Inquilab Logo

ادیب، شاعر اور استاذ ہمارے دانشور اورعلمی، ادبی اورتعلیمی تقریبات ہماری دانش گاہیں ہیں

Updated: January 14, 2024, 1:59 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

یہاں نئی نسل کچھ سیکھنےآتی ہے، سیکھتی بھی ہے، اسلئے ضروری ہے کہ ذمہ داران اس بات کا خیال رکھیں کہ وہاں کوئی ایسی بات نہ ہو، جس سے نئی نسل پر برا اثر پڑے۔

Students should be called to learn something, not to applaud. Photo: INN
طلبہ کو تالیاں بجانے کیلئے نہیں، کچھ سیکھنے کیلئے بلانا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

ہم علمی وتعلیمی اجلاس کی اہمیت و افادیت اور اُن کے ذریعے نئی نسل کی ذہنی تربیت کرنا چاہتے ہیں ۔اسی کے ساتھ یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ان اجلاس کیلئے سیاست داں بے محل ہیں کیونکہ وہ ایسی تقریبات کو صرف سبوتاژ ہی کرتے ہیں ۔(۱) اوّل تو پتہ نہیں ان سیاست دانوں کو کس نے یہ سمجھادیا ہے کہ کسی مجلس میں وقت مقررہ پر پہنچنے سے اُن کی وقعت کم ہو جائے گی لہٰذا وہ ہمیشہ ہر پروگرام میں تاخیر ہی سے پہنچتے ہیں اور سارا مجمع ایسے مہمانِ خصوصی کا گھنٹوں انتظار کرتارہتا ہے۔تاخیر سے جب وہ جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہیں تو اُن کی اس بدتہذیبی پر اُن سے برہمی کا اظہار کرنے کے بجائے ناظمِ جلسہ اُن کا یوں استقبال کرتے ہیں ’’آپ کے انتظار کی گھڑیاں ختم ، جس عظیم شخصیت کا آپ بڑی دیری سے اور بے صبری سے انتظار کر رہے تھے،وہ اب تشریف لارہے ہیں ۔ آپ سبھی زور دار تالیوں سے بلکہ کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیجئے۔‘‘
 اس طرح وہ سیاستداں اپنے ۲۵۔۵۰؍پیروکاروں کے ساتھ جلسہ گاہ میں انٹری لیتے ہیں ۔وہ سیاسی ورکرس اسلئے ساتھ میں رہتے ہیں کہ وہ ہر تین چار منٹ پر اُن صاحب کی شان میں نعرے بازی کرتے رہیں اور ہر ۱۵؍ سیکنڈ پر تالیاں بجاتے رہیں ۔اب پہلے ہی وہ صاحب کافی تاخیر سے وارِد ہوکر اُس تعلیمی اجلاس کی آدھی روح نکال چکے ہوتے ہیں ۔ آنے کے کچھ دیر بعد ہی منتظمین جلسہ سے کہتے ہیں کہ اُنھیں کافی عجلت ہے، اُنھیں کسی دوسرے پروگرام میں شرکت کیلئے جانا ہے،اسلئے پروگرام کی ساری ترتیب کو اُلٹ پھیر کر اُنھیں ابھی تقریر کیلئے مدعو کرلیا جائے۔ منتظمین کو کوئی چارہ نہیں سوائے حکم بجالانے کے۔چند منٹ کی اپنی تقریر کے بعد جب وہ واپس جانے لگتے ہیں تو اُن کے ساتھ آئے ہوئے پیروکار بھی جلسہ گاہ چھوڑ کر جانا شروع کردیتے ہیں ، اس طرح ایک قسم کی بدنظمی سی پھیل جاتی ہے۔ ناظم جلسہ مائک پر چیخ چیخ کر درخواست کرتا ہے کہ صرف منسٹر صاحب جارہے ہیں ، پروگرام ابھی ختم نہیں ہوا ہے لیکن بدنظمی تو بہرحال پیدا ہوہی جاتی ہے۔ البتہ ایک منسٹر کے اِرد گرد پورے پروگرام کو مرکوز کرنے کی غلطی کا خمیازہ تو منتظمین کو جھیلنا ہی پڑتاہے کہ کافی تاخیر سے نمودار ہونے اور لگ بھگ بے تُکی تقریر کے باوجود اُنھیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں حاضرین یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ منسٹر صاحب ہی اِس پروگرام کی روح تھی اور اُن کے رُخصت ہوتے ہی پروگرام کی روح بھی قبض ہوگئی لہٰذا اُن کے جاتے ہی مجمع اُکھڑ نے لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : ہمیں اس بات کا خیال ہمیشہ رکھنا چاہئےکہ ہمارےعلمی، تعلیمی اور ادبی اجلاس ہماری تہذیبی درسگاہیں ہیں

نئی نسل کے نمائندے البتہ سخت مایوس ہوتے ہیں کہ وہ کاغذقلم لے کر اُس علمی مجلس سے استفادہ کرنے آئے تھے اور خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔ 
 (۲) اس طرح کے اجلاس میں ہمارے طلبہ کو اُس وقت بھی سخت مایوسی ہوتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ مشاہرین واکابرینِ ادب و علم کی کوئی عزت افزائی نہیں ہوئی اور مسند جلسہ پر وہ صاحبان براجمان ہیں جن کا دُوردُور تک علم وادب سے کوئی واسطہ نہیں۔ استفسار کرنے پر راز یہ کھلتا ہے کہ اُردو ادب کے جس اجلاس کی صدارت فرمارہے ہیں وہ حضرت گرچہ اُردو زبان و ادب سے نابلد ہیں البتہ اس جلسہ گاہ کے انتظامیہ کے صدر ہیں اور اُنھوں نے وہ ہال بغیر کرائے کے صرف اس شرط پر دیا تھا کہ اس اجلاس کی صدارت اُنھیں دی جائے گی۔ بقیہ تین حضرات بھی گرچہ غیر اُردو داں نہیں مگر جلسہ گاہ کے ٹرسٹی ہیں۔ ایک صاحب اسٹیج پر اسلئے ہیں کہ اُنھوں نے کھانے کا انتظام کیا ہے۔ مقالہ پڑھنے والے سبھی دانشورو اسٹیج سے نیچے تشریف فرما ہیں ۔ خیر جب سیمینار شروع ہوجاتا ہے تو ناظم جلسہ اعلان کرتے ہیں کہ صدارتی خطبہ پہلے ہوگا۔ اب چونکہ صدرِ جلسہ موضوع اجلاس سے واقفیت نہیں رکھتے، اسلئے موضوع سے ہٹ کر ۳۰۔۴۰؍منٹ تک اظہارِخیال کرکے بیٹھ جاتے ہیں ۔ سامعین میں موجود طلبہ اب کاغذ قلم سنبھالتے ہیں کہ اب سیمینار شروع ہونے جارہا ہے اور اُسی وقت ناظمِ جلسہ اعلان کرتے ہیں کہ چونکہ وقت بہت کم ہے اور ۱۰۔۱۰ مقالہ نگار ہیں ، اسلئے کسی کو پورا مقالہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہر کوئی ۱۰۔۱۰۔ منٹ میں اپنے مقالے کے صرف مرکزی خیال کو پیش کرے گا۔ دیکھ لیجئے کیا درگت بن گئی ایک ایسے علمی اجلاس کی جس میں طلبہ اپنے پسندیدہ ادباء اور اسکا لرس کو سننے اور اُن کے تحقیقی مقالات پر بحث سے مستفیض ہونے آئے تھے۔
 (۳) کسی علمی یا تعلیمی اجلاس کو زَک وہ مقررین بھی پہنچاتے ہیں جو اکثر موضوع سے ہٹ کر یا ہمیشہ صرف جو شیلی و جذباتی باتیں کرتے ہیں ۔ جہاں کہیں اُن کی تقریر لڑکھڑانے لگتی ہے وہ (اکثر بے محل ) اُردو کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں اُردو نثر میں وہ دم خم موجود ہے جس سے اپنے خیالات و احساسات کو احسن طریقے سے رکھا جا سکتا ہے۔ ہاں محفل کو ’گرمانے‘ اور تالیاں بٹورنے کیلئے اردو شاعری سے بہتر کچھ نہیں ۔ آزادی کے بعد اس کیلئے سب سے زیادہ استحصال اقبال کی شاعری کا ہوا۔ ہر مقرر ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ سناتے ہی رہتا ہے۔کسی کمپیوٹر گاہ کے افتتاح پر مقرر خاص شعر پڑھتا ہے: تھے ہمیں ایک تیری معرکہ آرا ئوں .... اور کسی ڈرائنگ کی نمائش پروہ کہتا ہے: دشت تو دشت ہے، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ کچھ مقررین کسی انتہائی سنجیدہ علمی یا ادبی تقریب کے دعوت نامہ میں بھی اپنے نام سے پہلے اپنی صفت خاص ’شعلہ بیان‘ مقرر لکھنے کا اصرار کرتے ہیں ۔نئی نسل بڑی آس سے آئی تھی مگر وہ گھر واپس جاتے وقت سوچتی رہی کہ تقریب کے اُس مقرر سے اُسے کیا ملا ؟ شکو ہ و جواب شکوہ!مگر وہ تو اقبال کا ہے۔ اُس مقرّر سے کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں ۔ مقرّر پھر بھی مصر ہے کہ پھر اتنی تالیاں کیوں بجیں ؟ کوئی اُسے بتائے کہ وہ تالیاں علامہ اقبال کیلئے تھیں ، ان کی فکر کیلئے تھیں ، اس مقرّرکیلئے نہیں !
 (۴) (الف) نئی نسل علمی و تعلیمی اجلاس میں صرف کچھ سیکھنے اور حاصل کرنے کیلئے آتی ہے البتہ اُسے اُس اجلاس کے مسند اعلیٰ یااسٹیج پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے اُس سے کبھی مایوس اورکبھی بڑی تکلیف پہنچتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے اکثر مہمانان پان چبائے جارہے ہیں ۔ کچھ تسلسل کے ساتھ جگالی بھی کر رہے ہیں اور اپنی باری آنے پر وہ پان کی پیک اُگل کر مائیک سنبھالتے ہیں ۔ نئی نسل سوچتی ہے اور ڈسٹرب ہوتے رہتی ہے کہ یہ اسٹیج کی کیسی اخلاقیات ہیں ایک ادبی، علمی، تعلیمی محفل میں مسندِ اعلیٰ پر تشریف فرما اکثر مہمانان پان کھا رہے ہیں ؟ اور کچھ تو ایسے اجلاس میں بھی یہ سب کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کا عنوان ہوتا ہے :ضبطِ نفس۔ یہ سب دیکھ کر طلبہ کے ذہنوں پر برا اثر پڑتا ہے۔
 (ب) طلبہ و نوجوانان بڑی توجہ سے اُن سارےمہمانان اور اُن کے سارے حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں جو اُس تقریب کی مسند اعلیٰ پر تشریف رکھتے ہیں ۔ طلبہ اپنی شدید نا پسندیدگی کا اظہار اُس وقت کرتے ہیں کہ جب ناظمِ جلسہ کسی دوسرے مقرّر یا شاعر کو دعوتِ سخن دیتا ہے تو اسٹیج پر تشریف فرما دوسرےمہمانان اپنے قریب بیٹھے شخص سے اُس کی بُرائی کرتا ہے، غیبت کرتا ہے یا اُس کا تمسخر اڑاتا ہے۔ اگر اتفاق سے سامنے کا کوئی مائیک چل پڑا تو ساری باتیں سنائی بھی دیتی ہیں ۔ کبھی کسی کے بلاوے پر کوئی منہ بناتا ہے۔ کبھی کسی کی تقریر یا کلام کے پیش کرتے وقت کوئی اونگھنے لگتا ہے، حتیّٰ کہ زور زور سے خرّاٹے لیتا ہے۔ کبھی کوئی مقرّریا شاعر جب یہ کہتا ہے کہ وہ اب آج کے موضوع پر بہت اہم با ت یادو شعر کہنے جارہا ہے، وہ توجہ چاہے گا۔ عین اُسی وقت ایک دو مقرّر یا شاعر اسٹیج سے اُتر جاتے ہیں کہ مائیک پر موجود اُس مقرّریا شاعر کو ’سبق‘ سکھانے کا اس سے اچھا موقع کیا ہوگا ؟ ادباء، شعراء، اساتذہ کو ہر معاشرے میں دانشور سمجھا جاتا ہے اور علمی، ادبی و تعلیمی تقریبات کو دانش گاہیں۔ 
 نئی نسل اُس علمی تعلیمی یا اوبی مجلس میں ہر گز یہ سب سیکھنے کیلئے نہیں آئی تھی۔ وہ اس کیلئے تیار نہیں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس سے بہتر ہے وہ ٹیڈ ( ٹیکنالوجی، ایجو کیشن اینڈ ڈیزائن ) ٹاکس یا تقاریر سے استفادہ کرے وہاں کم از کم فقرے بازی یا عیب جوئی تو نہیں ہوتی۔ کسی تقریب کے مسندِ اعلیٰ کی تہذیب اور ڈسپلن کا خیال رکھا جاتا ہے۔ سیاست،شہرت، اثر و رُسوخ یا کسی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر صرف قابل اور حقیقی معنوں میں جانکار وقابل افراد کو ہی معاشرے کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اب ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج اخبارات و رسائل انٹرنیٹ پر پڑھنے کا چلن شروع ہواہے تو کیا اسی طرح ہمارے علمی، تعلیمی، ثقافتی اور ادبی اجلاس بھی صرف ٹیڈٹاکس میں تبدیل ہو جائیں گے؟اس طرح کیا ہماری تہذیبی درسگاہیں اپنا وجود کھو دیں گی ؟ اللہ کرے ایسا نہ ہو!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK