Inquilab Logo

انتخابی اخراجات پر قدغن لگے گی؟

Updated: February 19, 2024, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

الیکٹورل بونڈس پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکمراں طبقے میں پیدا ہونے والی تشویش کتنی گہری ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے اچانک ایک بڑے خزانے کی کنجی ہاتھ لگی اور پھر ہاتھ سے چلی گئی۔ اس پر بی جے پی کے ارباب حل و عقد سر جوڑ کر نہ بیٹھے ہوں ایسا نہیں ہوسکتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

الیکٹورل بونڈس پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکمراں  طبقے میں  پیدا ہونے والی تشویش کتنی گہری ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے اچانک ایک بڑے خزانے کی کنجی ہاتھ لگی اور پھر ہاتھ سے چلی گئی۔ اس پر بی جے پی کے ارباب حل و عقد سر جوڑ کر نہ بیٹھے ہوں  ایسا نہیں  ہوسکتا۔ سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے مقدر کا لکھا مان کر آگے بڑھ جائیں ، یہ بھی نہیں  ہوسکتا۔ اب ان کی کوشش ہوگی کہ فیصلے کا احترام تو کریں  مگر کچھ ایسا کریں  کہ اس کی زد میں  آنے سے بچ جائیں ۔ اگر ایسی ہی کوئی پلاننگ ہوئی تو کیا سپریم کورٹ میں  نظر ثانی کی عرضداشت داخل کی جائیگی؟ کیا کوئی آرڈیننس لایا جائیگا؟ کیا کوئی اور تدبیر اختیار کی جائیگی؟ یہ اہم سوالات ہیں  اور اس لئے پیدا ہوئے ہیں  کیونکہ خزانے کی کنجی ’’گم‘‘ کرکے الیکشن کیسے لڑا جا سکتا ہے!
 یہی مسئلہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات کو اتنا خرچیلا بنا دیا ہے کہ اگر پارلیمانی امیدوار کو طے شدہ اخراجات کی حد میں  رہنا ہو تو یہ ممکن نہیں  رہ گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہر امیدوار طے شدہ حد سے کہیں  زیادہ خرچ کرتا ہے بلکہ پارٹی مجموعی ماحول کو سو فیصد موافق بنانے کی کوشش میں  بے حساب پیسے خرچ کرتی ہے۔ ریلی، روڈ شو اور ایسے کتنے ہی تشہیری لوازمات ہر الیکشن کا لازمی جزو بن چکے ہیں  خواہ وہ کارپوریشن اور اسمبلی کے انتخابات ہوں  یا پارلیمنٹ کا بڑا الیکشن۔ کانگریس کے دور میں  بھی انتخابی اخراجات پر کافی مباحثے ہوا کرتے تھے مگر یہ دور وہ تھا جب اخراجات آسمان نہیں  چھوتے تھے۔ اب تو صورت حال کہاں  سے کہاں  پہنچ چکی ہے۔ اب اخراجات کا عالم یہ ہے کہ چھپائے نہیں  چھپ سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ کروڑوں  اربوں  کی رقومات تلے جمہوریت کا سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک بہت اچھا امیدوار خرچ کرنے کی صلاحیت کا حامل نہیں  ہے تو وہ بے چارہ عوام اور جمہوریت کی خدمت کیلئے دن رات تو ایک کرسکتا ہے، الیکشن لڑنے کی جرأت نہیں  کرسکتا۔ جرأت کر بھی لے تو یہ حماقت کہلائیگی۔
 اس ’’ہنگامہ زر‘‘ کے دور میں  جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ جو غیرمعمولی خرچ کرسکتا ہے وہی انتخابی حلقے میں  ہر طرف دکھائی دیتا ہے، جو خرچ نہیں  کرسکتا اس کی کامیابی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں ۔ آج بھارتیہ جنتا پارٹی اس قدر مالدار ہے کہ دوسرے نمبر پر آنے والی کانگریس اس سے کافی پیچھے ہے۔ دس ہزار کروڑ اور ایک سو پندرہ کروڑ کا جو فرق ہے وہی بی جے پی اور کانگریس کی مالی استعداد کا فرق ہے۔ کانگریس کیوں  اتنی غریب ہوگئی اور بی جے پی اتنی امیر کیوں  ہوگئی، یہ الگ اور ضروری بحث ہے مگر فی الحال اس سے زیادہ ضروری یہ دیکھنا ہے کہ انتخابات کو غیرمعمولی اخراجات کے چنگل سے کیسے آزاد کرایا جائے۔ کیا ایسا کوئی نظم قائم ہوسکتا ہے جس میں  پارٹی بالکل خرچ نہ کرے اور واجبی اخراجات کی ادائیگی حکومت کے خزانے سے ہو؟ کیا زیادہ سے زیادہ خرچ کی ویسی ہی حد پارٹیوں  کیلئے بھی مقرر ہونی چاہئے جیسی امیدواروں  کیلئے مقرر کی گئی ہے؟ الیکٹورل بونڈس کے حق میں  کتنی ہی دلیلیں  پیش کی جائیں ، یہ بدعنوانی ہے اور یہ اسکیم عدالت سے غیر آئینی قرار پا چکی ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ملک کا دانشور طبقہ، سول سوسائٹی، غیر سرکاری تنظیموں  کے ذمہ داران اور شہری انجمنیں  اس نکتہ پر غور کریں  کہ جمہوریت کو پیسے کے اثرات سے کیسے پاک کیا جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK