کانگریس نےچیف جسٹس آف انڈیا سےمختلف ججوں کے ذریعہ ملک بھر میں سنائے گئے بعض فیصلوں کا سنجیدگی سے سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کیا،کانگریس لیڈر راجندر پال گوتم نے کہا ’’ کچھ ججوں نےایسے فیصلے سنائے ہیں جو ان کے ذات پات کے تعصب کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
EPAPER
Updated: July 04, 2025, 1:15 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
کانگریس نےچیف جسٹس آف انڈیا سےمختلف ججوں کے ذریعہ ملک بھر میں سنائے گئے بعض فیصلوں کا سنجیدگی سے سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کیا،کانگریس لیڈر راجندر پال گوتم نے کہا ’’ کچھ ججوں نےایسے فیصلے سنائے ہیں جو ان کے ذات پات کے تعصب کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
کانگریس نےچیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی پر زور دیا کہ وہ مختلف ججوں کے ذریعہ ملک بھر میں سنائے گئے بعض فیصلوں کا سنجیدگی سے اور سخت نوٹس لیں جس میں ذات پات کے تعصب کو ہوا دی جارہی ہے۔ آج یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اے آئی سی سی میں ایس سی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین راجندر پال گوتم نے کہا کہ کچھ ججوں نے کچھ ایسے فیصلے سنائے ہیں جو ان کے ذات پات کے تعصب کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے ججوں کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ عدلیہ سخت رہنما خطوط جاری کرے کیونکہ جج اپنے اختیارات ملک کے آئین سے حاصل کرتے ہیں۔
راجندرپال گوتم نے اس سلسلہ میں چند فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے ایک جج نے عصمت دری کے ملزم کو اس بنیاد پر بری کر دیا تھا کہ اونچی ذات کے مرد کسی دلت یا قبائل خاتون کی عصمت دری نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہاکہ ۱۹۹۲ء میں راجستھان میں بدنام زمانہ بھنوری دیوی اجتماعی عصمت دری کیس میں بھی ملزم کو بری کرنے کے لیے اسی طرح کی دلیل استعمال کی گئی تھی۔ ان تمام سالوں میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ حال ہی میں اڈیشہ میں سنائے گئے اسی طرح کے ایک اور فیصلے میں گوتم نے انکشاف کیا کہ غیر قانونی کانکنی کے خلاف احتجاج کرنے والے دو دلت نوجوانوں کو جیل بھیج دیا گیا اور جب ان میں سے ایک کو ہائی کورٹ نے ضمانت دی تو یہ شرط عائد کی گئی کہ وہ پولیس اسٹیشن میں صفائی کا کام کرے گا۔
کانگریس لیڈرنے کہا کہ اگر ججوں کا یہ رویہ اور ذہنیت ہے تو عام لوگوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کےفرقہ وارانہ اثرات مرتب ہوں گے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ایس سی اور ایس ٹی کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ درج فہرست ذاتوں کے قومی کمیشن اور درج فہرست قبائل کے قومی کمیشن کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ ادارے بے اختیار ہو گئے ہیں، کیونکہ حکومت نے تمام اراکین کا تقرر نہیں کیا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ درج فہرست ذات وقبائل کے خلاف مظالم سے متعلق موصول ہونے والی۶؍ لاکھ سے زیادہ شکایات میں سے صرف ۷؍ہزار ۵۰۰؍ کو کمیشن نے سنا۔ اگر حکومت نہیں چاہتی کہ ادارے کام کریں تو بہتر ہے کہ انہیں بند کردیا جائے۔ راجندرپال گوتم نے دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف مظالم کے معاملے پر آر ایس ایس اور اس سے منسلک تنظیموں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ ایک طرف وہ ہندوؤں کے اتحاد کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف وہ دلتوں اور قبائلیوں کوہندو نہیں مانتے۔