Updated: September 05, 2021, 9:01 AM IST
| Mumbai
یوم اساتذہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کالم میں آج تھوڑی بہت گفتگو اس عنوان سے کرلی جائے کہ استاد (صحیح اِملا: استاذ) یا معلم کون ہے۔ اس پر غوروفکر ہو تو تدریس کا وسیع تر مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے اور یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ استاد کو محترم ہی نہیں محسن بھی سمجھنا کتنا ضروری ہے۔
یوم اساتذہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کالم میں آج تھوڑی بہت گفتگو اس عنوان سے کرلی جائے کہ استاد (صحیح اِملا: استاذ) یا معلم کون ہے۔ اس پر غوروفکر ہو تو تدریس کا وسیع تر مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے اور یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ استاد کو محترم ہی نہیں محسن بھی سمجھنا کتنا ضروری ہے۔
استاد سے عام طور پر جو مراد لی جاتی ہے وہ ایسے فرد کی ہے جو کسی باقاعدہ درس گاہ میں تدریسی خدمت پر مامور کیا جاتا ہے اور پانچ تا سات یا اس سے زیادہ گھنٹے طلبہ کو پڑھاتا ہے۔ بلاشبہ وہ تو استاد، مدرس، معلم یا ٹیچر ہے ہی، لائق تعظیم بھی ہے مگر یہ دُنیا اتنی محدود نہیں کہ تدریسی عمل اسکول اور کالج یا دینی مکتب و مدرسہ ہی تک محدود ہو۔ انسان اس کے علاوہ اپنی عملی زندگی میں بھی بہت کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ اگر وہ اپنے مشاہدہ اور تجربہ سے کچھ سیکھتا تو اپنا استاد خود قرار پاسکتا ہے اور جب دوسرے انسانوں سے، کچھ سیکھتا ہے مثلاً بہتر زندگی جینے کا فن یا مسائل کے حل کا گر، یا کسی طرح کی کوئی روشنی کسی فرد سے اُسے ملتی ہے تو متعلقہ افراد بھی اُس کے استاد کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ اسی طرح، اُن کتابوں کے مصنفین کو بھی استاد کے درجے پر فائز کیا جاسکتا ہے جن کے مطالعے سے اُس کی فکر و نظر میں وسعت پیدا ہوئی اور دُنیوی و اُخروی حیات اور اس کے تقاضوں کی بہتر تفہیم ہوسکی۔ عموماً ایسے لوگوں کو استاد کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ احسان ماننے اور محسن سمجھنے کا احساس دل میں اُجاگر کیا جائے اور احسان کا بدلہ جذبۂ تشکر سے دیا جائے تو اس سے اکتساب ِ علم وفن کی قدر و قیمت ہی نہیں بڑھتی، انسان میں زیادہ بردباری اور گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے اس لئے کہ جب وہ کسی کو اپنا محسن سمجھتا ہے تو اُس وقت تک سمجھتا رہتا ہے جب تک اسے احسان یاد رہتا ہے، بصورت دیگر وہ احسان اور محسن دونوں کو فراموش کردیتا ہے۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ جو اکتساب اس نے کیا تھا وہ انگیز نہ ہوپائے، اس کے حافظے اور شخصیت کا حصہ نہ بن پائے اور زندگی کے کسی مرحلے میں جو کچھ حاصل کیا تھا، وہ کہیں چھو‘ٹ جائے۔ یہ اس لئے بھی کہا جارہا ہے کہ ایسے لوگ بڑی تعداد میں مل جائینگے جو طالب علمی کے زمانے میں اچھے طلبہ میں شمار نہیں کئے جاتے تھے مگر عملی زندگی میں انہوں نے آس پاس کی دُنیاسے، آس پاس کے لوگوں، کتابوں اور اہل علم کی صحبتوں سے بہت کچھ سیکھا جس سے اُس میں بڑی خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی اور یہی تبدیلی اُس کی کامیابی کی ضامن بنی۔
جب اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان اپنی آخری سانس تک طالب علم رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ازخود یا کسی دوسرے کی مدد سے زندگی بھر کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے چنانچہ جس کسی سے سیکھا اُسے اُستاد تسلیم کرنے کا جذبہ اپنے دل میں پیدا کرے تو جو کچھ سیکھا اس کی قدروقیمت بڑھ جاتی ہے اور مزید اکتساب کا امکان باقی رہتا ہے۔ اس پس منظر میں ہر انسان کے محض چند اساتذہ نہیں ہوتے جنہوں نے اُسے اسکول ، کالج، مکتب یا مدرسہ میں پڑھایابلکہ اس کے اساتذہ کی تعداد میں روز بہ روز بڑھتی رہتی ہے۔ ہر محسن استاد نہیں ہوتا مگر ہر استاد محسن ہوتا ہے خواہ وہ درس گاہ میں پڑھائے یا درس گاہ کے باہر کی دُنیا میں۔ دورِ حاضر میں معاشرہ کے افراد کے باہمی رشتے اس لئے کمزور ہیں کہ اُنہوں نے جذبۂ احسانمندی کو جِلا نہیں بخشی اور جذبۂ تشکر کو فروزاں نہیں کیا، اظہار تشکر کی ضرورت کو محسوس بھی کیا تو اس طرح جیسے رسم ادا کی جاتی ہے۔ کسی کو سکھا کر اس کے اظہارِ ممنونیت کو محسوس کیجئے تو کچھ سیکھ کر ممنونیت کے اظہار کا لطف دوبالا ہوجائیگا ۔n