Inquilab Logo Happiest Places to Work

عدالت عظمیٰ کا فن کو نفرت کی حدود سے بالاتر رکھنے کا مشورہ

Updated: December 04, 2023, 4:37 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

سپریم کورٹ نے واضح طورپر کہا کہ محب وطن ہونے کیلئے پڑوسی ملک یا وہاں کے لوگوں کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Famous singer Nusrat Fateh Ali Khan who is equally popular in India and Pakistan. Photo: INN
مشہور گلوکار نصرت فتح علی خان جو ہندوستان اور پاکستان میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ تصویر : آئی این این

’’محب وطن ہونے کیلئے کسی کو دیگر ملکوں کے لوگوں اور خاص طور پر پڑوسی ملک کے لوگوں سے دشمنی کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک سچا محب وطن وہ شخص ہے جو بے لوث ہو، جو اپنے ملک کیلئے وقف ہو، ایک شخص جس کا دل اچھا ہے وہ اپنے ملک میں ایسی کسی بھی سرگرمی کا خیر مقدم کرے گا جو ملک کے اندر اور سرحد کے پار رقص، آرٹ، موسیقی ،کھیل ، ثقافت، امن ، ہم آہنگی اور سکون وغیرہ کو فروغ دیتی ہیں ۔‘‘یہ تبصرہ فیض انور قریشی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ خود کو فلموں کا جونیئر آرٹسٹ بتانے والے فیض انور قریشی نے اپنی اپیل میں مطالبہ کیا تھا کہ پاکستانی فنکاروں پر ہندوستان میں پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے قبل بامبے ہائی کورٹ میں یہ درخواست داخل کی تھی ۔بامبے ہائی کورٹ نے بھی ان کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ ـ’محب وطن ہونے کیلئے پڑوسی ملک یا وہاں کے لوگوں کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ بامبے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے فیض انور قریشی اور ان جیسے دیگر افراد کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ سیاست کی بساط پر دوملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو، اس کا اثر ان فنون پر نہیں پڑنا چاہئے جو بلاامتیاز تمام نوع انسانی کے درمیان محبت اور اتحاد کے رویہ کو فروغ دیتے ہیں ۔ فلم، موسیقی ، رقص اور مختلف قسم کے کھیلوں کے ذریعہ دراصل دو مختلف سماجی اور تہذیبی پس منظر کے حامل انسان نہ صرف ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کے مابین ایسا تعلق بھی استوار ہوتا ہے جو انسانی اقدار کو فروغ دینے میں معاونت کرتا ہے۔
 ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد سے اب تک پڑوسی ملک کی حیثیت پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے رشتے بہت خوشگوار نہیں رہے ہیں ۔ اگر اس باہمی تعلق میں خوشگواری کا لمحہ آیا بھی ہے تو اس کی حیثیت بہت عارضی رہی ہے۔ اس کا سبب دونوں ملکوں میں پروان چڑھنے والی وہ سیاست رہی ہے جو جغرافیاتی طور پر ایک ملک کے دو حصوں میں منقسم ہونے کیلئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہے۔ان ممالک کے مابین امن اور محبت کی سازگار فضا کو ان عناصر نے بھی متاثر کیا جو دائیں محاذ سے وابستہ رہے ہیں اورسیاست، مذہب اور زندگی کے دیگر معاملات میں شدت پسندی جن کا شعار رہا ہے۔ اگر ان دو پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات کی ناخوشگواری کو کسی نے کم کیا ہے تو وہ وہی فنکار اور کھلاڑی ہیں جنھوں نے کبھی اپنی آواز، کبھی اپنی اداکاری ، کبھی اپنے رقص،کبھی اپنی شاعری اور فکشن اور کبھی مختلف قسم کے کھیلوں سے وابستہ رہتے ہوئے شائقین، ناظرین اور قارئین کے دلوں سے نفرت کی اس دھند کو مٹانے کی کوشش کی ہے جو مفاد پرست و تنگ نظر سیاست اور شدت پسند مذہبی رویہ کی پیدا کردہ ہے۔
 ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے چونکہ سرحد کے دونوں طرف شدت پسند سیاسی اور مذہبی عناصر کا سماجی دائرہ خاصا وسیع ہو گیا ہے لہٰذا وہ اپنے افکار و اعمال کے ذریعہ متواتر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے ہیں کہ ان کے ملک کے عوام کو اگر کسی سے خطرہ لاحق ہے تو وہ بس پڑوسی ملک سے ہے۔ اس ضمن میں اگر دونوں ملکوں کے سیاسی اور عوامی رویہ کا تقابل کیا جائے تو وطن عزیز کے فرقہ پرست سیاست دانوں اور شدت پسند ہندوتوا میں یقین رکھنے والے عوام کا پلڑا بھاری نظر آئے گا۔ یہ معاملہ اس وقت مزید شدت اختیار کر لیتا ہے جب ملک یا ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہوں ۔ اس موقع پر مذہب آمیز سیاست کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کی ہوڑ میں شامل سیاسی پارٹیوں کے قد آور لیڈروں کے ذریعہ جس شدو مد کے ساتھ پڑوسی ملک کا حوالہ دیا جاتا ہے ، اگر ویسا ہی رویہ ہندوستانی عوام کو درپیش مسائل کے متعلق ان قد آور لیڈروں کا ہو تو ملک میں ترقی اور خوشحالی کے امکان کو تقویت مل سکتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس رویہ کا اثر قریشی جیسے لوگوں پر بھی پڑنے لگا ہے جو پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کرنے کیلئے عدالت کا سہارا تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
 اس ضمن میں بنیادی بات یہ ہے کہ بامبے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواست داخل کرنے والا شخص خود کو بھلے ہی فلم آرٹسٹ کہے لیکن صحیح معنوں میں فلم سے اس کی وابستگی میں اخلاص اور دیانت داری کا فقدان ہے۔یہ شخص فلمی دنیا کے اسی گروہ میں شامل لگتا ہے جو گروہ اقتدار کی جی حضوری کیلئے کچھ بھی کر گزرنے پر ہمہ وقت آمادہ نظر آتا ہے خواہ اس گروہ کا یہ طرز عمل فلم انڈسٹری کیلئے رسوائی اور خواری کا سبب ہی کیوں نہ ہو۔ ادھر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران مذہبی منافرت کو فروغ دینے کی خاطر کچھ فلمیں بنا کر اس گروہ نے بعض ارباب اقتدارکی پذیرائی تو حاصل کر لی لیکن وسیع پیما نے پر فلم انڈسٹری کا جو خسارہ ہوا ہے اس کا مداوا بہت آسان نہ ہوگا۔اب اس انڈسٹری کے متعلق یہ تاثر بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ رواداری، محبت، اخوت اور سیکولر افکار اور رجحان کو فروغ دینے والی فلمی دنیا مذہب اور سیاست کی ان پر پیچ راہوں پر چل پڑی ہے جو صالح انسانی قدروں کو متزلزل کرتی ہے۔ یہ مطالبہ اسی ناقص ذہنیت کا نتیجہ ہے۔
 فن یا فنکار (اگر وہ سیاست اور مذہب کے پیدا کردہ تعصب اور نفرت سے بالاتر ہے)کو ان رویوں اور حدود کا پابند نہیں بنایا جا سکتا جو انسانوں کے درمیان فکر وعمل کی سطح پرایسی خلیج پیدا کرتے ہیں کہ ان کے درمیان سازگار اور پرامن رابطہ کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ فن اور فنکار نے ہمیشہ انسانوں کے درمیان اتحاد کے رویے کو فروغ دیاہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا جوں جوں ترقی کرتی گئی اتحاد کا یہ تصور محدود ہوتا گیا ۔ اس تصور کو محدودیت کے حصار میں مقید کرنے کا ایک سبب انسانی معاشرہ کی مادیت پرستی میں ہونے والا وہ اضافہ بھی ہے جو صرف اور صرف اپنی سہولت اور آسائش ہی سے غرض رکھتا ہے۔ یہی انسانی رویہ جب وسیع پیمانے پر ظاہرہوتا ہے تو کسی ملک یا معاشرہ کا رجحان بن جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ خود غرضی کی بنیاد پر تشکیل پانے والا رویہ اپنے سوا کسی دوسرے کے جذبہ و احسا س کی قدر کیوں کر کرے گا؟بیسویں صدی کے نصف اول میں دو عظیم جنگوں کے بعد عالمی سطح پر نام نہادحب الوطنی کا یہی نظریہ مقبول ہوا جو اپنے ملک کی جغرافیائی سرحد کے باہر کی دنیا کو ہیچ سمجھتا ہے ۔ اس دنیا کے انسان حشرات الارض اور ان کے دکھ درد، رنج والم اکثر ان کیلئے تفریح طبع کا سامان ہوتے ہیں ۔ ایسی تنگ نظری کے سبب انسانوں کے مابین محبت اور ہمدردی کے بجائے نفرت اور تشدد کا پیدا ہونا عین فطری ہے۔
 دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان سیاسی، مذہبی اور معاشی سطح پر تعلقات کی نوعیت خواہ کیسی ہی کیوں نہ رہی ہو اس رابطہ کو پرامن اور سازگار بنائے رکھنے میں فنکاروں نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہردور میں دنیا کے تمام ملکوں کے انسانی معاشرہ میں ایسے عناصر ہمیشہ موجود رہے ہیں ، شر پسندی جن کی فطرت کا لازمہ رہی ہے۔ ایسے افراد نہ تو فن کی قدر کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ دو مختلف ملکوں کے انسانی سماج کے درمیان محبت اور امن کی راہ ہموار کرنے میں فنکار کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
 اس ضمن میں اگر صرف ہندوستان اور پاکستان ہی کی بات کی جائے تو اکثر ایسے نازک موقعوں پر فنکاروں نے ماحول کی کشیدگی ختم کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے جن مواقع پر سیاست داں خود اپنی شاطرانہ چالوں میں الجھے رہے اور انھیں اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا۔اس حوالے سے یہ بھی بڑی عجیب صورتحال رہی ہے کہ دیگر فنون سے وابستہ فنکاروں کی دونوں ملکوں میں پذیرائی ہوتی رہی اور ان کے پروگرام بھی وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہے لیکن کرکٹ کھلاڑیوں کے ساتھ سیاستدانوں کا رویہ عام فہم سے بالاتر رہا۔ سیاستدانوں نے اپنے مفاد کی خاطر اس کھیل کو کئی دہائیوں سے تختۂ مشق بنا رکھا ہے ۔ اگر یہ حربہ کسی بھی صورت میں کارگر ہو گیا تو دراصل وہ دونوں ملکوں کے حقیقی زوال کا آغاز ہوگا کیونکہ تمام تر سیاسی اور مذہبی اختلاف کے باوجود دو سماجوں کے مابین ثقافتی لین دین کی روایت ہی دوستی اور محبت کے رویہ کو فروغ دیتی ہے اور فنون لطیفہ اور مختلف قسم کے کھیل ہی اس روایت کو استحکام عطا کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK