Updated: July 16, 2025, 6:00 PM IST
| Mumbai
بامبے ہائی کورٹ نے کولہاپوری چپل کے ڈیزائن کی نقلکے الزام میں ’’پراڈا‘‘ کے خلاف عوامی مفاد کی درخواست خارج کردی، اس میں مہاراشٹر کی مشہور کولہاپوری چپل کے ڈیزائن کی بغیر اجازت نقل کرنے کے الزام میں اطالوی لگژری فیشن ہاؤس ’’پراڈا‘‘ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بامبے ہائی کورٹ۔ تصویر: آئی این این
چیف جسٹس الوك ارادھے اور جسٹس سندیپ مارنے پر مشتمل بینچ نے درخواست گزاروں (پانچ وکلا) کے ’’حق موقف‘‘ (لوكس اسٹینڈی) اور قانونی حق پر سوال اٹھاتے ہوئےمفاد عامہ کی درخواست کو مسترد کردیا۔ بینچ نے کہا کہ یہ وکلا اس معاملے سے براہ راست متاثر فریق نہیں ہیں اور نہ ہی جیوگرافیکل انڈیکیشن (جی آئی ٹیگ) یافتہ مصنوعات کے رجسٹرڈ مالک ہیں۔کورٹ نے سوال کیاکہ ’’آپ اس کولہاپوری چپل کے مالک نہیں ہیں۔ آپ کا حق موقف کیا ہے اور اس میں عوامی مفاد کیا ہے؟ کوئی بھی متاثرہ شخص دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں عوامی مفاد کیا ہے؟‘‘درخواست گزاروں کے وکلا اور پراڈا کے نمائندوں کی جانب سے دلائل سننے کے بعد بینچ نے کہا،’’درخواست خارج کردی جاتی ہے، تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا پر تحمل کا مظاہرہ نہ کرنا ریاستی مداخلت کا باعث بن سکتا ہے: سپریم کورٹ
واضح رہے کہ پانچ وکلاء کی جانب سے دائر اس مفاد عامہ کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ پراڈا نے۲۲؍ جون کو میلان میں منعقدہ اپنے فیشن شو میں۲۰۲۶ء کے مردوں کے اسپرنگ سممر کلیکشن کے حصے کے طور پر `ٹو رِنگ سینڈل پیش کیے۔جس کی قیمت تقریباً ایک لاکھ روپئے فی جوڑا ہے جوروایتی کولہاپوری چپل سےبہت حد تک مشابہ ہے۔ درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ یہ ثقافتی بے دخلی (کلچرل مِس اَپروپری ایشن) کے مترادف ہے اور صدیوں پرانے اس دستکاری سے وابستہ کاریگروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں کہا گیا’’پراڈا کا یہ اقدام بنیادی حق زندگی (آئین کے آرٹیکل ۲۱؍) کی خلاف ورزی ہے، جس میں کولہاپوری چپل بنانے والے کاریگروں کے روزگار اور ثقافتی شناخت کا حق شامل ہے۔‘‘ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ’’ پراڈا‘‘ نے نہ توکولہاپوری چپلوں کی ہندوستانی اصل کو تسلیم کیا اور نہ ہی ان کاریگروں کو کریڈٹ دیا جنہوں نے نسلوں سے اس دستکاری کو زندہ رکھا۔، جسے۴؍ مئی۲۰۰۹ء کو باضابطہ طور پر جی آئی ٹیگ کی حیثیت دی گئی تھی، ایک روایتی فن کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں مہارت اور وقت طلب عمل درکار ہوتا ہے، جس میں ایک جوڑا بنانے میں عام طور پر چار سے پانچ ہفتے لگتے ہیں۔
یہ بھی پرھئے: اُدیشہ میں خود سوزی کرنیوالی طالبہ زندگی کی جنگ ہار گئی ، جانچ کا مطالبہ
درخواست میں جیوگرافیکل انڈیکیشنز آف گڈز (رجسٹریشن اینڈ پروٹیکشن) ایکٹ،۱۹۹۹ءکی دفعہ ۲۲؍کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ’’ پراڈا کے اقدامات نے کاریگروں کے اخلاقی اور معاشی حقوق کو مجروح کیا اور اس دستکاری میں پیوست ثقافتی شناخت کو مجروح کیا۔‘‘ درخواست گزاروں نے آئین کے آرٹیکل۲۹؍(۱؍) کا بھی حوالہ دیا، جس کے تحت برادریوں کو اپنی الگ ثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہے، اور دعویٰ کیا کہ پراڈا کے اقدامات اس حق کی خلاف ورزی ہیں۔ درخواست گزار چاہتے تھے کہ کورٹ پراڈا کو چپلوں کو تجارتی بنانے سے روکنے، عوامی معافی اور روایتی کاریگروں کو ہونے والے معاشی نقصان کا معاوضہ دینے کا حکم دے۔
بعد ازاں ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ جی آئی ٹیگ کا رجسٹرڈ مالک ہی قانونی چارہ جوئی کرنے کا صحیح فریق ہے۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ درخواست گزار وکلا (درخواست دائر کرنے کا) کوئی حق موقف نہیں رکھتے۔ عدالت نےدرخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ تفصیلی حکم اور وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔