Inquilab Logo

کھڑکیاں

Updated: July 12, 2020, 10:20 AM IST | Prof Syed Iqbal

سترہوں صدی میںبرطانیہ میں کھڑکیاں سماجی مرتبہ کی علامت تھیں۔جن گھروں میں۱۰؍ سے زیادہ کھڑکیاں ہوتیں، ان سے ’ونڈوٹیکس‘ لیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے امراء ہی اپنے کشادہ مکانوں میں اتنی کھڑکیوں کا بار اٹھاتے ہوں گے۔ اس میں نوکروں کو ایسے کمرے میں رکھا جاتا تھا جہاں کھڑکیاں نہیں ہوتیں۔ غریب غربا اپنے مکانات میں دس سے کم کھڑکیاں بناتے اور ’فرنچ ونڈو‘ جو چھت سے لے کر فرش تک کھلی ہوتی ہیں، اُس وقت تک دریافت نہیں ہوئی تھیں

Window - Pic :  INN
کھڑکی ۔ تصویر : آئی این این

بچپن میں کھڑکیاں بڑی اچھی لگتی تھیں۔ ان سے جھانک کر ہم ساری دنیا کا نظارہ کرلیتے تھے۔ سڑک پر کسی نے آواز لگائی نہیں کہ ہم دوڑ کر کھڑکی کی طرف لپکتے۔ ان دنوں ٹھیلے والے آواز لگاکر سامان بیچا کرتے تھے۔ ان میں کبھی سبزی ترکاری والے ہوتے اورکبھی پرانا سامان خریدنے والے۔پردہ نشین خواتین کھڑکی کے توسط سے ٹھیلے والے کو دیکھ لیتیں اورکسی کوبھیج کر مطلوبہ چیزیں منگالیتیں۔ ان سیدھی سادی خواتین نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایک  دن شاپنگ مالز اپنی چھت کے نیچے ساری دنیا بیچنے لگیں گے۔بچے اسکول جاتے تو مائیں کھڑکی سے جھانک کر ہاتھ ہلا دیتیں اوران کے آنے کا انتظار بھی کھڑکی کے ذریعہ ہوتا۔ بچے اپنی کھڑکیوں سے پتنگ اڑاتے اور اپنی چھوٹی چھوٹی غلیلوں سے چڑیوں کو نشانہ بناتے۔ ان دنوں ہاؤسنگ سوسائٹیاں تو تھی نہیں، نہ رہائشی عمارتوں سے لگے پارک تھے ، نہ جاگنگ ٹریک۔ دوچار منزلہ عمارتیںجو ایک دوسرے سے کندھا ملائے برسوں سےکھڑی تھیں۔ ان میں نمایاں چیز کھڑکیاں ہی تھیں جن پر اکثر پردے پڑے رہتے۔
  سترہویں صدی کے برطانیہ میں کھڑکیاں سماجی  مرتبہ کی علامت تھیں۔جن گھروں میں۱۰؍ سے زیادہ کھڑکیاں ہوتیں، ان سے ’ونڈوٹیکس‘ لیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے امراء ہی اپنے کشادہ دکانوں میں اتنی کھڑکیوں کا بار اٹھاتے ہوں گے۔ اس میں نوکروں کو ایسے کمرے  میں رکھا جاتا تھا جہاں کھڑکیاں نہیں ہوتیں۔ غریب غربا اپنے مکانات میں دس سے کم کھڑکیاں  بناتے  اور فرنچ ونڈو جو چھت سے لے کر فرش تک کھلی ہوتی ہیں، ابھی دریافت نہیں ہوئی تھیں۔ ہمارے ہاں بھی نچلے طبقے کی عمارتوں میں چھوٹی کھڑکیاں رہتیں، جن کی تعداد بھی کم ہوتی۔ ایسے بھی ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک ہی کھڑکی لگ سکتی تھی جس سے ہوا اور روشنی اندر آسکے۔ کسی جلوس کو دیکھنا ہوتا تو گھر کے مکین اس کھڑکی سے دیکھ لیا کرتے۔ انہی کھڑکیوں کے نیچے بڑے بوڑھوں کا بستر بھی ڈال دیا جاتا اور بچے بھی دن میں وہیں بیٹھ کر پڑھائی کرتے۔ اکثر بوڑھے افراد  انہی کھڑکیوں سے ٹک کر گھنٹوں سڑک کو تکتے رہتے۔ اب تو شہروں کی باقاعدہ منصوبہ بندی ہونے لگی ہے، ورنہ پہلے گلیاں ، اتنی تنگ ہوتی تھیں کہ آنے جانے  کے مکین بڑی سہولت سے ایک دوسرے سے بات چیت کرلیتے اورکبھی کھڑکیوں کے پردے ہٹ جاتے تو گھر کے اندر کا حال بھی دیکھا جاسکتا تھا۔ ان تنگ محلوں میں ہر کوئی ایک دوسرے سے واقف ہوتا جس کی ایک  وجہ وہ کھڑکیاں تھیں جو پڑوس کے مکینوں کو قریب کردیتی تھیں۔ فلم پڑوسن کے گیت ’میرے سامنے والی کھڑکی ‘کی سچویشن بھی اس دور کی عکاسی کرتی ہے۔ آج سامنے والی عمارت اتنی دور ہے کہ  وہاںسے چاند سا مکھڑا نظر آہی نہیں سکتا۔
  جب سے لاک ڈاؤن  ہوا ہے ہمیں وہ کھڑکیاں بہت یادآنے لگی ہیں ۔ چونکہ ہم نے ایسے ہی ایک محلے میں اپنا بچپن بتایا ہے، جہاں سامنے کی عمارتوںکے مکین کھڑکیوں  سے تقریباً روز ہی نظر آتے تھے، اس لئے ان پڑوسیوں سے قربت کا احساس آج بھی تازہ ہے۔ اتفاق سے کوئی سرِ راہ مل جائے تو آج بھی اتنے ہی تپاک سے ملتے ہیں جیسے کھڑکیاں  پھلانگ کر دو دوست ملتے ہوں۔ عرصہ ہوا ہم نے ان محلوں سے ہجرت کرلی اور ان گلیوں کو  چھوڑ کر مضافات کی بستیوں میں آگئے ، جہاں عمارتیں تو بہت ہیں مگر وہ کھڑکیاں نہیں ہیں۔ آج کھڑکیوں سے ٹریفک کا شور تو سنائی دیتا ہے مگر اپنائیت بھرے چہرے نظر نہیں آتے۔ کچھ عمارتوں میںبالکنیاں بھی ہیںجہاں بڑےسے دروازے پہرہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی صاحب ان بالکنیوں میں چائے پیتے دکھائی دیتے ہیں، کوئی صاحب پودوں کو پانی دیتے نظر آتے ہیں، کوئی صاحب سگریٹ پھونکتے نظر آتے ہیں، کوئی اپنی آرام کرسی پر پیر پھیلائے اخبار پڑھتے نظر آتے ہیں مگر ان مکینوں کو دیگر عمارتوں میں رہنے والوں کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ یہ سب ایسے رہتے ہیں جیسے دنیا کے واحد باسی ہوں ۔ فلیٹ ان کے لئے ایک قلعہ ہے جہاں ان کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔ ان کے پہرے دار نامانوس آوازوں اور اجنبی نگاہوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ 
  آج کل سڑکیں سنسنان پڑی ہیں۔ دن میں اِکا دُکا لوگ سوداسلف خریدنے کے بہانے اکیلے جاتے نظر آجاتے ہیں۔ کبھی پولیس والے تو کبھی ایمبولنس نظر آجاتی ہے  اور ہماری آنکھیں کسی گوشت پوست کے انسان کو دیکھنے کے انتظار میں تھکنے لگتی ہیں۔ہم بیزار ہوکر کوئی پرانا رسالہ اٹھا لیتے ہیں، پھر چند منٹوں بعد اسے بھی پٹخ دیتے ہیں۔ آخر لوگوں میں ایسا کون سا خوف سماگیا ہے کہ وہ کھڑکیوں تک نہیں آتے۔ ایسا لگتا ہے لوگوں نے کھڑکیوں سے باہر جھانکنے کی خوشیاں بھی بھلا دی ہیں۔ آخر گھر کے اندر ایسی کون سی مصروفیت مل گئی کہ کھڑکیوں تک آنا بھی یاد نہیں رہا۔ ان رہائشی کمپلیکس سے تو مزدوروں کی وہ چالیں اچھی ہیں جس کی ایک بڑی سی راہداری سے گزر کرآپ ہر کھولی میں جھانک سکتے تھے۔ ان دنوں اکثر کھولی والے باہر ہی بیٹھتے ہوں گے اور اپنے اپنے دروازے کھول کر باہر ہی گپ شپ کرتے ہوں گے۔ہم پڑھے لکھے اور پیسے والوں نے پڑوسیوں پر اپنے دروازے بند کرکے اپنیPrivacy  تو محفوظ کرلی مگراپنے اندر کے انسان کو جس گھٹن میں مبتلا کر دیا ہے اس سے ہم خود بھی واقف نہیں۔ ہمارے موجودہ فلیٹ کے سامنے کچھ عمارتیں ضرور ہیں مگر بسیار کوشش کے بعد بھی ایک کھڑکی ایسی نظر نہیں آتی جس سے اندر رہنے والوں کی موجودگی کا احساس ہوسکے۔ کبھی کبھار ہم سوچتے ہیں کہیں ان لوگوں نے کھڑکیاں کھلی رکھ کر خودکشی تونہیں کرلی۔ 
 آج لاک ڈاؤن کے سبب حکومت نے راستوں پر نکلنے پر پابندی عائد کردی ہے اور ملاقات پر ایک فاصلہ رکھنے کی بھی ہدایت دی ہے مگر دریچے میں آکر ایک دوسرے کا حال دریافت کرنے پر تو پابندی نہیں لگائی۔ اگر کوئی شریف آدمی کھڑکی سے مسکرا کر دیکھ لے یا شناسائی کا بھرم رکھنے کی خاطر ہاتھ ہلا دے تو ایسی کون سی قیامت ٓآجائے گی؟ ظاہر ہے اتنے فاصلے سے ہم حالات حاضرہ پر  تبصرہ تو نہیں کرسکتے، نہ یہ بتاسکتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر کون سا نیا سیر یل چل رہا ہے ، صرف چند پُرخلوص مسکراہٹوں کا تبادلہ کرسکتے ہیں مگر کوئی شریف آدمی کھڑکی  میں آئے تو۔
  اس پر ہمیں ایک بوڑھے کا واقعہ یادآتا ہے جو مقررہ وقت پر ہرشام ایک راستے سے گزرتے تھے۔ یورپ میں راستے عموماًسنسان ہوتے ہیں ۔ چونکہ لوگ گاڑیوں میںسفر کرتے ہیں، اس لئے زناٹے  سے گزرجاتے ہیں ۔ بڑے میاں کو چہل قدمی کی عادت تھی اورکسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ صاحب اپنے مکان میں اکیلے رہتے ہیں اور شام ہوتے ہی ٹہلنے نکل آتے ہیں ۔ ویسے بھی بنگلہ نما گھروں میں رہنے والے صرف تہواروں اور تقریبات پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اس لئے اپنے پڑوسیوں سے ان کی بھی صرف ہلو والی شناسائی تھی۔ ایک دن انہیں راستے کی دوسری جانب ایک مکان کی کھڑی سے جھانکتی ایک چھوٹی سی بچی نظر آئی جو انہیں مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ بڑے میاں نے فوراً اس بچی کی جانب ہاتھ ہلایا اور مسکرا کر خوشی کا اظہار کیا۔ اب یہ روز کا معمول ہوگیا کہ بڑ ےمیاں سڑک سے گزرتے، بچی کی طرف ہاتھ ہلاتے اوراس کی مسکراہٹ سمیٹ کر آگے بڑھ جاتے۔ ان چند لمحوں میں انہیں کتنی خوشی ہوتی ہوگی، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب ایک دن اس بچی کو اس بوڑھے کے  وکیل کی جانب سے ایک خط ملا جس میں انہوں نے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اس بچی کے نام کردیا تھا۔ ہمیں تو کسی جائیداد کی خواہش نہیں البتہ اتنی خواہش ضرور ہے کہ لاک ڈاؤن کے اس زمانے میں کچھ مسکراہٹیں اور کچھ شناسا نظریں ہمارے نام بھی کردی جائیں۔
  ہم اس بوڑھے کی طرح بھی نہیں جسے الفریڈ ہچکاک نے اپنی مشہور فلم Rear Window میں پیش کیا تھا جو گھنٹوں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر آس پاس کی دنیا کو دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے سامنے والے مکان میں ایک قتل  ہوتا دیکھا اور پریشان ہوگیا کہ کیا کرے؟ وہ معذور بھی تھا اور صرف اپنی وہیل چیئر کے ذریعہ ہی چل پھر سکتا تھا۔ آسکر انعام یافتہ فلم Parasite میں بھی ایک ایسی ہی کھڑکی دکھائی گئی ہے جو عمارت کے ’بیس مینٹ‘ میں ہے جہاں سے انواع واقسام کے کھانوں کے ٹرک دکھائی دیتے ہیں، بالآخر اس کھڑکی کے نظارے انہیں مجبور کردیتے ہیں کہ وہ بھی غربت  کے جہنم سے باہر نکلیں۔ ہم ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتے۔  ہماری  خواہش تو صرف اتنی ہے کہ گھر کی چار دیواری میں منہ پھلا کر بیٹھنے اور سارا وقت لاک ڈاؤن کی شکایت کرنے سے بہتر ہے کہ ہم کھڑکی کے توسط سے کھلی فضا کا نظارہ کریں، چڑیوں کے نغمے سنیں اور درختوں کے سبز لباس سے آنکھوں کو طراوٹ پہنچائیں۔ آج کل تو فضائی آلودگی بھی کم ہے، آسمان پر جھلملاتے تارے بھی نظر آنے لگے ہیں، تو کیوں نہ ہم  فطرت سے تھوڑے قریب ہو جائیں۔ ایران اور اٹلی کے لوگوں نے اپنی اپنی بالکنیوں میں کھڑے ہوکر گانے گائے ہیں، ہیمبرگ کے لوگ بالکنی میں ورزش کرنے لگے ہیں، نیویارک میں ایک صاحب  نے لاک ڈاؤن کے زمانے میں شادی رچالی ، ان کے پادری سامنے عمارت کی کسی منزل سے دعائیں کررہے تھے اور ان کی دلہن کسی اور منزل کی بالکنی پر کھڑی شادی کی رسوم ادا کر رہی تھیں۔ خود ہمارے ہاں شہر یوں نے بالکنی اور ٹیرس سے تالیاں اور تھالیاں بجاکر ڈاکٹروں اور نرسوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ یورپ کے کچھ نوجوانوں نے کھڑکیوں پر رنگ برنگے بینر لگاکر لوگوں کو احتیاط کرنے کا پیغام دیا ہے۔ اورایک ہم ہیں کہ لوکل ٹرین میں ونڈوسیٹ کیلئے تو  جھگڑا کرتے ہیں مگراپنی کھڑکی سے باہر دیکھنے پر راضی نہیں۔ کہیں فیضؔ کی طرح ہمیں بھی اپنے دریچے سےصلیبیں نظر آنے کا خوف تو نہیںستارہا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK