• Fri, 26 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہمیں اس بات کا خیال ہمیشہ رکھنا چاہئےکہ ہمارےعلمی، تعلیمی اور ادبی اجلاس ہماری تہذیبی درسگاہیں ہیں

Updated: January 07, 2024, 3:16 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

دنیا بھر کے سارے مفکرین اس بات سے متفق ہیں کہ ماں کی گود بچّے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اس لئے کہ بچّے کو جب یہ دنیا، اس کا ماحول وغیرہ بالکل نیا ہوتا ہے، وہ ساری رہنمائی ماں کی گود ہی سے حاصل کرتا ہے۔ بچّے کی دوسری درسگاہ ہے اُس کا گھر۔

The minds of young students are blank, so whatever the teachers and the educational institutions where they study, write on their minds, it gets imprinted for life. Photo: INN
چھوٹی عمر کے طلبہ کا ذہن کورا ہوتا ہے،اسلئے اُن ذہنوں پر اساتذہ اور وہ تعلیمی ادارے جہاں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو کچھ بھی لکھتے ہیں، وہ زندگی بھر کیلئے نقش ہوجاتا ہے۔ تصویر:آئی این این

دنیا بھر کے سارے مفکرین اس بات سے متفق ہیں کہ ماں کی گود بچّے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اس لئے کہ بچّے کو جب یہ دنیا، اس کا ماحول وغیرہ بالکل نیا ہوتا ہے، وہ ساری رہنمائی ماں کی گود ہی سے حاصل کرتا ہے۔ بچّے کی دوسری درسگاہ ہے اُس کا گھر۔ گھر میں اسے جو بھی درس دیئے جا تے ہیں وہ براہِ راست اُسے قبول کرتا ہے۔ بچّےکی تیسری درسگاہ کا نام ہے مسجد۔ وہاں وہ وقت کی پابندی سیکھتا ہے نیز اجتماعیت اور ڈسپلن سے بھی متعارف ہوتا ہے۔ اُس کی چوتھی درسگاہ ہے مدرسہ، جہاں وہ کلام ربّانی کی صرف تجوید نہیں بلکہ اس کے مفہوم سے بھی آگہی حاصل کرتا ہے۔ بچّے کی پانچویں درسگاہ کا نام ہے اسکول، جہاں وہ ز باندانی، ریاضی، سائنس اور تاریخ و جغرافیہ کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے چند اصول بھی سیکھتا ہے۔ بچّے کی چھٹی اور انتہائی اہم درسگاہ کا نام ہے :دینی تعلیمی، ادبی و تہذیبی اجلاس ! آج ہم اسی چھٹی درسگاہ کے ضمن میں سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔
 ہم ہمیشہ والدین سے کہتے اور اصرار کرتے رہتے ہیں کہ ۱۰۔۱۲؍ سال کی عمر ہی سے اپنے بچوں کی اُنگلی پکڑ کر اُن کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم تھما کر دینی، تعلیمی اور ادبی اجلاس میں لے جائیں اور اُنھیں ترغیب دیں کہ کوئی دانشور، کوئی ماہر تعلیم، کوئی ماہر نفسیات ، کوئی محقق اور کوئی اسکالر اُن کے یا آس پاس کے علاقے میں خطاب کرنے والا ہو تو وہ وہاں پہنچ کر اس علمی مجلس سے استفادہ کریں ۔ طلبہ کو ہم یہ بتاتے رہتے ہیں کہ وہ دینی و تعلیمی اجلاس دراصل تہذیبی در سگا ہیں ہیں ۔ اکثراوقات اسکولوں کی درسی کتابوں سے وہ سب کچھ اُنھیں سیکھنے کو نہیں ملے گاجو اِن علمی مجلسوں میں شریک ہوکر ملے گا۔ ہم انہیں یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ ان مجلسوں میں وہ ہمیشہ بطور طالب علم شریک ہوں ، ماہرین کے تجربات و مشاہدات سے استفادے کے مقصد سے جائیں ، ان کے اقوال ذہن نشین کر لیں ، اپنی ڈائری یا بیاض میں انہیں نوٹ کر لیں اور اُن کا اعادہ بھی کرتے رہیں۔
 اب اگر ہم نئی نسل اور خصوصاً ڈیجیٹل نسل سے اصرار کرتے ہیں کہ یہ علمی اجلاس ہماری بیش قیمت تہذیبی درسگاہیں ہیں تو ہمیں اس کے تئیں ذمہ داری کا ثبوت بھی دینا چاہئے کہ ہم اپنے اس دعوے پر کھرے اُتریں اور نئی نسل کیلئے ان مجلسوں کو حقیقی معنوں میں فیض رساں ، مفید اور یادگار بنائیں کیونکہ یہ نسل ہر شے کی بڑی باریکی سے مشاہدہ کرتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس بات کی کوشش کرنی ہوگئی کہ ہمارے یہ اجلاس حقیقی معنوں میں تہذیبی درسگاہ بن سکیں۔

یہ بھی پڑھئے : اُردو کی نوحہ خوانی اور قصیدہ خوانی دونوں ہی لاحاصل ہیں

 ہم جب اپنی مجلس کو علمی یا تعلیمی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور نوجوانوں خصوصاً طلبہ کو اپنی جانب راغب کرانا ہمارا ہدف ہوتا ہے تو ہمیں اپنے اجلاس کو معیاری بنانے کیلئے کافی سنجیدہ ہونا پڑے گا مثلاً ہم اگر زندگی کی منصوبہ بندی، جیسے کسی سنجیدہ موضوع پر طلبہ کو مدعو کرتے ہیں تو اُس میں کسی سیاست داں کو مسند صدارت سونپتے یا مہمان خصوصی بنانے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے؟ اوّل تو ہم سبھی واقف ہیں کہ خصوصاً اس ملک میں سیاست داں کیسے بنتے ہیں ؟اُن میں سے اکثر میں زندگی کے تعلق سے کوئی سنجیدہ فکر نہیں ہوتی ، اس لئے وہ کسی علمی یا تعلیمی مجلس میں بھی تعلیم کے علاوہ ہر موضوع پر بات کرتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ کب اُن کی گاڑی پٹری سے اُتر گئی۔ ان علمی اجلاس میں اگر کچھ ایسے لوگوں کو مہمان خصوصی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جن کی اپنی زندگی کی پیش رفت ہی مشکوک ہو تو اُس کا نوجوانوں پر کیا اثر ہوگا؟ وہ اپنی زبان سے بھلے ایسی کوئی بات نہ کہیں لیکن ان کی موجودگی ہی سے طلبہ کو پیغام پہنچ جاتا ہے بلکہ اپنے خطاب میں اعلان بھی کرتے ہیں کہ ’’تعلیم و علیم سے کچھ نہیں ہوگا۔ آج ڈگریاں والے بھی کتنے بیکار ہیں ؟ میری ہی مثال لے لو۔ کوئی ڈگری نہیں ہے میرے پاس۔ ڈگری کہاں میں نے تو ہائی اسکول ہی میں تعلیم کا سلسلہ ختم کر دیا تھا لیکن دیکھئے ! آج میں منسٹر ہوں۔ میرے چار سیکریٹری ہیں وہ حکومت کے سارے اعلانات وغیرہ ترجمہ کر کے بتاتے رہتے ہیں ۔ کیاضرورت ہے ڈگری وگری کی۔‘‘
 اب بتائیے ایسے حضرات کو کسی علمی یا تعلیمی محفل میں طلبہ کو تحریک دینے والے یا رول ماڈل بناکر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟ اب اس طرح کے منسٹر یا اسی قبیل کی کسی دوسری سیاسی شخصیت یا کسی ’سیٹھ‘ کے بعد جب کوئی تعلیمی کائونسلر آکر طلبہ کی تین چار گھنٹہ بھی ذہن سازی کرنا چاہے تو طلبہ اُس دوران پورے عرصے میں صرف بے چین ہی رہیں گے اور آپس میں کانا پھوسی ہی کرتے رہیں گے کہ ’’ارے یار چھوڑو یہ سب چار سال کی ڈِگری، دو سال کا پوسٹ گریجویشن پھر دو سال انٹرن شب... یہ بتائیے آج کی اس تعلیمی تقریب کے صدر صاحب ساتویں جماعت ڈراپ آئوٹ ہوتے ہوئے بھی اتنے ’کامیاب‘کیسے ہوئے؟ یا یہ بتائیے کہ آج کے مہمانِ خصوصی چند سال پہلے سڑک پر بھاجی ترکاری بیچ رہے تھے۔اب اتنی فیکٹریوں کے مالک کیسے بن گئے؟ اسکول وغیرہ سے ناطہ توڑ کرآدمی ’بڑا‘ کیسے بنتا ہے وہ نسخے بتائیے۔‘‘
 اس ضمن میں سب سے زیادہ کوفت اُس وقت ہوتی ہے جب کسی ایسے لگ بھگ جاہل مہمان خصوصی کے ہاتھوں ریسرچ اسکالر اور اساتذہ کی بھی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ یہ جمہوری سیاست کی ریت ہوگی کہ کسی انگوٹھے چھاپ وزیر (یا جس کی اپنی ڈگری مشکوک ہے) کے ہاتھوں سے یونیورسٹی کے کانوکیشن اجلاس میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ حتیّٰ کہ ڈاکٹریٹ طلبہ کو ڈگریاں نوازی جائیں یا ان کے گلے میں سونے کے تمغے ڈالے جائیں البتہ ہمارے تعلیمی اورعلمی اجلاس میں اس بات کاخیال رکھا جانا چاہئے کہ نئی نسل کے سامنے ہم اہل علم و فکر افراد ہی کو رول ماڈل کے طور پر پیش کریں ۔ سیاسی نظام میں یہ’ اخلاقی خرد برد‘ اس لئے سرزد ہوتا رہتا ہے کہ اُس نظام کے نمائندے وہاں سے آ رہے ہیں جہاں ’بندوں کو گنا کرتے ہیں ،تولا نہیں کرتے۔‘
 سیاست، سیاسی نظام ، لال بتّی کی گاڑی، خوب خوب زمین جائیداد، دولت کی ریل پیل، سالگرہ پر چھپنے والے اشتہارات، اخبارات میں چھپنے والی رنگین تصاویر اور پکّی سیاہی میں چھپنے والی خبروں کی بنا پر ہمارے سیاست دانوں سے ہمارا معاشرہ مرعوب ہوتا رہتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ نئی نسل کے نمائندے جو ہماری علمی محفل کو ایک دبستان سمجھ کر، کاغذ قلم ہاتھ میں لے کر کچھ سیکھنے آئے ہیں ، وہ کیا پیغام لے کر جائیں گے جب کسی تصدیق شدہ ڈرگس ڈیلر یا سماج دشمن شخص کو مسند اعلیٰ پر بٹھایا جاتاہے۔ یہی نہیں ناظم جلسہ اس مہمانِ خصوصی کے اعزاز میں لگ بھگ درجن بھر القاب و آداب استعمال کر کے اپنی نقابت کو مزید ’رنگین‘ بناتا ہے۔ ایسے میں ہمارے طلبہ کو ذہنی اذیت بھی پہنچائی جاتی ہے جب کسی ادارے کے گولڈن جبلی یا ڈائمنڈ جبلی پروگرام میں کسی خالص سیاسی شخص کو مہمانِ خصوصی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ایسے تاریخی پروگرام میں طلبہ صرف اس آس پر شریک ہوتے ہیں کہ وہاں پر اُنھیں ادارے کے بانیان کے تعلق سے جاننے کا موقع ملے گا۔ اُن میں سے اگر کوئی حیات ہوگا تو اُس سے سننے کو ملے گا کہ نصف صدی پہلے جب حالات سازگار نہیں تھے، اُنھوں نے وہ ادارہ کیسے قائم کیا؟ اُسے جاری رکھنے میں اُنھیں کن کن صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اُنھوں نے وہ سب خوش اسلوبی سے کیسے نبھایا؟ وغیرہ۔ اُن بانیان کے اہل خانہ کی بھی پزیرائی ہوگی کہ اُن کی قربانیاں بھی ادارے کی کامیابی میں شامل ہیں ۔ وہ اساتذہ جنھوں نے انتہائی قلیل تنخواہوں میں کام کیا اور معاشرے کو کامیاب طلبہ دئیے اُن کی روداد سے اُنھیں تحریک ملے گی مگر ہوتا یہ ہے کہ ناظم جلسہ اُس انگوٹھے چھاپ منسٹر کے بارے میں ساری صفتیں استعمال کرتا جاتا ہے۔ طلبہ سوچتے ہیں کہ وہ اُس گولڈن جبلی پروگرام میں صرف اسلئے آئے تھے کہ وہ جان سکیں کہ انتہائی نامساعد حالات میں ادارے کیسے قائم ہواکرتے تھے؟ آگے چل کراُنھیں اگر کوئی ادارہ قائم کرنا ہے تو اُس کا آغازکیسے کرنا ہوگا وغیرہ۔ بڑی مایوسی کے ساتھ نوجوان جلسہ گاہ سے باہر آجاتے ہیں اور پھر وہ ہر ایک کے بارے میں یہی رائے قائم کرتے ہیں کہ ہمارے سماج میں علمی وتعلیمی اجلاس کے نام پر صرف اور صرف سیاسی پروگرام ہی منعقدہوتے رہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK