رواں ہفتے ملک کے بیشتر غیر اردو اخبارات نے مختلف قومی معاملات پر حکومت اور نظام پر تنقید کی ہے۔ ایل آئی سی کے ذریعے اڈانی گروپ کو قرض فراہم کئے جانے کے معاملے پر کئی اخبارات نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
EPAPER
Updated: November 02, 2025, 1:02 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
رواں ہفتے ملک کے بیشتر غیر اردو اخبارات نے مختلف قومی معاملات پر حکومت اور نظام پر تنقید کی ہے۔ ایل آئی سی کے ذریعے اڈانی گروپ کو قرض فراہم کئے جانے کے معاملے پر کئی اخبارات نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
رواں ہفتے ملک کے بیشتر غیر اردو اخبارات نے مختلف قومی معاملات پر حکومت اور نظام پر تنقید کی ہے۔ ایل آئی سی کے ذریعے اڈانی گروپ کو قرض فراہم کئے جانے کے معاملے پر کئی اخبارات نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ روزنامہ لوک مت نے بیڑ میں ایک خاتون ڈاکٹر کی خودکشی کے واقعے پر اداریہ لکھتے ہوئے پولیس نظام کی کارکردگی اور اس کی سنگین خامیوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اسی طرح بغیر طلبہ کے چلنے والے اسکولوں کے مسئلے پر بھی متعدد انگریزی اور ہندی اخبارات نے اداریے شائع کئے ہیں، جن میں تعلیمی نظام کی بدحالی اور انتظامیہ کی غفلت کو نمایاں طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں شروع ہونے والے ووٹر فہرست کی نظرِ ثانی کے عمل پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جنہیں اخبارات نے اپنی تحریروں میں تفصیل سے زیر بحث لایا ہے۔ اسی سلسلے میں انگریزی روزنامہ دی ہندستان ٹائمز نے اپنے اداریئے میں بہار اسمبلی میں مسلم نمائندگی کی کمی پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے مذہبی بنیادوں پر استوار سیاست کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
نظام انصاف اور پولیس پر بڑا سوالیہ نشان
لوک مت( مراٹھی، ۲۵؍اکتوبر)
بھاؤبیج کے موقع پر جب پورا معاشرہ بہن بھائی کے رشتے کی محبت اور حفاظت کا جشن منا رہا تھا، اُسی وقت مہاراشٹر کے پلٹن شہر سے ایک ایسی خبر آئی جس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک ۲۴؍ سالہ تعلیم یافتہ خاتون ڈاکٹر نے خودکشی کر لی۔ اس کے ہاتھوں لکھی ہوئی خودکشی نوٹ ایک ایسی چیخ ہے جو پورے نظام کے بہرے کانوں تک شاید ہی پہنچے۔ اس خط میں اس نے جنسی، جسمانی، ذہنی اور مالی استحصال کا ذکر کیا ہے۔ یہ صرف ایک فرد پر ہونے والی زیادتی نہیں بلکہ سماج، پولیس اور انصاف کے اداروں کے چہرے سے نقاب ہٹانے والی دستاویز ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک پڑھی لکھی باحوصلہ خاتون آخر کس نفسیاتی اور سماجی دباؤ میں اس انتہا پر پہنچ گئی کہ زندگی سے ہی مایوس ہو گئی؟یہ سانحہ ہمارے انصاف کے نظام اورپولیس کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر وہی ادارہ جو انصاف دینے کیلئے قائم کیا گیا ہےخود ظلم کا حصہ بن جائے تو عام شہری کہاں جائے؟ جب محافظ ہی مجرم بن جائے تو حفاظت کی امید کہاں سے کی جائے؟قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ملک میں روزانہ ۸۰؍ سے زائد عصمت دری کے واقعات درج ہوتے ہیں مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ مہاراشٹر میں گزشتہ برس ہزاروں خواتین انصاف کی دہلیز تک پہنچ ہی نہ سکیں۔ ان اعداد و شمار کے پیچھے وہ بے شمار چیخیں ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتیں۔ جب قانون کے محافظ خود قانون سے منہ موڑ لیں تو عدل و انصاف کا چراغ بجھنے لگتا ہے۔ ‘‘
بہار اسمبلی میں مسلم نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے
دی ہندوستان ٹائمز( انگریزی، ۲۸ ؍اکتوبر)
’’ہندوستان کی سیاست میں مذہبی پولرائزیشن کوئی نیا رجحان نہیں مگر بہار میں اس کے اثرات خاص طور پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابی پولرائزیشن کے اس عمل میں مسلم برادری ایک مرکزی کردار بن چکی ہے مگر المیہ یہ ہےکہ مرکزیت کےباوجود ان کی پارلیمانی نمائندگی مسلسل کمزور رہی ہے۔ ریاست کی مسلم آبادی ۱۷؍ فیصد ہے مگرمسلم اسمبلی میں اراکین کی شرح کبھی بھی ۶؍ فیصد سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ ۱۹۸۵ء میں جب کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی تو مسلم ایم ایل ایز کی تعداد ۲۸؍ تک پہنچی تھی مگر ۲۰۰۵ء میں این ڈی اے کی پہلی جیت کے دوران یہ محض ۱۶؍ رہ گئی۔ ۲۰۲۰ء کے انتخابات میں بھی تعداد ۱۹؍ تک محدود رہی۔ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی قوت کے توازن میں مسلم نمائندگی کا گراف مسلسل زوال پذیر ہے۔ اس انتخاب میں بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں۔ کل ۳۶؍ مسلم امیدوار ہی میدان میں ہیں جن میں سے ۵ ؍این ڈی اے کے اور ۳۱؍مہاگٹھ بندھن کے ہیں۔ بی جے پی نے حسب روایت کسی مسلم امیدوار کو نامزد نہیں کیا۔ بظاہر یہ عمل اکثریتی ووٹ بینک کے تحفظ کی کوشش ہے مگر عملاً یہ اقلیتوں کی سیاسی شمولیت کو مزید محدود کر رہی ہے۔ مہا گٹھ بندھن کی سیاست اپنی بنیاد مسلم، یادواتحاد پر رکھتی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل نے۱۹؍ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے جبکہ کانگریس نے ۱۰؍ تاہم یہ رجحان بھی سیاسی ضرورت پر مبنی ہے نہ کہ نمائندگی کے اصولی عزم پر۔ آر جے ڈی کیلئے مسلمان ایک وفادار ووٹ بینک ضرور ہیں مگر اسمبلی میں ان کی مؤثر موجودگی کا مسئلہ بدستور برقرار ہے۔ ‘‘
اڈانی گروپ میں ایل آئی سی کی سرمایہ کاری تشویشناک
سکال( مراٹھی، ۲۸؍اکتوبر)
’’ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے بڑھتے ہوئے دعوؤں کے بیچ ایک سوال بار بار سر اُٹھا رہا ہے۔ کیا ہمارے مالیاتی ادارے واقعی آزاد ہیں، یا وہ طاقت کے دباؤ میں فیصلے کرنے پر مجبور ہیں ؟یہ سوال حال ہی میں اُس وقت مزید گہرا ہو گیا جب امریکہ کے معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک خبر شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی لائف انشورنس کارپوریشن نے اڈانی گروپ میں تقریباً ۳۴؍ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور یہ فیصلہ مبینہ طور پر مرکزی حکومت کے دباؤ میں کیا گیا۔ اگر یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے تو یہ محض ایک مالیاتی خبر نہیں بلکہ ایک بڑی ادارہ جاتی تشویش ہے۔ ایل آئی سی کوئی عام کمپنی نہیں یہ ملک کے کروڑوں عوام کی محنت کی کمائی کی محافظ ہے۔ لوگ اپنے مستقبل کی سلامتی کیلئے ایل آئی سی پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ تاثر پھیلتا ہے کہ کمپنی کے فیصلے سیاسی مفادات کے تابع ہیں تو یہ بھروسہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بھروسہ ایک ایسا سرمایہ ہے جو برسوں میں بنتا ہے مگر لمحوں میں ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ حکومت کو صرف خاموش تماشائی نہیں بننا چاہئے۔ اگر واقعی ایل آئی سی نے اپنے تجارتی مفاد میں یہ سرمایہ کاری کی ہے تو حکومت کو واضح اور شفاف وضاحت پیش کرنی چاہئے۔ محض یہ کہنا کہ ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں کافی نہیں کیونکہ ایل آئی سی ایک سرکاری ادارہ ہے اور عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ حکومت ہر ایسے فیصلے پر اپنی جوابدہی دکھائے گی۔ ‘‘
یہ نظام تعلیم کی اجتماعی موت کا اعلان ہے
نوبھارت( ہندی، ۲۹ ؍اکتوبر)
’’مرکزی وزارت تعلیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق ۸؍ ہزار سرکاری اسکولوں میں ایک بھی طالب علم نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار محض شماریاتی حقائق نہیں بلکہ قوم کے تعلیمی مستقبل پر ایک بدنما داغ ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اسکولوں میں اب بھی ۲۰؍ ہزار سے زائد اساتذہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جبکہ ان کے کلاس روم ویران ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب شاگرد ہی نہیں تو استاد کی موجودگی کا مطلب کیا رہ جاتا ہے؟یہ صورتحال کسی ایک ادارے یا ریاست کی ناکامی نہیں بلکہ نظام تعلیم کی اجتماعی موت کا اعلان ہے۔ وہ اسکول جو کبھی سماجی مساوات اور علم کی روشنی کے مرکز تھے آج بند کمروں اور سنسان میدانوں میں بدل چکے ہیں۔ ان ویران عمارتوں کی خاموشی دراصل حکومتی بےحسی اور انتظامی نااہلی کی چیخ بن کر گونج رہی ہے۔ تعلیم کا مقصد اب شعور پیدا کرنا نہیں بلکہ منافع کمانا بن گیا ہے۔ نجی اسکولوں کے بڑھتے جال نے سرکاری اداروں کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ تعلیم ایک ایسا سرمایہ دارانہ کاروبار بن چکی ہے جو صرف ان کیلئے دستیاب ہے جو استطاعت رکھتے ہیں۔ نتیجتاً وہ غریب اور قبائلی طبقےجن کی ترقی کیلئے سرکاری اسکول قائم کئے گئے تھے، آج بھی تعلیمی پسماندگی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مزید افسوسناک پہلو یہ ہےکہ جن اسکولوں میں طلبہ نہیں وہاں جعلی حاضری رجسٹر اور فرضی رپورٹیں ایک معمول بن چکی ہیں۔ ‘‘