Inquilab Logo

سپریم کورٹ کی قابل قدر ہدایت

Updated: February 15, 2020, 11:00 AM IST | Editorial | Mumbai

 سپریم کورٹ نے بہت صاف اور واضح الفاظ میں ہدایت دی ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں ’داغی‘ افراد کو انتخابی اُمیدوار بناتی ہیں ، وہ اُن کے نام کا اعلان کرنے کے ۴۸؍ گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اُن کی تفصیل درج کرے کہ کن معاملات میں اُن پر کیا الزامات ہیں تاکہ متعلقہ رائے دہندگان اُن کے بارے میں اچھی طرح جان لیں۔

سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

 سپریم کورٹ نے بہت صاف اور واضح الفاظ میں ہدایت دی ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں ’داغی‘ افراد کو انتخابی اُمیدوار بناتی ہیں ، وہ اُن کے نام کا اعلان کرنے کے ۴۸؍ گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اُن کی تفصیل درج کرے کہ کن معاملات میں اُن پر کیا الزامات ہیں تاکہ متعلقہ رائے دہندگان اُن کے بارے میں اچھی طرح جان لیں ۔ عدالت کی ہدایت کے مطابق سیاسی جماعتوں کو صرف ویب سائٹ ہی پر مذکورہ تفصیل ظاہر نہیں کرنی ہے بلکہ اسے اخبارات میں بھی شائع کروانا ہوگا۔یہی نہیں ، اس کا بیورہ الیکشن کمیشن کو بھی فراہم کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اسے توہین عدالت قرار دیا جائیگا۔ 
  اس عدالتی ہدایت کا استقبال کیا جانا چاہئے کیونکہ جرائم میں سیاست اور سیاست میں جرائم کی آمیزش، جمہوریت کیلئے سم قاتل ثابت ہورہی ہے اور وقت کے ساتھ ایسے قانون سازوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت کیسیز درج ہیں ۔ گزشتہ دنوں ہم نے اسی کالم میں وہ اعدادوشمار پیش کئے تھے جن سے ایک سنگین صورتحال اُبھرتی ہے۔ یہ اعداددوشمار اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے ظاہر کئے اور کہا تھا کہ لوک سبھا کے ۵۳۹؍ اراکین میں ۲۳۳؍ ایسے ہیں جن کے خلاف مختلف معاملات چل رہے ہیں ۔ ان کی تعداد لوک سبھا کی مجموعی تعداد کا ۴۳؍ فیصد ہے۔ ان میں چند اراکین تو وہ ہیں جن کے خلاف قتل، عصمت دری اور اغواء کا الزام ہے۔ ۵۳۹؍ میں جن ۲۳۳؍ اراکین کے خلاف معاملات درج ہیں اُن میں سب سے زیادہ (۱۱۶) بی جے پی، اس کے بعد کانگریس (۲۹)، جے ڈی یو (۱۳)، ڈی ایم کے (۱۰) اور ترنمول کانگریس (۹) کا نمبر آتا ہے۔ سوچئے ہم کہاں ہیں اور دیکھ لیجئے کہ کوئی پارٹی مبرا نہیں ہے۔ 
 اے ڈی آر کے مطابق، ’داغی‘ اراکین پارلیمنٹ میں ۲۰۱۴ء کے مقابلے ۲۰۱۹ء میں ۲۴؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اگر ۲۰۰۹ء سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اضافہ ۱۰۹؍ فیصد ہے۔ جی ہاں ۱۰۹؍ فیصد۔ اس پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ وطن عزیز کی سیاست میں جرائم اور جرائم میں سیاست کی آزمائش کوئی سربمہر راز نہیں ہے۔ ہر خاص و عام اس حقیقت سے واقف ہے۔ ہر خاص و عام پر یہ حقیقت بھی آشکار ہے کہ ہماری لوک سبھا کی ایک رُکن ایسی بھی ہے جس کے خلاف دہشت گردی کا الزام ہے۔ چونکہ عوام نے بھی سیاست اور جرائم کی ملی بھگت کو شرف قبولیت بخش دیا ہے اس لئے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکور نامی یہ رُکن پارلیمنٹ عوامی ووٹوں سے باقاعدہ منتخب ہوکر لوک سبھا پہنچی ہیں ۔ اس انتخاب پرتنقید ضرور ہوئی مگر نہ تو بی جے پی نے اُن کا ٹکٹ واپس لیا نہ ہی رائے دہندگان نے اُنہیں ناکام کیا۔ ایسے افراد کا پارلیمنٹ میں داخلہ روکنے کے مقصد سے سپریم کورٹ کی مذکورہ ہدایت پر کس حد تک عمل کیا جاتا ہے اور اس کے کتنے خوشگوار نتائج برآمد ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر کوئی فرق نہ پڑے یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ اُس شفافیت کی جانب اہم قدم ہے جو جمہوریت کو مطلوب ہے۔
 ہوتا یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ عہدیدار، ’اُمیدواری‘ کی اُمید رکھنے والوں کی مالی طاقت، ’’سماجی رسوخ‘‘ اور الیکشن جیتنے کی صلاحیت کو اہمیت دیتے ہیں ، مجرمانہ ریکارڈ نہیں دیکھتے۔ واقف ہوں تب بھی مجرمانہ ریکارڈ پر نظر نہیں ڈالتے۔ اس طرح صرف اور صرف پارٹی کا فائدہ ملحوظ رکھا جاتا ہے، ملک اور قوم کا مفاد بُری طرح نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عدالت نے ایسی قابل قدر کوشش کی ہو۔ ۲۰۱۴ء میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات کو ایک سال میں فیصل کیا جائے مگر تیز رفتار عدالتوں کے قیام کے باوجود آج بھی یہ مقدمات برسوں التوا میں رہتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس سے لاعلم کوئی نہیں ہے۔ پھر بھی اُمید کا دامن تو ہاتھ سے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK