• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جو نظر آرہا ہے، وہ ہے نہیں !

Updated: November 19, 2025, 4:40 PM IST | Sundeep Waslekar | Mumbai

جس دن دنیا کسی دن خود کو نقل کرنے والے اے آئی الگورتھم کے ساتھ جاگے گی، وہ دن انسانی برتری کے خاتمے اور سائنسی بالادستی کے آغاز کا دن ہوگا۔ حال ہی میں سیم آلٹ مین نے کہا کہ ’’اگلے چند برسوں میں کچھ بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔‘‘ مگر انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ ان کا کیا مطلب ہے!

Picture: INN
تصویر:آئی این این
گزشتہ چند ماہ کے دوران راقم نے کئی کاروباری کانفرنس میں شرکت کی۔ دبئی میں گلوبل انٹرپرینیورز کانکلیو سے لے کر ہوراسس اینول میٹنگ تک، جو ساؤ پالو (برازیل) میں منعقد ہوئی۔ آج کل کاروباری لیڈران کے درمیان مصنوعی ذہانت (اے آئی) نیا مقبول موضوع بن چکا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر زیادہ تر کاروباری افراد اے آئی کا کافی کم درک رکھتے ہیں۔ ان کانفرنسوں میں بزنس لیڈرز بات کر رہے تھے کہ اے آئی کس طرح ان کے رویے کو متاثر کر رہا ہے، یا وہ اے آئی کو کس طرح ’’سکھا‘‘ سکتے ہیں، یا پھر ’’ایجنٹک اے آئی‘‘ ان کے دفتر کے کام خود انجام دے گا۔ یہ بحث دراصل چیٹ جی پی ٹی اور اس جیسے دیگر ماڈلز کے گرد گھومتی ہے، جو اے آئی کے درمیانی درجے میں آتے ہیں۔ حیران کن طور پر کاروباری لیڈر شاذ و نادر ہی ایسے نچلے درجے کے اے آئی ماڈلز کا ذکر کرتے ہیں جو کھیتوں اور اسپتالوں میں حقیقی فائدہ پہنچا سکتے ہیں، یا ان اعلیٰ درجے کے سائنسی اے آئی ماڈلز کا جو ہماری زمین اور اس سے باہر زندگی کے تصور ہی کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حقیقی اے آئی کی دوڑ دراصل سائنسی اے آئی کے بارے میں ہے نہ کہ چیٹ جی پی ٹی، جیمینائی یا گروک جیسے گفتگو پر مبنی اے آئی ماڈلز کے بارے میں۔ اس بارے میں پیٹر تھیل، ڈیمِس ہسابس،  ایلون مسک اور ان کے چینی اورکوریائی ہم منصبوں سے پوچھئے۔
محدود اے آئی اور سائنسی اے آئی
مہاراشٹر کے ضلع بارامتی سمیت ملک کے کئی دیہی علاقوں میں اب کسان موبائل ایپس کے ذریعے موسم، ٹڈی دل کے حملے، اور مٹی کی کیفیت کے بارے میں قبل از وقت معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ایپس مائیکروسافٹ یا امیزون کے کلاؤڈ پلیٹ فارم پر مبنی اے آئی ماڈلز استعمال کرتے ہیں جنہیں مقامی سطح پر زرعی ڈیٹا کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔ بارامتی میں اس منصوبے کے سربراہ پرتاپ راؤ پوار نے دبئی کانفرنس میں بتایا کہ اس سے پیداوار میں ۴۰؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر ان منصوبوں میں فیڈریٹڈ لرننگ (Federated Learning) استعمال کی جائے تو مائیکروسافٹ اور دیگر غیر ملکی کلاؤڈ سروسیز پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔ کھیتوں میں استعمال ہونے والا یہ اے آئی دراصل محدود اے آئی کہلاتا ہے جو چیٹ جی پی ٹی سے بھی پہلے تیار کیا گیا تھا۔
دوسری جانب لندن میں ’’ڈیپ مائنڈ‘‘ کے سائنسدانوں نے پروٹین اسٹرکچر دریافت کیا، جو مستقبل کی تحقیق کی بنیاد بن گیا۔ یہ ٹیم اب ریاضیاتی فارمولے دریافت کرنے، انسانی جینوم کو سمجھنے، اور زمین کی ساخت کا تجزیہ کرنے کیلئے ’’الفا‘‘ سیریز کے ماڈلز بنا رہی ہے۔ مئی ۲۰۲۵ء میں جاری ہونے والا الفا ایولو ایجنٹ، اے آئی کو خود اپنے کوڈ کو بہتر بنانے کی صلاحیت دیتا ہے۔ سیول (جنوبی کوریا) میں ۲۳؍ سالہ سائنسداں من ہیونگ لی نے ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے طلبہ پر مشتمل ٹیم کے ساتھ ’’اسپیسر‘‘ نامی اے آئی ماڈل تیار کیا ہے، جو بایولوجی اور کیمسٹری میں نئی سائنسی تحقیق کے خیالات خودکار طور پر پیدا کرتا ہے۔ اس منصوبے میں ۱ء۸؍ لاکھ تحقیقی مقالے بطور ڈیٹا استعمال کئے گئے اور اس پر تقریباً ۳ء۵؍ ملین ڈالر کی لاگت آئی جبکہ اسٹارگیٹ پروجیکٹ (صدر ٹرمپ کا منصوبہ) میں ۵۰۰؍ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ڈیپ مائنڈ کے ماڈلز اور اسپیسر، اوپن اے آئی اور اس جیسے دیگر ماڈلز سے سائنسی اعتبار سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
بیجنگ میں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے سائنسداں اسپائکنگ برین ماڈل پر کام کر رہے ہیں۔ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو ایسا اے آئی تیار کیا جا سکے گا جو انسانی دماغ کے اعصابی نیٹ ورک کی نقل کرے گا، اور موجودہ لارج لینگویج ماڈلز کے مقابلے میں بہت کم ڈیٹا استعمال کرے گا۔ مستقبل میں ہونے والی بعض دریافتیں ڈیٹا اور توانائی کے استعمال میں بڑی کمی لا سکتی ہیں۔ یہ کینسر اور دیگر لاعلاج بیماریوں کے علاج، سمندر سے نئی توانائی حاصل کرنے، نایاب دھاتوں کی آسان استخراج، اور فضا سے کاربن صاف کرنے والی حیاتیاتی اشیاء کی تیاری میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ دنیا بھر کی مختلف لیبارٹریز میں اس وقت نیورو سمبولک اے آئی، نیورو مورفک کمپیوٹنگ اور کوانٹم کمپیوٹنگ پر تحقیق جاری ہے۔ این ویڈیا ان شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
چینی اور کوریائی کمپنیاں بھی کوانٹم کمپیوٹنگ میں سرمایہ لگا رہی ہیں، مگر ان کی تفصیلات عام طور پر منظرِ عام پر نہیں آتیں۔اگر یہ کوششیں کامیاب ہو گئیں تو اے آئی کی دنیا مکمل طور پر بدل جائے گی، اور ڈیٹا سینٹرز اور توانائی کے پلانٹس میں کی گئی موجودہ سرمایہ کاری بڑی حد تک غیر ضروری ہو جائے گی۔ ہم ان سائنسی یا کوانٹم اے آئی ماڈلز کے ساتھ براہِ راست بات چیت نہیں کر سکیں گے جیسے ہم چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ کرتے ہیں۔یہ ماڈلز ایجنٹک اے آئی سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے ، اور جو بھی انہیں کنٹرول کرے گا، وہ انسانیت کے مستقبل پر اختیار رکھے گا۔زراعت یا طب میں استعمال ہونے والے سنگل ڈومین محدود اے آئی ماڈلز ایک سرے پر ہیں جبکہ الفا سیریز، اسپیسر اور اسپائکنگ برین ماڈل جیسے سائنسی اے آئی ماڈلز دوسرے سرے پر۔  درمیان میں وہ اے آئی آتے ہیں جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں ، جیسے چیٹ جی پی ٹی۔ چَیٹ بوٹس کو مکمل اے آئی سمجھ لینا ایسا ہی ہے جیسے مانیٹر کی اسکرین کو پورا کمپیوٹر کہنا، اور سی پی یو کو نظر انداز کر دینا۔
انسانیت کے آخری دن؟
سائنسی اے آئی ماڈلز اگلی ایک یا دو دہائیوں میں زندگی کو انقلابی طور پر بدل سکتے ہیں ، لیکن یہ زندگی کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں۔اگر ان پر مناسب ضابطہ بندی نہ کی گئی تو اے آئی سیفٹی ماہرین کو اندیشہ ہے کہ یہ ایسے حیاتیاتی ایجنٹس پیدا کر سکتے ہیں جو انسان کے قابو سے باہر ہوں، یا ایسے دھوکہ دہ نظام بنا سکتے ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے دفاعی نظام میں نقب لگا سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ماڈلز بالآخر خودکار ارتقا سے خودکار افزائش کی طرف بڑھ جائیں۔ جس دن دنیا کسی دن خود کو نقل کرنے والے اے آئی الگورتھم کے ساتھ جاگے گی، وہ دن انسانی برتری کے خاتمے اور سائنسی بالادستی کے آغاز کا دن ہوگا۔ حال ہی میں سیم آلٹ مین نے کہا کہ ’’اگلے چند برسوں میں کچھ بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔‘‘ انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ ان کا مطلب کیا ہے، مگر چونکہ انہیں اوپن اے آئی لیبس کی اندرونی تحقیق تک رسائی حاصل ہے، تو ممکن ہے کہ وہ خودکار افزائش یا غیر معمولی دھوکہ دہی صلاحیت جیسے خطرناک امکانات کی طرف اشارہ کر رہے ہوں ، جو کہ ایک عالمی ایٹمی جنگ جتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
چاہے مستقبل کا اے آئی انسانیت کیلئے فائدہ مند بنے یا تباہی، ایک بات طے ہے:وہ دنیا موجودہ چَیٹ بوٹس، ڈیٹا سینٹرز، چھوٹے نیوکلیئر پلانٹس، اور نظم و نثر لکھنے والے اے آئی ٹولز کی دنیا سے بالکل مختلف ہوگی۔ اگر آج کا اے آئی آپ کے خیالات کو متاثر کر سکتا ہے، تو مستقبل کا اے آئی آپ کی زندگی کو کنٹرول کرے گا ، یا شاید زمین پر زندگی کے تصور ہی کو ختم کر دے۔
(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘ کے مصنف بھی ہیں۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK