• Sun, 14 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نفرت پھیلانے والے فلمساز ہوش کے ناخن کب لیں گے؟

Updated: August 31, 2025, 3:07 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

ان جعلی فلمی افراد کے سبب اس انڈسٹری کی وہ درخشاں روایت اب رفتہ رفتہ کمزور ہوتی جارہی ہے جو سیکولر افکار و اقدار کی تشہیر اور تحفظ کو ترجیح دیتی تھی

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

فرقہ ورانہ سیاست کے مذہبی منافرت والے ایجنڈے کو پردۂ سیمیں کے توسط سے سماج میں عام کرنے والے فلمسازوں کو نہ جانے یہ عقل کب آئے گی کہ ان فلموں سے نہ تو سماج کا کچھ بھلا ہوگا اور نہ ہی اس سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار ہوگی۔ اس طرز کی فلمیں بنانے والے نہ صرف سماج میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور تشدد میں اضافہ کے اسباب مہیا کرتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے فلم انڈسٹری میں ایک خلفشار کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سہارا لے کر سماجی حقیقت نگاری کا دعویٰ کرنے والے ان جعلی فلمی افراد کے سبب اس انڈسٹری کی وہ درخشاں روایت اب رفتہ رفتہ کمزور ہوتی جارہی ہے جو سیکولر افکار و اقدار کی تشہیر اور تحفظ کو ترجیح دیتی تھی۔ فلمی دنیا کی بعض نمایاں شخصیات جو کل تک سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھیں ، اب ان جعلی فلمی شخصیات کے گروہ میں شامل ہو چکی ہیں جن کا کام صرف فرقہ واریت کو بڑھاوا دینا ہے۔ 
گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران ان نام نہاد فنکاروں نے کشمیر فائلز، کیرالا اسٹوری، اودئے پور فائلز اور اس طرز کی جتنی بھی فلمیں بنائیں ان کا مقصد ملک کے مسلمانوں کے خلاف سماج میں ایسی نفرت پھیلانا تھا جو فرقہ ورانہ سیاسی گروہ کے ان مفروضات کو تقویت عطا کر سکے جن سے انھیں الیکشن میں فائدہ ملے۔ ان جعلی فن کاروں اور دھرم آمیز سیاست کے ذریعہ اقتدار کی راہ ہموار کرنے والے نیتاؤں کا یہ گٹھ جوڑ اس وقت زیادہ متحرک اور سرگرم ہو جاتا ہے جب کوئی اسمبلی یا پارلیمانی الیکشن ہونے والا ہوتا ہے۔ آئندہ برس مارچ میں مغربی بنگال میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کو بی جے پی نے اپنی ناک کا سوال بنا لیا ہے۔ اس ریاست کے اقتدار سے ممتا بنرجی کو بے دخل کرنے کی بھگوا گوشش گزشتہ دو انتخابات سے جاری ہے اور اسی کوشش کے تحت وزیر اعظم، وزیر داخلہ سمیت بھگوا پارٹی کے دیگر لیڈران اس ریاست کا دورہ کرتے رے ہیں اور اپنی لغو باتوں اور بے بنیاد دعوؤں سے مذہبی منافرت کے رجحان کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ آئندہ ۵؍ستمبر کو ریلیز ہونے والی فلم ’بنگال فائلز‘ کو بھی اسی کوشش کی ایک کڑی کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ 
اس فلم کی کہانی ۱۶؍اگست ۱۹۴۶ء کو کولکاتا میں ہونے والے فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات پر مبنی ہے۔ آزادی سے قبل اس ملک کی سیاست کو انگریزوں کی شاطر دماغی نے جو رنگ عطا کیا تھا، اس کے نتیجے میں کولکاتا سمیت ملک کے کئی دیگر حصوں میں تشدد اور فرقہ ورانہ فسادات کے کئی حادثات رونما ہوئے تھے جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو جان اور مال کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس دور کی مجموعی تاریخ کا غیر جانب دارانہ تجزیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بیشتر مسلمانوں کو ہی مصائب و آلام سے گزرنا پڑا تھا لیکن شدت پسند ہندوتوا کی حمایت کرنے والے عناصر اس صورتحال کو برعکس شکل میں پیش کرتے ہیں۔ فلم کے ٹریلر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بھی بنگالی مسلمانوں کی امیج اسی طور سے پیش کی گئی ہے۔ بنگالی مسلمانوں کے علاوہ مہاتماگاندھی اور ان کے عدم تشدد اور قومی یکجہتی کے نظریہ کو بھی ہدف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اور اس نوعیت کی دیگر فلموں کی تشکیل میں جو لوگ بھی شامل ہیں وہ سب اسی دھرم آمیز سیاسی ایجنڈے کی تشہیر کر رہے ہیں جس کا مقصد مذہبی منافرت کے سہارے سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران چونکہ یہ فارمولہ کامیاب بھی رہا ہے لہٰذا ان عناصر کو یہ لگتا ہے کہ اب ہر الیکشن میں یہ فارمولہ ان کیلئے کارگر ثابت ہوگا۔ حالانکہ اب عوام بھی اس جعلسازی کو سمجھنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں ریلیز ہونے والی ایسی ہی ایک فلم ’اودئے پور فائلز ‘ بری طرح ناکام ہو گئی۔ اس ناکامی سے حواس باختہ فلمساز امیت جانی سوشل میڈیا پر ہندوستان کے ہندوؤں کو ہی کوسنے لگے۔ 
ایسی فلمیں بنانے والوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی پشت پناہی کرنے والے نیتاؤں کا وہ روپ اب ظاہر ہو چکا ہے جو دوران انتخاب یا ریاستی اور مرکزی ایوانوں میں جمہوریت کا سہارا لے کر ہی جمہوریت کو ختم کرنے کی مشق کرتے رہے ہیں۔ سماج کی سچائی دکھانے کا دعویٰ کرنے والے ان فلم سازوں کو صرف وہی سچ کیوں نظر آتا ہے جو شدت پسند ہندوتوا کے افکار و رجحان کی تشہیر میں معاون ثابت ہو سکے ؟ سماجی انتشار کی کیفیت میں اضافہ کرنے والے ان جعلی فنکاروں کی نظر اس سچائی کی طرف نہیں جاتی جو عہد حاضر کے ہندوستانی مسلمانوں کی بدحالی، مایوسی اور محرومی کو عیاں کرتی ہے۔ ہر شعبۂ حیات میں ان کا قافیہ تنگ کرنے کی منظم حکمت عملی موجودہ اقتدار اور اس کے زیر اثر انتظامیہ کی شناخت کا حوالہ بن چکی ہے۔ 
سماجی سچائی کے اس کینوس کو ذرا وسیع کریں تو موجودہ اقتدار کی ناقص معاشی پالیسیوں اور فرقہ واریت پر مبنی فلاحی اقدامات کے سبب پیدا ہونے والے ان سماجی اور معاشی مسائل کی خوفناک شکل نظر آتی ہے جو ہندوستانی عوام کے طرز حیات اور معیار زندگی کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں۔ سماجی سچائی دکھانے کا دم بھرنے ان فرقہ پرست فنکاروں کو اگر واقعی ملک و معاشرہ سے ہمدردی ہے تو ماضی کے آسیب اور فرقہ ورانہ منافرت کو فلم ناظرین کے ذہنوں پر مسلط کرنے کے بجائے ایسی فلمیں بنانا چاہئے جو فلم ناظرین کو ذہنی تشنج میں مبتلا کرنے کی انھیں فرحت اور محبت کا احساس عطا کرے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK