Inquilab Logo

طالبان کو درپیش ہے نیا چیلنج

Updated: September 25, 2020, 11:53 AM IST | Shamim Tariq

خانہ جنگی روکنے کے نام پر امریکہ طالبان پر ایک زمانے تک سختی کرتا رہا مگر جب اس کو یقین ہوگیا کہ جب تک جنگ جاری رہے گی اس کے فوجیوں کی لاشیں اٹھتی رہیں گی تو اس نے ایک طرف تو اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کرنا شروع کیا اور دوسری طرف افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرت کا سلسلہ شروع کروایا۔

Taliban - Pic : INN
طالبان ۔ تصویر : آئی این این

افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ پلٹے جانے کے بعد سے طالبان کے عروج تک اور طالبان کے اقتدار سے محروم کئے جانے اور  پھر کئی حکومتوں کے مسلط کئے جانے کے بعد سے اب تک خانہ جنگی ہوتی رہی ہے۔ ناقابل تسخیر سمجھے جانیوالے امریکہ کو افغانستان میں نہ صرف شکست ہوئی ہے بلکہ اس کو کئی ایسے حقائق کو تسلیم کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا ہے جن کو قبول کرنے سے وہ انکار کرتا رہا ہے۔ جن حقائق کو امریکہ نے تسلیم کیا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ طالبان ایک مضبوط جماعت ہیں، ان کی سیاسی طاقت بھی ہے اور عوام سے ان کا ربط اتنا مستحکم ہے کہ امریکہ کے تعاون سے قائم اور چلنے والی کوئی بھی حکومت ان کو شکست نہیں دے سکی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو پہلے امریکہ اور پھر افغانستان حکومت طالبان سے گفتگو کرنے پر مجبور نہ ہوتی۔ البتہ امریکہ اور افغانستان حکومت اس گفتگو میں اپنا دائو کھیلنے سے نہیں چوک رہی ہے۔
 دائو یہ مشہور کرنا ہے کہ قطر کے دارالسلطنت دوحہ میں طالبان کی طرف سے جو افراد گفتگو کررہے ہیں ان میں صرف مرد ہیں البتہ افغانستان حکومت کی نمائندگی کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کا مقصد شاید یہ تاثر دینا ہے کہ موجودہ افغان حکومت زیادہ کشادہ ذہن اور انصاف پسند ہے۔ وہ صنف کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرتی۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ مسلسل بمباری اور معاشی ناکہ بندی کرکے امریکہ نے افغان خواتین اور بچوں کا جو حال کیا ہے اور افغانستان میں اس کے حلیفوں نے جو مظالم ڈھائے ہیں اس کے بعد اس تاثر کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جاتی۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر خواتین کی نمائندگی یا حکومت میں ان کی شرکت ہی امریکہ کا مقصد ہوتا تو وہ فلسطین کو کب کا آزاد مملکت تسلیم کرچکا ہوتا کہ فلسطین کی تحریک آزادی میں لیلیٰ خالد جیسی خواتین شروع ہی سے سرگرم رہی ہیں۔ عوامی زندگی میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت امریکہ کا مقصد ہوتا تب بھی وہ صدام حسین کے عراق کو نشانہ نہ بناتا جہاں خواتین تعلیم یافتہ بھی تھیں اور خوشحال و بااختیار بھی۔
 خواتین سے متعلق بعض اقدامات سے طالبان نے بڑی رسوائی مول لی۔ شاید اس لئے کہ بعض فیصلے انہوں نے عجلت میں کئے اور ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں تھے کہ وہ عالمی میڈیا کے پھیلائے ہوئے جھوٹ کی تردید کرسکیں۔ اس کے باوجود اسی میڈیا کے ذریعہ طالبان کی قید سے رہائی پانے والی امریکہ اور یورپی ملکوں کی خاتون قیدیوں کے بیانات کی تشہیر ہوئی تو وہ بھی طالبان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئے جو ان کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ کئی جمہوری ملکوں میں خاتون قیدیوں کے ساتھ جیل میں ہی نہیں، جیل سے پہلے لاک اپ (حوالات) اور دیگر مرحلوں پر جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے لاعلم کوئی نہیں ہے۔ دفاتر میں بھی خواتین کو جس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے وہ بھی سب پر واضح ہے۔ طالبان نے بے شک خواتین پر بعض پابندیاں عائد کی تھیں مگر یہ سوچنا صحیح نہیں ہے کہ ان کی واحد وجہ طالبان کا مذہبی نقطۂ نظر یا سخت گیری تھا۔
 افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں ۱۹۶۴ء میں ایک ایسا دستور نافذ تھا جس میں خواتین کی آزادانہ حیثیت تسلیم کی گئی تھی۔ یہ آزادانہ حیثیت صرف کاغذ پر نہیں تھی۔ ۷۰ء کے دہے میں کابل یونیورسٹی کے کیمپس میں طالبات گھومتی پھرتی دکھائی دیتی تھیں۔ میڈیکل فیکلٹی میں تو بیشتر کام خواتین ہی انجام دیتی تھیں۔ خاتون ڈاکٹروں نے بھی اہم خدمات انجام دیں مگر دھیرے دھیرے سیاسی حالات بدلتے گئے تو سماجی حالات میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ اس کے بعد حالات اتنے خراب ہوگئے کہ خواتین  کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا۔  امریکہ  جن گروہوں کی فوجی اور مالی مدد کیا کرتا تھا انہوں نے اتنا غضب ڈھایا تھا کہ وہ جس لڑکی کو بھی چاہتے اٹھا لے جاتے تھے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں ملا عمر اور طالبان کو عروج حاصل ہوا۔ وہ اقتدار پر قابض ہوئے۔ ان کے دور میں افیم کی کاشت، ڈرگس کے کاروبار اور خواتین کے اُٹھا لئے جانے کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔ بے شک طالبان نے کچھ سخت اقدامات کئے جن سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
 افغانستان کی طالبان حکومت کو ایسے جرم میں ختم کردیا گیا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ ۲۰۰۴ء میں یعنی طالبان کی حکومت کے ختم ہونے کے چوتھے سال میں ایک نیا دستور ملک میں نافذ کیا گیا۔ خواتین کی آزادی اور مساوات کے دعوے ہوئے مگر ۱۶؍ برس گزر جانے کے بعد بھی اس وقت دستور کی حیثیت کاغذی ہی ہے۔ عالمی منظر نامہ میں افغان خواتین کو زیادہ آزاد اور بااختیار بنا کر پیش کیا جارہا ہے مگر افغان حکومت اور معاشرہ ان کی عصمت اور جان و مال کے تحفظ میں آج بھی ناکام ہے۔ طالبان کے اقدامات کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں بے شک ان کو اس کی اجازت ہے مگر ان حالات کو بیان کرنا بھی ضروری ہے جن میں طالبان کو عروج حاصل ہوا تھا۔ ان لوگوں کا طرزِ عمل بیان کرنا بھی ضروری ہے جو سویت یونین سے لڑنے کے نام پر امریکہ سے دولت اور اسلحہ لے کر آپس میں لڑنے لگے تھے۔ خانہ جنگی روکنے کے نام پر امریکہ طالبان پر ایک زمانے تک سختی کرتا رہا مگر جب اس کو یقین ہوگیا کہ جب تک جنگ جاری رہے گی اس کے فوجیوں کی لاشیں اٹھتی رہیں گی تو اس نے ایک طرف تو اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کرنا شروع کیا اور دوسری طرف افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرت کا سلسلہ شروع کروایا۔ اب اس کی کوشش ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر یہ مذاکرت یا تو ناکام ہوجائیں یا طالبان اپنے عقیدہ و عمل میں تبدیلی پیدا کریں۔ دونوں صورتوں میں امریکہ کا ہی فائدہ ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں وہ قیام امن کے نام پر افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھے گا اور طالبان کے طریقۂ عمل میں تبدیلی لانے کی صورت میں وہ یہ کہنے کے لائق ہوجائیگا کہ عرب ہوں یا عجم مسلمان وہی کریں گے جو امریکہ چاہے گا۔ یہ وقت طالبان کیلئے بہت اہم ہے۔ ان کو میدانِ جنگ میں حاصل کی ہوئی جیت کو گفتگو کی میز پر بھی برقرار رکھنا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی ایسی شبیہ پیش کریں جو جنگ بھی جیتتی ہے اور دل بھی۔ طالبان کئی اچھے کاموں  کے باوجود دنیا کا دل نہیں جیت سکے ہیں۔ ان کو درپیش ہے نیا چیلنج۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK