سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرتے ہوئے اگر کوئی امیدوار عوام، مزدور، کرایہ داروں اور محروم طبقے کے سہارے الیکشن جیت لے تو یہ محض ایک جیت نہیں بلکہ پورے نظام کیلئے بہت زور کا جھٹکا ہے۔ اس جیت کی اہمیت اسلئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور امریکہ کے سرمایہ داروں نے ممدانی کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
ظہران کی جیت ٹرمپ یا مسک پر ذاتی فتح نہیں بلکہ اُن کے نظریاتی نظام کو چیلنج کر کے اپنی جگہ بنانے کی کامیابی ہے۔ تصویر: آئی این این
امریکہ کی سیاست کا منظرنامہ بظاہر دو مضبوط ستونوں پر کھڑا ہے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کے شور میں ایک تیسری حقیقت چھپی رہتی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے مرکزسےجڑی ہوئی ہیں۔ سیاسی اور انتخابی مہمات کارپوریٹ فنڈنگ سے چلتی ہیں، پالیسیاں بڑے سرمایہ کاروں اور لابی گروپس کے فائدے کے لئے مطابق بنتی ہیںاور بظاہر جمہوریت کا شور بہت ہے لیکن اختیار ہمیشہ دولت کے پاس ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی امیدوارعوام، مزدور، کرایہ داروں اور محروم طبقے کے سہارے انتخاب جیت لے، تو یہ خبر محض ایک جیت کی نہیں ہوتی،یہ اس پورے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے زور کا جھٹکا ہوتا ہے۔
نیویارک کے ایک حلقے میں ایسے ہی ایک زور دار دھچکے نے امریکی سیاست کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ یہ دھچکا ایک نوجوان، سوشلسٹ مسلم رہنما ظہران ممدانی نے دیا ہے جو میئر کے عہدے کیلئے منتخب ہوئے ہیں۔ ظہران ممدانی کا پس منظر کسی روایتی امریکی سیاست داں جیسا نہیں ہے۔ اُن کی والدہ معروف فلم میکر میرا نائر ہیں۔ اُن کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس کی جڑیں تین براعظموں میں پھیلی ہوئیہیں۔ایشیاء سے افریقہ اور افریقہ سے امریکہ تک یہ تاریخ جغرافیہ نہیں، تجربہ ہے۔ اور یہی تجربہ انہیں ایسے عوام کے قریب لاتا ہے جن کے لیے شناخت اور بقا کا مسئلہ روزمرہ کی جدوجہد ہے۔
کاغذوں پر تو یہ مقابلہ نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کی ڈسٹرکٹ ۳۶؍ میں ہوا، جہاں ممدانی نے اپنے مخالفین کو شکست دی۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کس بیانیے کو شکست دے رہے تھے؟ وہ سفید فام قوم پرستی کے بیانیے کو چیلنج کر رہے تھےجس کے نمائندے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔وہ دولت اور منافع پر چلنے والے ٹیک کارپوریٹ کلچر کو چیلنج کر رہے تھےجس کی علامت ایلون مسک ہیں۔ وہ اس خیال کی مخالفت کر رہے تھے کہ سیاست وہی کرسکتا ہے جو دولت، روابط اور اقتدار کے مراکز سے جڑا ہوا ہو۔ ظہران ممدانی کی جیت کا مطلب یہ نہیں کہ انہوںنے ٹرمپ یا مسک کے خلاف کوئی براہ راست انتخابی مقابلہ لڑا اور جیت لیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اُن کے قائم کردہ نظریاتی نظام کو کامیابی سے چیلنج کیا اوراپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ جس زمانے میں امریکہ میں فلسطین کا نام لینا ’’کیریئر رِسک‘‘ سمجھا جاتا ہے، اسی دور میں ممدانی کھلے عام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جس دور میں مزدور یونینوں کو کمزور کیا جاتا ہے، وہ مزدوروں کے حق میں قانون سازی کی بات کرتے ہیں۔ جس ماحول میں کرایہ دار اپنے گھروں سے بے دخل کئے جا رہے ہیں، وہ رہائش کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہیں۔ یہ سب محض نعروں کا کھیل نہیں۔
یہ پالیسی اور جدوجہد کا سوال ہے۔ یہ ایک اقلیت کی جیت ہے، جسے اکثریت نے قبول کیا ہے۔ سوچئے ایک ہند۔ افریقی نژاد مسلم نوجوان، جو کھل کر سوشلسٹ نظریا ت کی حمایت کرتا ہے،امریکہ کی ایک بڑی ریاست میں منتخب ہو جاتا ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی واقعہ نہیںیہ ایک علامت ہے۔ یہ علامت اس بات کی ہے کہ سیاست لوگوں کی ہے، صرف کارپوریٹس کی نہیں۔امریکی معاشرہ ابھی مکمل طور پر دائیں بازو کے پروپیگنڈے کے آگے نہیں جھکا ہے۔ اقلیت صرف اپنا دفاع نہیں کرتی قیادت بھی کر سکتی ہے۔ یہاں یہ جیت اقلیت کا اکثریت پر قبضہ نہیں ہے بلکہ اکثریت کی نئی اخلاقی بیداری ہےکہ وہ ایک اقلیتی کردار کو کھلے دل سے قبول کررہے ہیں اور اسے سر آنکھوں پہ بٹھارہے ہیں۔
ظہران ممدانی کو غریبوں، کرایہ داروں، نوجوان طلبہ، نرسوں، اساتذہ اور ٹیکسی ڈرائیوروں نے ووٹ دیا۔ یعنی یہ جیت عوام کی جیت ہے اور عوامی طاقت جب جڑپکڑ لے، تو بڑے سے بڑا سرمایہ دار بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ ظہران ممدانی نے اپنی مہم کے لیے کارپوریٹ چندے سے انکار کیا۔ انہوں نے گراس روٹ سطح کی سیاست کی۔ دروازوں پر دستکیں دیں، عوام سے بات کی، مسائل کو سنا اور پھر وہی مسائل ایوان میں اٹھا نے کا اعلان کیا۔ ان کا منشور بالکل واضح تھا لیکن ان کے منشور کے نکات سے سرمایہ دارانہ نظام متفق نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر رہائش حق بن جائے تو رئیل اسٹیٹ کی بادشاہت ٹوٹ جائے گی۔ اگر صحت کاروبار نہ رہے تو دوا ساز کمپنیاں خوف زدہ ہو جائیں۔ اگر محنت کش، انسان ہو جائے تو منڈی کا منافع ہل جائے۔ اس لیے ممدانی کی جیت صرف ایک سیاسی کامیابی نہیں یہ سرمایہ داری کے مستحکم قلعے میں پڑنے والی نہایت مضبوط دراڑ ہے۔
ظہران ممدانی کی کامیابی کی کہانی ہمارے لیے کیوں اہم ہے؟ برصغیر میں ہم اکثر یہ سنتے آئے ہیں کہ آج کے دور میں اصولی سیاست نہیں ہو سکتی۔
یہ دور پیسے اور طاقت کا ہے، نظریہ مر چکا ہے، وغیرہ وغیرہ، ظہران ممدانی کی جیت ان دونوں جملوں کو غلط ثابت کرتی ہے۔ یہ جیت بتاتی ہے کہ اصولی سیاست زندہ ہے، بس اس کے لیے ہمت اور استقامت چاہیے۔عوام مر نہیں گئے انہیں صرف ایماندار قیادت چاہیے۔ اقتدار کی کرسی پر وہ لوگ بھی بیٹھ سکتے ہیں جو طاقتوروں کو نہیں بلکہ مظلوموں کو آواز دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ جیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ تاریخ ہمیشہ وہ نہیں لکھتی جو طاقتور چاہتا ہے۔ تاریخ وہ لکھتی ہے جو سچ اور جدوجہد مل کر پیدا کرتے ہیں۔ ظہران ممدانی نے اپنے حلقے میں صرف ایک الیکشن نہیں جیتا۔ انہوں نے ایک نیا امکان جیتا ہے۔ انہوں نے ایک نئی زبانِ سیاست کو جنم دیاہے۔ ایک ایسی سیاست، جس میں عوام صرف ووٹر نہیں حصہ دار ہیں۔ ایک ایسی سیاست، جس میں مسائل بحث نہیںان کا حل ذمہ داری ہے۔