ماحول ہے، ہر دَور میں یہی رہا ہو گا البتہ ٹیکنالوجی کے منفی و تباہ کُن استعمال اور، فرقہ پرستی و ناانصافی کو غیر اعلانیہ دستور کا درجہ حاصل ہو جانے کی بناء پر ہماراملک سماجی، معاشرتی اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ اِن تباہ کُن حالات میں صرف ماتم تو بہر حال نہیں کرنا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ان حالات میں بھی سمجھ بوجھ اور ہمّت سے کام لینا ہے۔ نوجوانو! یادرکھو بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے، صرف بہادر کے نصیب میں طوفان آتے ہیں ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جن کے پاس مقابلہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور وہ ہمت کرتے ہیں تو انہیں کنارہ مل ہی جاتا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے، آئیے آہستہ آہستہ زندگی کے سارے رموز کی پرتیں کھول کر اپنے لائحہ عمل طے کریں۔
نظریہ زندگی مشکل ہے نہ دُشوار
ہم سبھی جانتے ہیں کہ قوم یا ملک کی تقدیر یں گریہ وزاری سے نہیں بدلتیں، وہ بدلتی ہیں پُر خلوص، پُر یقین، پُر اثر، پُر معنی اور پُر مغز کوششوں سے۔ آج تعلیمی ادارےبکھر رہے ہیں، تعلیمی نظام کی کسوٹی یعنی امتحانات اپنا اثر کھوتے جارہے ہیں۔ تعلیم و طب کے ماہرین کے بجائے سرکاری ماہرین کی آراء پر انحصار ہو رہا ہے۔ اس بناء پر ہمارا نوجوان طبقہ سب سے زیادہ تذبذب یا کنفیوژن کا شکار ہے ہم البتہ ہمارے طلبہ اور نوجوانوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ زندگی کا فلسفہ، نظریہ اور تھیوری اتنی پیچیدہ نہیں ہے اور اُنھیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اسکول/ کالج میں کس قدر مہمل، وسیع اور اُلجھانے والے نظریات اور تھیوری کا اُن کا سابقہ پڑا ہے۔ یاد دلاتے ہیں آپ نے بِگ بینگ تھیوری پڑھی ہے اور نیوٹن کی کشش ثقل کی تھیوری بھی، ڈاروِن کانظریہ ارتقاء بھی اور آئنس ٹائن کا نظریہ اضافیت بھی۔ اس کے علاوہ آپ نے پاسچر کا خلیاتی نظریہ، بوہر کی کوانٹم تھیوری، کیپلرکا نظریہ: ارشیمدس کے اُصول، ہائجن کی نوری تھیوری، فرائیڈے، پاسکل، ڈوپلر، بائیل، کا سمک، ورنرہائسبرگ کی غیر یقینی صورتِ حال کی تھیوری، پاولوفر یئر کی تعلیمی نفسیات کی تھیوری اور کارل مارکس کا نظریہ اشتراکیت کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ ہمارے ریسرچ کے طلبہ کو یاددلائیں کہ اُنھوں نے ریاضی کے ایک مضمون میں (الجبرا، جیومیٹری سمیت) ۹؍اہم شاخیں تھیں، علم طبیعات یا فزکس میں میکانک سے لے کر نیوکلیئر فزکس کی دس شاخوں کا اُنھوں نے مطالعہ کیا ہے اور علمِ کیمیات یا کیمسٹری میں آرگیانک کیمسٹری سے لے کر فارینسک کیمسٹری تک کم وبیش ۲۰؍ شاخوں کے طویل مضامین کا مطالعہ کیا ہے۔
دو ستو! زندگی کا نظریہ مشکل، دُشوار یا بوجھل نہیں ثقیل یا درشت اور کھٹن بھی نہیں۔ جو نظریات اور تھیوریز آپ نے اپنے کیمپس میں پڑھی ہیں اس کے مقابلے زندگی برتنے کے اُصول پیچیدہ نہیں، اگر سُکون کے ساتھ کوئی ترکیب، ترتیب و تد بیر اپناتے ہیں۔
اپنا مقام پیدا کر
یاسیت کے مستقل شکار افراد بس یہی کہے جا رہے ہیں اور اس کا پرچار بھی کر رہے ہیں کہ جد و جہد زندگی کو اب طاق پر سجا دیں۔ ہم تو شاعرِ مشرق کی زبان میں یہی کہیں گے کہ مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر اور ظلمات کے اِس دَور میں بھی ’اپنا مقام پیدا کر‘ کیسے ممکن بنا ئیں اس کو؟ ہم سارے ضابطے گوش گزار کرتے ہیں :
( ۱) ہم جب کسی بھی مصیبت سے دو چار ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟
(الف ) سکتے میں آجاتے ہیں اور اُس کیفیت سے ایک عرصے تک باہر نہیں آتے۔ (ب) تقدیر سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارا قومی وملّی مشغلہ ہے اور جدّ وجہد حیات سے فرار حاصل کرنے کا بڑا ہی آسان طریقہ (ج) پھر اُن مسائل کو حل کرنے کیلئے یکسوئی وار تکاز کو برتنے کے بجائے ہڑ بڑاہٹ، جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر (د) بالآخر اپنی محتاجی کا اعلان بھی کر دیتے ہیں۔
(۲) ہونا تو یہ چاہئے کہ زندگی برتنے کے اپنے طریقے پر ہم نظر ثانی کریں۔ اپنی پست ہمتی اور نا کامی کو چھپانے کیلئے ہم افسانے تراشنے اور الزام تراشی کا سلسلہ بند کر دیں۔
(۳) ہمیں ہمیشہ اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ زندگی دُشوار یا نیم دُشوار بھی ہوگی البتہ زندگی جینے کے لائق ضرور ہے۔ بس آپ کو زندگی جینے کا ایک بہانہ، ایک خوبصورت بہانہ پیدا کرنا ہے۔ نہ جینے کیلئے بے شمار بہانے ملتے ہیں جیسے کسمپرسی، حالات کی سنگینی، اپنوں کی طوطا چشمی، مسلسل ناکامی، امریکی ایچ ون ویزا، تالی اور تھالی وغیرہ وغیر۔
(۴) بحران میں قوتِ فیصلہ کا فقدان، بحران کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ اب یہ سمجھئے کہ قوتِ فیصلہ کسے کہتے ہیں۔ جب دوسرے تا مّل کرتے ہیں، تب وہ طے کرتا ہے اور پورے یقین کے ساتھ طے کرتا ہے۔
نو جوانو! مایوسی کے اندھیارے میں اپنا مقام پیدا کرنے کیلئے آپ کو منظم اور مرتّب ہونا ہی پڑے گا۔
اسرار خودی
لفظ ’خودی‘ کی تشریح میں لُغت بھی انصاف نہیں کر پاتی۔ نہ جانے کس بناء پر وہ اُسے انانیت، غرور، تکبّر اور خود غرضی سے تعبیر کرتی ہے۔ دراصل خودی کی اصل تشریح صرف اقبال کے کلام میں ملتی ہے۔ اسرار خودی کے دیباچہ میں وہ رقم طراز ہیں کہ خودی کا مطلب ہے عرفانِ نفس اور خودشناسی۔ اس کا ادراک ہمارے معاشرے میں نہ ہونے کی بناء پر لوگ خودی کے نام پر اکثر حماقتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم مثال دینا چاہیں گے اعلیٰ تعلیم دلانے کے عمل میں ہمارے رویے کی۔ ہماری قوم میں اس کیلئے چونکہ بجٹ اور بچت کا کوئی تصوّر نہیں اسلئے اگر کسی بچّے کے اعلیٰ کورس کیلئے بالفرض ایک لاکھ روپے کی ضرورت آن پڑی۔ اب اتنی بڑی رقم کی امید کسی ٹرسٹ، کسی ادارہ یاکسی فرد سے بھی نہیں رکھی جاسکتی۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ دس عزیز واقارب یا رشتہ داروں کی فہرست تیار کی جائے جن سے دس دس ہزار روپے کی قرضِ حسنہ کی مددمل سکے۔ اب یہاں بنیادی طور پر یہ مفروضات آڑے آتے ہیں :
(۱) ہم کیوں کسی سے مانگیں ؟ (بچّوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے جو سنہرا موقع فراہم ہوا ہے، اُس سے استفادہ کرنے کیلئے کسی سے مدد مانگنے میں بھلاکیا قباحت ہے؟)
(۲) ہم کیوں کسی کا احسان لیں ؟ ( جسے احسان کہا جاتا ہے، دراصل وہ ایک سماجی ضرورت ہے۔ آخر سماج بناہی اسلئے ہے )
(۳) لوگ اپنا احسان جتائیں گے (اس میں کیا قباحت ہے۔ آخر آپ چُھپانا کیوں چاہتے ہیں کہ کسی نے آپ کی مدد کی ہے؟)
(۴) مگر احسان ؟ ( سماج میں ہمیشہ کسی نہ کسی کا احسان لینا ہی پڑتا ہے۔ ’’ ہمیں کسی کا احسان نہیں چاہئے ‘‘یہ بات بڑے طمطراق سے کہنے والے افراد بھی اپنی زندگی کا آخری سفر چار افراد کے کندھوں پر طے کرتے ہیں اور اُن کندھوں کا احسان وہ بھی ادا نہیں کر پاتے )
(۵) کسی کی مدد کے احسان آخر پھر ادا کیسے ہوں گے؟ ( ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے، یہ نیت رکھنے سے وہ احسان ادا ہو جائیں گے )
اپنا علم، اپنی نعمتیں آپس میں بانٹنے اور بانٹتے رہنا سماجیات و عمرانیات کا حصہ ہے۔ خودی، خودداری کی غلط تشریح کرنے والے اس کو سمجھیں، خصوصاً ہمارے معاشرے میں علم کے پھیلاؤ کیلئے!