Inquilab Logo

الیکٹورل بَونڈس کے غیر آئینی قرار دیئے جانے کا خیرمقدم

Updated: February 18, 2024, 1:11 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

عدالت نے فیصلہ سنا دیا جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ بَونڈس سے ملنے والی رقوم سے کتنے ہی الیکشن لڑے جاچکے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آپ جانتے ہیں  سپریم کورٹ نے انتخابی بَونڈس کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ یک رُخے فیصلوں  کے خلاف مزاحمت کرنے والوں  کیلئے عدالت سے ملنے والی یہ فتح مثالی ہے، ایسی فتوحات اب شاذ و نادر ہی ملتی ہیں ۔ لیکن، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ غیر آئینی بَونڈس سے حاصل شدہ خطیر رقومات، جو غیر قانونی قرار پاچکی ہیں ، سے کئی الیکشن جیتے گئے ہیں  جن میں  ۲۰۱۹ء کا لوک سبھا الیکشن بھی شامل ہے۔ اس پس منظر میں  ، کیا ہی اچھا ہوتا اگر عدالت اس معاملے میں  پہلے ہی فیصلہ سنا دیتی لیکن ایسا نہیں  ہوا۔ جب سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی سے، جنہیں  سبکدوشی کے بعد راجیہ سبھا کی نشست سے نوازا گیا، پوچھا گیا کہ اُنہوں  نے اس معاملے کی سماعت کیوں  نہیں  کی تو اُن کا جواب تھا کہ اُنہیں  علم نہیں  کہ معاملہ عدالت میں  پیش ہوا تھا۔ 
 بہت سے لوگ نہیں  جانتے ہوں  کہ الیکٹورل بَونڈس کا معاملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کیا تھا، اسی لئے یہ مضمون تحریر کیا جارہا ہے تاکہ قارئین جان لیں  کہ یہ ہماری جمہوریت بالخصوص انتخابی جمہویت کیلئے کس قدر پریشان کن اور نقصان دہ تھا۔ 
 مرکزی حکومت نے الیکٹورل بَونڈس کی اسکیم کا اعلان ۲۰۱۷ء میں  بجٹ کی پیشی کے دوران کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں  نامعلوم عطیہ دہندگان سے عطیات قبول کرسکتی ہیں ۔ اسکیم کے تحت بَونڈس خریدنے کیلئے عطیہ دہندگان کو اپنی شناخت بینک کو ظاہر کرنی تھی مگر بَونڈ پر شناخت ظاہر نہیں  ہونی تھی۔ بہ الفاظ دیگر، اس اسکیم کے تحت سیاسی جماعتیں  عطیات قبول کرسکتی تھیں  یہ جانے بغیر کہ عطیہ دہندہ کون ہے۔ رائے دہندگان کو یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں  تھا کہ سیاسی جماعتوں  کو کون پیسہ دے رہا ہے اور کس طرح اُن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سے غیر ملکی کمپنیوں  اور جعلی کمپنیوں  کو بھی سیاسی جماعتوں  کو پیسہ دینے کا موقع مل گیا تھا کیونکہ اُن کی شناخت ظاہر نہیں  ہونی تھی۔ اس اسکیم کی وجہ سے کمپنیز ایکٹ کی یہ شق بھی بے معنی ہوگئی تھی کہ وہ کارپوریٹ کمپنیاں جو سیاسی جماعتوں  کو عطیات دیتی ہیں  اُنہیں  اپنی سالانہ مالی دستاویزات میں  ظاہر کرنا تھا کہ اُنہوں  نے کس کو عطیہ دیا ہے۔ اب اُن پر یہ لازم نہیں  رہ گیا تھا۔ ماضی میں  کارپوریٹ کمپنیوں  کیلئے ضروری تھا کہ اگر وہ سیاسی جماعتوں  کو عطیات دینا چاہتی ہیں  تو اپنے تین سال کے منافع کے اوسط کا ۷ء۵؍ فیصد ہی دے سکتی ہیں  مگر اس اسکیم کے سبب یہ پابندی یا شرط ہٹ گئی تھی۔ وہ نام اور شناخت ظاہر کئے بغیر کتنا بھی پیسہ دے سکتی تھیں  کہ اس اسکیم کے ذریعہ اُنہیں  اس کی چھو‘ٹ مل گئی تھی۔ ۲۹؍ شہروں  میں  اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی نامزد شاخ سے بَونڈس خریدے جاسکتے تھے۔ عطیہ دہندہ اپنے کھاتے سے بَونڈ خرید کر کسی بھی سیاسی جماعت یا فرد کو بطور تحفہ پیش کرسکتا تھا۔ جس پارٹی یا فرد کو یہ بَونڈ دیا گیا وہ اُس نقدی میں  تبدیل کروا سکتا تھا جس کی مدت پندرہ دن تھی۔
 ۲۰۱۷ء کے بجٹ سے چار دن پہلے ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے پایا کہ وزیر مالیات ارون جیٹلی کی تقریر میں  یہ کہا گیا تھا کہ بَونڈ کیلئے ریزرو بینک آف انڈیا کی اجازت درکار ہے کیونکہ یہ نئی اسکیم سیاسی جماعتوں  کو عطیہ دینے کے سابق طریقے سے کافی الگ ہے مگر شاید حکومت کی توجہ اس بات پر نہیں  ہے اس لئے اُس نے ایک ترمیم کا مسودہ تیار کیا اور اسے وزارت مالیات کے اعلیٰ عہدیداروں  کے پاس بھیج دیا۔ اسی دن (سنیچر، ۲۸؍ جنوری ۱۷ء کو) ریزرو بینک کو پانچ سطری ای میل روانہ کیا گیا کہ وہ اس اسکیم پر رائے دے۔ ریزرو بینک نے پیر، ۳۰؍ جنوری کو ای میل کا جواب دیا جس میں  کہا گیا تھا کہ ایسا کرنا درست نہیں  ہوگا کیونکہ ریزرو بینک ہی واحد بااختیار ادارہ ہے جو کسی دستاویز کے سامنے نقدی دے سکتا ہے اور چونکہ یہ بَونڈ نامعلوم افراد یا ادارے یعنی ایسے لوگ جن کی شناخت ظاہر نہیں  ہے، خریدیں  گے اس لئے یہ (بونڈ) کرنسی کے مترادف ہوں  گے جس کی وجہ سے ہندوستان کی کرنسی کی اہمیت متاثر ہوگی اور کرنسی پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا۔ 
 ریزرو بینک کا تبصرہ دوٹوک تھا، اس نے بہ الفاظ دیگر منع کردیا تھا کہ ایسا نہیں  کیا جانا چاہئے۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ بونڈ کے ذریعہ بدعنوانی روکنے کا مقصد پورا نہیں  ہوگا کیونکہ جو شخص یا کمپنی بونڈ خریدے گی ضروری نہیں  کہ وہی لے جا کر سیاسی جماعت کو پیش کرے۔ اسے اس طرح سمجھئے کہ کسی شخص نے بونڈ خریدا، اُس نے کسی کو بیچ دیا، ہوسکتا ہے کسی کمپنی کو یا کسی غیرملکی ادارے کو بیچا اور اُس ادارہ نے اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو دے دیا لہٰذا خریدنے والا کوئی اور ہے اور پیش کرنے والا کوئی اور۔ اس طرح یہ بے نامی بونڈ کے ذریعہ لین دین بالکل ایسا تھا جیسے نقدی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی آر بی آئی نے کہی تھی۔ اس عدم شفافیت سے بچنے کیلئے آر بی آئی کا کہنا تھا کہ عطیات بونڈ کے بجائے چیک، ڈرافٹ یا بینک ٹرانسفر کی شکل میں  قبول کیجئے۔ معلوم ہوا کہ حکومت کے ذریعہ اس اسکیم کو لاگو کرنے پر ریزرو بینک کو شدید اعتراض تھا۔۔
 دوسرا ادارہ جس نے الیکٹورل بَونڈس پر اعتراض کیا وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا تھا۔ عدالت میں  داخل کئے گئے اپنے افیڈوٹ میں  اس نے کہا تھا کہ الیکٹورل بَونڈس سیاسی جماعتوں  کی فنڈنگ میں  شفافیت کو بُری طرح متاثر کریں  گے۔ اس کا قانون بن گیا تب بھی الیکشن کمیشن کی مخالفت جاری تھی۔
 اس سے واضح ہوا کہ ملک کے دو اہم اداروں  نے الیکٹورل بَونڈس کی مخالفت کی تھی مگر اُن کی نہیں  سنی گئی۔ آر بی آئی کے اعتراض پر حکومت نے کہا تھا کہ اب کچھ نہیں  کیا جاسکتا کیونکہ مالیاتی بل کی کاپیاں  چھپ چکی ہیں ۔ 
 بہرکیف، یہ ایسا معاملہ تھا جس سے ثابت ہوا کہ جب ایک مضبوط حکومت کچھ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے خواہ وہ کتنا ہی غلط اور غیر آئینی کیو ں نہ ہو، حکومت کے اندر کے لوگ اس پر اُنگلی نہیں  اُٹھاتے۔ اس پورے پس منظر میں  سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی اور مثالی ہے۔اس فیصلہ کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ہمیں  یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہمارے جمہوری ادارے کتنے کمزور ہوچکے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK