پارلیمانی جمہوری نظام میں میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی ناکامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی اور غلط اور غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کی تنقید کرے۔ لیکن میڈیا کا بڑا حصہ اپنا یہ فرض منصبی بھول گیا ہے۔ وہ حکومت کے عوام دشمن فیصلوں کا دفاع کرنے لگا ہے۔
پچھلے ہفتے کئی دنوں تک منی پور جلتا رہا۔ لیکن ہمارے اکثر و بیشتر ٹیلی وژن نیوز چینلز سے یہ اہم خبر غائب رہی۔ اسی طرح مبینہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی ملک کی مایہ ناز خاتون ریسلرز ۲۰؍ دنوں سے جنتر منتر پر احتجاج کررہی ہیں لیکن ٹی وی اسکرین سے یہ اہم خبر بھی غائب کردی گئی ہے۔اس سے قبل ستیہ پال ملک کے اس سنسنی خیز انکشاف کو کہ پلوامہ کا دہشت گردانہ حملہ مودی سرکار کی غفلت کا نتیجہ تھا، بھی گودی میڈیا نے مکمل طور پر گول کردیا۔
ان تین واقعات کے متعلق پڑھ کر کوئی معصوم ذہن سوچ سکتا ہے کہ شاید حکومت نے خبروں پر سنسرشپ نافذ کردی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ سرکار کو بھلا زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے جب ہمارے نیوز اینکرز خود ہی اتنے سمجھدار ہیں کہ وہ ایسی ہر خبر کا بلیک آؤٹ کردیتے ہیں جس سے نریندر مودی حکومت کو کسی قسم کی پریشانی یا پشیمانی لاحق ہوسکتی ہے۔پہلے پرائیوٹ چینلز پر سرکار کا کوئی کنٹرول نہیں تھا اور وہ آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے تھے۔لیکن ۲۰۱۴ء کے بعد سب کچھ تیزی سے بدل گیا۔ پچھلے ہفتے پریس فریڈم انڈیکس کی تازہ رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ۱۸۰؍ ممالک میں ہندوستان اس بار ۱۶۱؍ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ پچھلے سال ہندوستان اس جدول میں۱۵۰؍ویں نمبر پر تھایعنی بارہ مہینوں میں وطن عزیز گیارہ پائیدان نیچے لڑھک گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں میڈیاکی ایسی تنزلی اور ایسی گراوٹ واقعی باعث شرم ہے۔ لیکن یہاں پرواہ کس کو ہے؟
پارلیمانی جمہوری نظام میں میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی ناکامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی اور غلط اور غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کی تنقید کرے۔ لیکن میڈیا کا بڑا حصہ اپنا یہ فرض منصبی بھول گیا ہے۔ وہ حکومت کے عوام دشمن فیصلوں کا دفاع کرنے لگا ہے۔ نیوز پروڈیوسر حکومت کی منشا کوسمجھ کر ہی اپنے پروگرام کے خدو خال اور لب و لہجہ طے کرتے ہیں۔ اب آپ دیکھ لیجئے مظلوم پہلوان لڑکیوں کی حمایت میں کھڑے ہونے کے بجائے گودی میڈیا ریسلر فیڈریشن آف انڈیا کے ظالم سربراہ کے دفاع میں طرح طرح کی تاویلیں تلاش کررہا ہے۔ وہ اینکرونیش پھوگٹ کو اپنی شکایات پیش کرنے کا موقع دینے کے بجائے برج بھوشن شرن سنگھ کے طویل انٹرویو نشر کررہا ہے۔ میڈیا پولیس سے یہ سوال نہیں کررہا ہے کہ سنگھ کے خلاف جنسی ہراسانی کے دو دو ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود وہ ابھی تک آزاد کیسے گھوم رہاہے۔
میڈیا تو یہ سوال بھی نہیں کررہا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ ملک کے شمال مشرقی خطے میں جاری نسلی خونریزی اور سماجی انتشار سے بے نیا ز ہوکر کرناٹک میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کیوں کررہے ہیں۔ میڈیا کے لئے یہ اچھا موقع تھا کہ بی جے پی کی’’ڈبل انجن والی سرکار‘‘کے غبارے کی ہوا نکال دے لیکن ضمیر فروشوں کو بھلا اتنی جرأت کہاں۔
میڈیا کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مسائل پر حکومت سے سوال کرے۔ لیکن گودی میڈیا کے تمام سوالات اب اپوزیشن کے لئے مخصوص ہوکر رہ گئے ہیں۔ میڈیا راہل گاندھی، اروند کیجریوال اور ممتا بنرجی سے تو سوال کرتا ہے لیکن اسے مودی جی یا امیت شاہ یہ نرملا سیتا رمن سے کوئی سوال پوچھنے کی کبھی جرأت نہیں ہوتی ہے۔ مورخ اور سیاسی تجزیہ کار مکل کیسوان کے مطابق ہندوستانی میڈیا گھرانے ہندو قوم پرست سرکار کے پرچارک بن کراس کی اکثریت کی بالادستی کے ایجنڈے کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس لئے سرکار کی زیادتیوں اور ناانصافیوں کی تنقید کرنے کے بجائے میڈیا ان کے جواز ڈھونڈتا ہے۔
لال کرشن اڈوانی کا یہ مشہور قول ہے کہ ایمرجنسی کے زمانے میں اندرا گاندھی حکومت نے پریس کو محض جھکنے کے لئے کہا تھا لیکن وہ رینگنے لگا۔ میرامشاہدہ یہ ہے کہ مودی راج میں میڈیا کو جھکنے کے لئے کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ آج میڈیا کا ایک بڑا حصہ اپنے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر راج دربار میں رقص کرنے کو اپنی خوش بختی سمجھ رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد میڈیا نے اقتدار کے سامنے بلا تاخیر سر تسلیم خم کردیا اورپچھلے۸؍سال سے مسلسل یہ کوشش کررہا ہے کہ’’ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔‘‘
میڈیا کی زبوں حالی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد ملک کی بیشتر میڈیا کمپنیوں کو مودی جی کے قریبی صنعت کار مکیش امبانی نے خرید لیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق امبانی اس وقت ۷۰؍ ٹی وی چینلز کے مالک بن چکے ہیں اورمجموعی طور پر ان کے ناظرین کی تعداد ۸۰؍کروڑ سے زیادہ ہے۔ مودی جی کے ایک اور پسندیدہ سرمایہ دار گوتم اڈانی بھی کئی چینلز کے مالک ہیں۔ جن کے مالکان نے مودی راج میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں جگہ بنالی، اگر وہ چینلزدن رات مودی جی کی مدح سرائی میں مصروف ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ ایک طرف میڈیا ہاؤسز بی جے پی کے مذہبی عصبیت اور سماجی تقسیم کے نظریے کے پرچار میں مصروف ہیں تو دوسری جانب معروف اینکرز مودی بھکتی سے سرشار ہیں۔ چندریان مشن ہو یاکرکٹ ورلڈ کپ، نیوز اینکرز ہر واقعے کا سارا کریڈٹ مودی جی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ صبح سے شام تک ٹی وی اسکرین پر مودی بھکتی کا راگ الاپا جاتا ہے۔ ابھی حال میں ریپبلک ٹی وی کی سالانہ تقریب میں وزیر اعظم مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے ارنب گوسوامی نے اعلان کیا کہ وہ ان کے وژن اور مشن میں یقین رکھتا ہے کیونکہ اس کے بقول’’جو خواب ہندوستانی عوام کو پچھلے ستر برسوں میں دکھائے گئے تھے وہ آپ کی قیادت میں پورے ہورہے ہیں۔‘‘کچھ دیر کیلئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ایک نیوز چینل کا مدیر اعلیٰ بول رہا ہے یا مودی جی کا عقیدت مند پارٹی ورکر۔ ایک ماہ قبل چیف جسٹس ڈی وائی چندراچڈ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی بنچ نے مودی سرکار کی اس دلیل کو مسترد کردیا کہ حکومت کے کام کاج پر اگر کوئی نیوز چینل تنقید کرتا ہے تو یہ بات اس کے حکومت دشمن ہونے کا ثبوت ہے۔ایک ملیالم چینل کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے نکتے کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس لقب کے استعمال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو توقع رہتی ہے کہ میڈیا لازمی طور پر اس کی حمایت کرے گا۔ سپریم کورٹ کے مطابق میڈیا کا یہ فرض ہے کہ وہ بے خوف ہوکر اقتدار کے سامنے صدائے حق بلند کرے۔ عدالت عظمٰی کو شاید علم نہیں ہے کہ گودی میڈیا اپنے اس فرض کو خیر باد کہہ چکا ہے اور وہ اقتدار کے سامنے سرنگوں ہوچکا ہے۔