Inquilab Logo Happiest Places to Work

نوجوانو! اگر آپ دِلوں تک پہنچنا چاہتے ہو تو زیادہ زبانیں سیکھنے کی کوشش کرو

Updated: April 27, 2025, 1:52 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

زبان کاکوئی مذہب نہیں ہوتا، ہر زبان اور اُس کا ادب انسان کی شخصیت سازی میں ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔

This is 19-year-old Mahmood Akram, who can read and write 400 languages. Photo: INN.
یہ ۱۹؍ سالہ محمود اکرم ہیں جو ۴۰۰؍ زبانیں پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

بیک وقت کئی زبانوں کو جاننا اور جاننے کی کوشش کرنا سُنّت رسولؐ ہے۔ ہمارے پیغمبرؐ کے عہد میں حضورؐ نے مشاہدہ کیا کہ اُن کے صحابہ کرام میں اُس دَور کی رائج ساری زبانیں جاننے والے افراد موجود تھے البتہ یہودیوں میں مقبول ایک زبان سریانی جاننے والے ایک بھی صحابی نہیں تھے۔ آپؐ نے یہ محسوس کیا کہ اُسی بناء پر یہودیوں میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں دشواری آرہی ہے۔ جانتے ہیں آپؐ نے کیاکیا؟اپنے چہیتے صحابی اور کاتب وحی زید بِن ثابتؓکوسریانی زبان سیکھنے پر مامورکیا۔ اُنھوں نے وہ زبان سیکھی اور یہودیوں میں اسلام کا پیغام اُن کی زبان میں پہنچانے لگے تو یہودی بستیوں میں بڑی تیزرفتاری سے دین کا پیغام عام ہوتے گیا۔ 
دراصل اپنی زبان کے تعلق سے حسّاس، حتّیٰ کہ جذباتی ہونا انسانی سرشت میں ہے۔ کئی ملکوں کی تقسیم زبان کی بناء پر ہوئی۔ جغرافیہ، ثقافت، رہن سہن اس درجہ معنی نہیں رکھتا جتنا کہ زبان۔ ہمارے ملک میں بھی مختلف زبانوں کا اثر اور اُن کی اہمیت مسلم ہے۔ اس ضمن میں صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ چند بیرونی ممالک میں ہم نے دیکھا کہ عیسائی قوم زبانوں کے تعلق سے بڑی لچکدار ہوتی ہے۔ وہ جس جس علاقے میں جاکر بستی ہے اُس علاقے کی زبان کو اپنا لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی نظراُن کے ہدف پر ٹِکی رہتی ہے اور اُن کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب، اپنے عقیدے کا پیغام ہر چھوٹی بڑی زبان کے ذریعے عوام النّاس تک پہنچائیں۔ ہماری قوم کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس سلسلے میں ہم مثال دینا چاہیں گے ریاست مہاراشٹر کی۔ اس ریاست کی موجودہ آبادی لگ بھگ ۱۲؍کروڑ ہے اور اُن میں سے ۸؍کروڑ لوگ صرف مراٹھی زبان جانتے ہیں اور ہماری قوم اُن ۸؍کروڑ کی آبادی تک دین اسلام کی تعلیمات کا پیغام احسن طریقے سے نہیں پہنچاپارہی ہے۔ اس بڑی ناکامی کو اس مثال سے بھی سمجھئے۔ دُوردرشن کا مراٹھی چینل سہیادری مہاراشٹر کی دیہی آبادی میں کافی مقبول ہے۔ اُس چینل پر ہر رات ایک بڑا ہی مقبول پروگرام’ ساڑھے نوچیا باتمیا‘ نشر ہوتا ہے۔ اُس پروگرا م میں ہر رات کسی ایک دانشور کو دعوت دی جاتی ہے اور اہم موضوع پر اُس کامراٹھی زبان میں انٹرویو لیا جاتاہے۔ راقم الحروف کو ۲۵۔ ۳۰؍مرتبہ اس پروگرام میں مدعو کیا گیا البتہ بمشکل ۶۔ ۷؍ مرتبہ اُس موضوع پرہم سے گفتگو ہوئی جو ہمارا علاقہ رہا ہے یعنی تعلیم و تربیت۔ اکثرہمیں اِس موضوع پر بات کرنے کیلئے مدعوکیا گیا جو میری فیلڈ نہیں ہے خصوصاً دین کے کچھ متنازع موضوعات پر مباحثہ کرنا وغیرہ۔ ہم نے بہت حد تک اُن مباحثوں میں معلومات فراہم کی البتہ جب اس مراٹھی چینل کے ذمہ داروں سے استفسار کیا کہ دینی موضوعات پر بحث کرنے کیلئے ہمارے علماء کو کیوں مدعو نہیں کیا جاتا؟ تب اُنھوں نے بتایا کہ انہوں نے کوشش کی لیکن بیشتر علماء نے یہ کہہ کرمعذرت کرلی کہ وہ مراٹھی زبان کے ماہر نہیں ہیں، اسلئے اپنے خیالات کااظہار نہیں کرپائیں گے۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ناگپور اور اورنگ آباد سے ایک دومسلم نوجوان اب مراٹھی میں بحث کرنے کیلئے آنے لگے ہیں۔ 
نوجوانو! سوچئے کہ ۸؍کروڑ کی مراٹھی داں عوام تک دینِ حق کا پیغام پہنچانے کیلئے ہم کتنے سنجیدہ ہیں ؟ اتنی بڑی آبادی تک دین کا پیغام پہنچانہ پانے کا ہمیں کوئی افسوس تک نہیں ؟ اسی ملک میں دیگر کئی ریاستوں کی مقامی زبانوں میں تحریر و تقریر میں کوئی مہارت نہ ہونے کی بناء پر نہ جانے کتنے کروڑ لوگوں تک ہم اپنے دین کا پیغام پہنچانے اور اُ س کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دَور کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ محروم رہیں گے؟
زیادہ سے زیادہ زبانوں سے واقفیت کی اہمیت کا ہر باشعور فرد معترف ہے۔ اس ضمن میں ہم ایک مثال دینا چاہیں گے ایک برطانوی خاتون میڈیلین سلیڈکی (جو میرا بین کے نام سے مشہور ہوئیں ) مہاتما گاندھی کی تحریک جد و جہد آزادیٔ ہند سے بے حد متاثر ہوئیں اور یہ جاننے کی بڑی مشتاق تھیں کہ آخر ایک نہتا شخص کسی ہتھیارو اسلحہ کے بغیر کس طرح دنیا کی اُس وقت کی سب سے بڑی سُپر پاور سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہے۔ اسلئے اُنھوں نے ۱۹۲۴ء میں ہندوستان کے دَورے کا ارادہ کیا البتہ پھر اُنھوں نے سوچا کہ مہاتما گاندھی کی تحریک، اُن کا مِشن اور اُن کے افکار کو احسن طریقے سے سمجھنے کیلئے بہتر ہے کہ اُن کی زبانیں ہندی اور گجراتی بھی وہ سیکھیں لہٰذا اُنھوں نے اپنے دَورے کو ایک سال کیلئے موخر کیا اور اُس ایک سال میں اُنھوں نے وہ دونوں زبانیں سیکھیں تاکہ اُنھیں مہاتما گاندھی کی تحریک اور اُن کے خیالات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ آج بھی سارے باخبر افراد زبانوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مسلم ممالک میں ملازمتیں پانے کے متمنّی غیر مسلم افراد عربی بول چال کا کورس کرتے ہیں اور وہ اس میں زرّہ برابر بھی نہیں جھجکتے کہ وہ عربی کیوں پڑھیں کیوں کہ عربی تو مسلمانوں کی زبان ہے! ہمارے ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں عربی زباندانی نیز بول چال کے کورس جاری ہیں اور اُن میں غیر مسلم طلبہ کی بھاری اکثریت داخلہ لیتی ہے۔ اس بناء پر اُن غیر مسلم طلبہ کو مسلم ممالک میں مستقل طورپر سکونت حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں آتی۔ 
نوجوانو! اپنی بات، اپنا پیغام دوسروں تک اُن کی اپنی مادری زبانوں میں پہنچانا کامیابی کی ضمانت ہے۔ پیغمبرؐ اسلام نے اپنے دَور میں بھی اُس زمانے کی رائج زبانوں کو سیکھنے کیلئے صحابہ کرام کومامور کرکے ہم پر یہ عمل لگ بھگ لازم قرار دیا ہے کہ ہمیں کثیر اللسان بننا ہے، زیادہ سے زیادہ زبانوں کو سیکھناہے۔ اس ضمن میں جدید تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ ایک ذہن و فطین نہیں بلکہ اوسط درجے کا طالب علم بھی اپنی زندگی میں کم و بیش چار زبانیں نہ صرف سیکھ سکتا ہے بلکہ اُن پر مہارت بھی حاصل کرسکتا ہے۔ ذہین طالب علم۶۔ ۷؍زبانوں کا ماہر بن سکتا ہے اور فطین یا جینئس طالب علم ۱۱۔ ۱۲؍ زبانوں میں مہارت حاصل کرسکتا ہے۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ہمارے معاشرے میں موجود طلبہ میں سے بیشتر اوسط درجے کے ہیں تب بھی وہ چار زبانیں سیکھ کر اُن میں مہارت حاصل کر ہی سکتے ہیں۔ اور وہ زبانیں یہ ہوسکتی ہیں : (۱)اُردو(۲) انگریزی (۳) عربی (۴) ریاستی زبان۔ 
نوجوانو؟ موجودہ زمانے میں ہمارے ہر طالب علم کا کم از کم چار زبانوں پر عبور حاصل کرنا یعنی بول چال اور لکھنے، پڑھنے میں روانی حاصل کرناانتہائی ضروری ہوگیا ہے کیوں کہ الیکٹرانک، سوشل اور پرنٹ میڈیا میں ہماری بات، دین کا پیغام، حق کے دلائل ان سارے میڈیا میں احسن طریقے سے پیش کرنے والے افراد کی بڑی قلّت ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹی وی /سوشل میڈیا کے بحث و مباحثوں میں کیسے کیسے لوگوں کو (دانستہ یا نادانستہ) بُلایا جاتا ہے۔ وہ نا اہل افراد نہ صرف سارے مباحثے ہار جاتے ہیں بلکہ نادانی میں اپنے دین کی قطعی غلط تصویر پیش کر آتے ہیں۔ 
نوجوانو! ہمیں علم ہے کہ گزشتہ دہائی میں اُٹھتے بیٹھتے ہر بار آپ ہر سوال گوگل سے پوچھا کرتے تھے کہ کس چیز کی کیا اہمیت ہے وغیرہ۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی قسم کے سوالات آپ مصنوعی ذہانت سے دریافت کرتے ہیں۔ اگر وہ ہے تو پھر نِت نئی چیزیں سیکھنے کی ہمیں ضرورت کیا ہے، مصنوعی ذہانت ہے نا وہ مسئلہ حل کردے گی البتہ اب یہی سوال اے آئی سے پوچھ لیجئے کہ اُس کے رہتے ہوئے کئی ساری زبانوں پر عبور حاصل کرنا یا سیکھنا بھی کہاں ضروری ہے؟ اور ساری مصنوعی ذہانتیں ایک ہی سُر میں یہ جواب دیں گے: ’’(ا) اے آئی کے زمانے میں بھی کثیر اللسان بننا بے حد سُود مند ہے۔ (۲) مشین کے تراجم کی اپنی حدود ہیں۔ (۳)صرف ترجمہ، بات چیت، ڈائیلاگ یا کمیونی کیشن میں کام نہیں آتا۔ (۴) اپنے آپ میں خود اعتمادی پیدا کرنے کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنا ضروری ہے۔ (۵) کریئر کے کئی مواقع بھی کئی زبانوں کے جاننے سے روشن ہوجاتے ہیں۔ (۶) لگ بھگ ہر انسان پر اُس کی اپنی مادری زبان میں گفتگو پر ایک بڑا خوشگوار تاثر قائم ہوجا ہے۔ ‘‘ دیکھا آپ نے مصنوعی ذہانت بھی زباندانی کے ضمن میں اپنے تنگیٔ داماں کا اعتراف کرتی ہے۔ 
زبان کاکوئی مذہب نہیں ہوتا، ہر زبان اور اُس کا ادب انسان کی شخصیت سازی میں ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہیں اسلئے نوجوانو! زیادہ سے زیادہ زبانوں کو سیکھنے میں آپ کا فائدہ ہے اور سکون قلب بھی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK