Inquilab Logo Happiest Places to Work

سورۃ العصر نصیحتوں کا خزانہ ہے

Updated: December 10, 2021, 2:10 PM IST | Maulan Abdul Mubeen Naumnai Qadri

قرآن ِ کریم اللہ رب العزت کی وہ کتاب ہے جو سر چشمہ ہدایت ہے۔ جس کی تلاوت عبادت اور کارِ ثواب ہے۔ اس کو سمجھنا اور سمجھ کر پڑھنا مسلمانوں پر لازم ہے تاکہ اُس معبودِ حقیقی کے پیغام کو سمجھ سکیں جس کے آگے سر جھکایا جاتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں سورہ العصر کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ کامیاب کون ہے اور خسارے میں رہنے والے کون ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

’’سورۃ العصر‘‘قرآن کریم کی مختصر سورتوں میں سے ایک ہے۔’’والعصر‘‘ اس سورہ کی پہلی آیت ہے جو واو کے ساتھ شروع ہوئی۔ عربی قاعدے کے حساب سے یہاں حرف ’’واو‘‘قسم کے لئے  آیا ہے، نہ کہ حرفِ عطف کے طور پر۔ 
 لفظ عصر کے معنی ہوتے ہیں ’’زمانہ‘‘۔ جیسا کہ اردو زبان میں بھی یہ لفظ اسی معنی و مفہوم میں رائج ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو محدثِ عصر کہا جاتا ہے یعنی اس زمانے کا بڑا محدث۔ اسی طرح اکثر اخباری زبان میں ’’عصرِ حاضر‘‘ پڑھنے میں آتا ہے۔ اس  کا معنی ہوتا ہے ’’زمانہ ٔجاری‘‘۔ یہاں پر والعصر فرما کر اللہ تعالیٰ زمانے کی قسم یاد فرما رہا ہے۔ والعصر یعنی قسم ہے زمانے کی۔ عصر سے مراد یہاں زمانہ ہے یعنی مطلق زمانہ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محبوب! مجھے قسم ہے زمانے کی ایک معنی تو یہ ہوا جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ سے نسبت والی بعض چیزوں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ کہیں کہا گیا ’’ مجھے قسم ہے اس شہر کی جس میں آپ تشریف فرما ہیں۔‘‘ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم یاد فرمائی ہے۔ 
 اسی طرح بہت سارے مفسرین نے ’’والعصر‘‘ کے مفہوم میں زمانہ مطلق کے بجائے اس زمانۂ خاص کو مراد لیا ہے جس زمانے میں رسول اکرم مصطفی جانِ رحمت ﷺ  اپنی ظاہری حیات کے ساتھ اس دنیا میں تشریف فرماتھے۔ اس طرح دیکھاجائے تو اللہ تعالیٰ نے زمانوں میں سب سے بہتر زمانہ یعنی ’’خیرالقرون‘‘ کی قسم یاد فرمائی ہے۔ اسی طرح بعض مفسرین نے والعصر سے مراد نمازِ عصر کا وقت (زمانہ)بھی لیا ہے کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے عصر کی نماز کے وقت کی قسم یاد فرمائی ہے۔ اس لئے کہ یہ نماز درمیانی نماز ہے۔ دو نمازیں فجر اور ظہر دن کے ابتدائی حصے میں پڑھی جاتی ہیں اور دو نمازیںیعنی مغرب اور عشا دن کے آخری حصے میں ادا کی جاتی ہیں۔ اس طرح نمازِ عصر درمیانی نماز ہوئی۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ (مفہوم)نمازِ عصر کی فکر کرو، کیوں کہ یہ بڑی خطرے والی نماز ہے۔ خطرے والی نماز سے مراد یہی ہے کہ یہ دن کی درمیانی نماز ہے۔ اس لئے اس کے چھوٹنے یا قضا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور سے عصر کے وقت لوگ اپنے دھندے بیوپار، تجارت، نوکری یا دیگر مصروفیات میں منہمک ہوتے ہیں۔ یا پھر شام کے ایسے وقت میںلوگ اپنے گھروں، دکانوں اور دیگر مقام سے اپنی مصروفایت کے سبب باہر نکلتے ہیں۔ تجارت، خریدو فروخت یا سیر وتفریح کے لیے ایسے حالات میں بھی اس کے چھوٹنے یا قضاء ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں بعض مفسرین نے یہ معنی لیا ہے کہ والعصر فرما کر اللہ تعالیٰ عصر کی نماز کے وقت کی قسم یاد فرما رہاہے تا کہ اس نماز کی اہمیت کو واضح کر دیا جائے۔ قرآن پاک میں بھی نمازِ عصر ہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی۔‘‘ (البقرہ:۲۳۸) اکثر مفسرین نے صلوٰۃ ِ وسطیٰ سے نمازِ عصر ہی مراد لی ہے۔ 
 حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ جس نے نماز عصرترک کر دی گویا اس کا مال اور اولاد تباہ و برباد کردیئے گئے۔ اس حدیث سے بھی عصر کی نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین اور اسلافِ کرام نے بھی اس نمازکی خاص پابندی اور حفاظت کی ہے۔ بزرگانِ دین کا تو طریقہ رہا ہے کہ وہ تمام ہی نمازوں کی پابندی کیا کرتے تھے۔ بلکہ کسی وجہ سے محض جماعت کے ترک ہوجانے پر بڑے رنجیدہ اور غمگین ہو جایا کرتے تھے۔ حدیث میں آیا ہے کہ بندہ نماز میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور نماز میںبھی سجدہ ایک ایسا عمل ہے جہاں خالق و مخلوق کا فاصلہ انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! اگر اپنے رب سے قریب ہونا چاہتے ہو تو نمازوں کی پابندی کرو۔ 
 بہر حال یہ تو ہوا ’’والعصر‘‘کامختصرمفہوم۔اب آگے بڑھیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ بے شک انسان خسارے میں ہے۔‘‘ پچھلی آیت کے ساتھ اسے دیکھیں تو مفہوم یہ ہوگا کہ ’’ قسم ہے زمانے کی، بے شک! انسان خسارے میں ہے۔‘‘ اب یہاں خسارہ یعنی نقصان کن معنوں میں ہے؟ آئیے اسے سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ انسان جسے دولت ِ ایمان نہیں ملی وہ نقصان میں ہے کہ اصل دولت ایمان ہے۔ جو اُس سے محروم رہا تو دنیا و آخرت سب برباد ہوئی۔ دنیا میں بھی بے ایمان ہو کر خسارے میں رہا اور مرنے کے بعد ابدی جہنم کا حقدار ہو کر خسارے میں رہا۔ یہاں خسارے کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خسارے میں قرار دیا۔ اِ س لفظ انسان میں کافر بھی شامل ہیں اور مسلمان مومن بھی۔ کافروں کا خسارہ تو بیان ہوا۔ اب اہلِ ایمان کا خسارہ کیا ہے؟ تو وہ یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد اگر نیک اعمال نہیں کریں گے، فرائض و واجبات کی ادائیگی نہ کریں گے، برائیوں میںملوث رہیں گے، نیکیوں میں سستی اور غفلت برتیں گے تو خسارہ اٹھائیں گے۔ یعنی وہ عذاب کے مستحق ٹھہریں گے، رزق سے برکت اٹھ جائیگی، مصیبت اور پریشانیوں میں گرفتار ہوں گے۔ جو مسلمان جتنا زیادہ دین سے دور ہوگا اتنا زیادہ نقصان اور خسارے میں ہوگا۔ اور جو اللہ کے نیک بندے جتنا زیادہ تقویٰ وطہارت سے دور ہوں گے اتنے ہی خسارے میں ہوں گے، اور پھر اس خسارے کی اسی قرآن مجیدنے آگے وضاحت بھی فرما دی کہ بیشک انسان خسارے میں ہے، ’’مگر وہ لوگ جو ایمان لائے۔‘‘ یعنی یہاں کافروں کو ایمان والوں سے الگ کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ اول خسارے میں کافر ہیں جو ایمان نہیں لائے۔ لیکن جو ایمان لائے اور مسلمان ہوئے وہ ان کافروں سے کم خسارے میں ہیں۔ پھر فرمایا گیا:’’اور جنہوں نے ایمان کے بعد عمل صالح کیا۔‘‘ اب یہاں ایمان والوں کے درجات متعین کئے جارہے ہیں کہ ایمان والے اگر چہ کافروں سے کم خسارے میں ہیں لیکن جنہوں نے عملِ صالح کیا اور پیارے آقا ﷺ کے احکام وفرامین پر خلوصِ دل سے عمل کیا وہ ان سے بھی کم خسارے میں ہیں۔ پھر فرمایا گیا:’’ اور جنہوں نے ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی۔‘‘ دیکھئے یہاںیہ نکتہ قابل غور ہے کہ مسلمان،اہلِ ایمان پر لازم ہے کہ ایک دوسر ے کو حق کی تلقین کریں (اگر وہ راہِ حق پر گامزن نہیں ہیں) اور حق کی تلقین کرتے وقت ضروری ہے کہ باطل کیا ہے؟ اس کی بھی وضاحت کی جائے۔ جو لوگ گمراہ ہیں، بد مذہب ہیں، بد عقیدہ ہیں،ان کی نشاندہی کی جائے تب ہی توحق کی وضاحت ہوگی ۔ جب اندھیروں کا علم ہوگا تب ہی روشنی کی اہمیت و افادیت واضح ہوگی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حق کی تلقین کرنا یعنی باطل، گمراہ اور بد دین کی نشاندہی کرتے ہوئے ان سے بچنے کی ہدایت کرنا اور نصیحت کرنا بھی اہل ِ ایمان کا فریضہ اورخسارہ سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
  آگے فرمایا گیا’’ اور جنہوں نے صبر کی تلقین کی۔‘‘ یعنی جو ایمان اور حق والے مصیبت، رنج اور تکلیف میں پڑتے ہیں انہیں صبر کی تاکید کرتے ہیں، اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی تلقین کرتے ہیں وہی کم خسارے میں ہیں۔ 
  اب اس کو اس طرح دیکھا جائے کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ زمانے کی قسم یاد کر کے ارشاد فرما رہا ہے کہ بیشک انسان خسارے میں ہے لیکن وہ لوگ (انسان)جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے رہے وہ خسارے سے دور ہیں۔ ایک نکتہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ انسان تو خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے وہ خسارے میں نہیں ہیں۔ بلکہ فائدے میں ہیں اور وہ مزید فائدے کے حقدار ہیں جو ایمان بھی لائے، عمل ِ صالح بھی کیا، لوگوں کو حق کی تلقین بھی کرتے رہے اور صبر کی تلقین ونصیحت بھی کرتے رہے۔ یعنی خسارے سے زیادہ سے زیادہ بچنا ہی زیادہ سے زیادہ فائدہ کے حصول کی ضمانت ہے۔ 
 قرآن کریم میں صبر کرنے کی باربارتاکید آئی ہے اور صبر کرنے کا صلہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت زیادہ ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرما دیا کہ میں صبر کرنے والے کے ساتھ ہوں اور صبر کا اجر بے حساب ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے :
 ’’صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا ۔‘‘ (الزمر:۱۰) 
 جو لوگ ایمان لاکر عمل ِ صالح کرتے ہیں، دین کی تبلیغ و اشاعت کے لئے محنت اور جد و جہد کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات پر عمل کے لئے تگ و دو کرتے ہیں تو انہیں مصیبت، تکالیف اور آزمائشوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذ ایسے وقت میں بھی انہیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے صبر کرنا چاہئے اور اس کی رضا پر راضی رہنا چاہئے۔ جو ایسا کرے گا وہی کامیاب ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK