’ہرکامیاب مرد کے پیچھے کوئی عورت ہو یا نہ ہو‘ لیکن یہ سچ ہے کہ ہر کامیاب فرد کے پیچھے کوئی نہ کوئی معلم ضرور ہوتا ہے جو ہر ضرورت کے وقت طالب علم کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ یوم اساتذہ کی مناسبت سے ہم نے کچھ کامیاب افراد سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کی کامیابی کے پس پشت کس معلم کا ہاتھ زیادہ ہے۔ اس کے بعد ہم نے مذکورہ معلم سے بھی گفتگو کی اور یہ جاننا چاہا کہ دوران تدریس ان کا طریقہ کار کیا تھا، جس کی وجہ سے عملی میدان میں جانے کے بعد بھی طلبہ ان کی خدمات کو یاد رکھتے ہیں۔
توصیف پرویز ایم مظفر (امراؤتی)
ریاستی رابطہ کار برائے اُردو، ایس سی ای آر ٹی( پونے، مہاراشٹر)

توصیف پرویز نے اتنی کم عمری میں جو ترقی کی ہے، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ ۳۶؍ سال کی عمر اور ۱۶؍ سال کے کریئر میں انہوں نے جتنا حاصل کیا ہے، بہتوں کو اتناکچھ پوری زندگی میں بھی حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔ اسی لئے ان کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ توصیف پرویز کی پرواز ہی ان کی پہچان ہے۔ فی الحال آپ تعلیمی نصاب تیار کرنے والے مرکزی ادارے ’این سی ای آر ٹی‘ کے ریاستی شعبے ’ایس سی ای آر ٹی‘ میں ریاستی رابطہ کار برائے اردو و قدر پیمائی کے طورپر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نصابی کتابیں تیار کرنے والے ادارے بال بھارتی میں بھی آپ رابطہ کار برائے اردو کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس سے قبل بطور معلم آپ نے اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔
آپ نے ریاضی جیسے مشکل مضمون میں بی ایس سی کرنے کے بعد انگریزی اور ایجوکیشن میں ایم اے کیا۔ بعد ازاں ڈی ایڈ، بی ایڈ اور ایم ایڈ کے ساتھ ہی آپ نے ہندی پنڈت کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ اتنا کچھ پڑھ لینے کے بعد بھی حصول تعلیم کا سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ جاری ہے۔ آپ نے پی ایچ ڈی کیلئے رجسٹریشن کرالیا ہے اور فی الوقت ان کا تحقیقی کام آخری مرحلے میں ہے۔ تدریسی شعبے کو آپ پیشہ نہیں، خدمات سمجھتے ہیں اور اس خدمت کو ملازمت کے بجائے خاندانی روایت قرار دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ توصیف پرویز کے خاندان میں مجموعی طور پر۷۲؍ افراد شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ توصیف پرویز سے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آپ کی ترقی کا راز کیا ہے تو انہوں نے اس کیلئے ایک عظیم شخصیت کا نام لیا ’عظیم درانی‘ ہے۔ بقول توصیف’’عظیم سر نے ہمیں حوصلہ دیا، زبان کو سلیقے سے پیش کرنے کا ہنر دیا۔ انگریزی زبان سیکھنے گئے تھے، زندگی کا سبق حاصل ہوگیا۔ ڈی ایڈ کے زمانے سے لے کر آج تک ہر موڑ پر آپ کی رہنمائی شامل رہی۔ آج جب اپنی تحقیق کے سلسلے میں پی ایچ ڈی کے آخری مراحل سے گزر رہا ہوں تب بھی آپ کی رہنمائی اندھیرے میں مانند چراغ میرے ساتھ ہے۔ ‘‘
ملئے عظیم حیدر دُرانی سر سے:

عظیم درانی سر، صرف ایک ٹیچر نہیں، ماہرین تعلیم بھی ہیں۔ فی الوقت آپ ’ویژن انٹرنیشنل اکیڈمی‘ کے پرنسپل اور منیجر ہیں۔ یہ ایک ایسا خصوصی تعلیمی ادارہ ہے جہاں حفاظ کرام کو اس شعوری کوشش کے ساتھ عصری تعلیم سے جوڑنے کیلئے محنت کی جاتی ہے کہ ان کا حفظ متاثر نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی آپ پی ایچ ڈی اسکالر بھی ہیں۔
عظیم درانی سر سے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اپنے طلبہ کیلئے وہ آخر ایسا کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انہیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں ؟ اس کے جواب میں آپ نے کہا کہ’’ میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے طلبہ مشین نہیں، انسان بن کر کامیابی حاصل کریں۔ وہ جہاں بھی رہیں، ہمیشہ اپنے مقصد کو ذہن میں رکھیں اور ذمہ داریوں سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں۔ اس کیلئے میں اپنے طلبہ کو پورا وقت دیتا ہوں اورجہاں بھی انہیں میری ضرورت محسوس ہوتی ہے، میں ان کے ساتھ کھڑا رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ‘‘
طاہرہ شیخ( ممبئی)
اسوسی ایٹ انجینئر(نیوجرسی، امریکہ)

جولوگ کہتے ہیں کہ مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرتے، ان کی لڑکیاں گھروں میں قید رہتی ہیں اور جو لڑکیاں کچھ پڑھ لکھ لیتی ہیں، وہ اپنی تعلیم سے سماج کو فیض نہیں پہنچاتیں، وہ ایک نظر طاہرہ شیخ اور ان کے ایجوکیشنل اور پروفیشنل کریئر پر ڈالنے کی زحمت کریں۔
طاہرہ شیخ نے مدنی ہائی اسکول جوگیشوری سے اردو میڈیم کے ذریعہ اپنی تعلیم حاصل کی اور اِس وقت امریکہ کے نیوجرسی میں اسوسی ایٹ انجینئر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کا یہ سفر بہت آسان نہیں رہا، اس کیلئے انہیں کافی جدوجہد کرنی پڑی ہے اور مشکلات کی سخت دیواروں کو اپنے حوصلوں کے ہتھوڑے سے گرانی پڑی ہیں۔ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی طاہرہ کی زندگی میں ایک بہت رکاوٹ اُس وقت آئی تھی جب وہ اپنے قدموں پر کھڑی ہونے کی کوشش کررہی تھیں۔ اُس و قت ان کی عمر ۲؍ سال تھی جب ان کے والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا تھا۔ اس کے بعد ان کے دادا، چاچا اور ان کی والدہ نے مل کر ان کی پرورش کی اور کسی بھی موقع پر والد محترم کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔
۲۰۱۴ء میں انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ’بی ای‘ اور ۲۰۱۸ء میں کمپیوٹر انجینئرنگ میں ’ایم ای‘کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے دوران تعلیم ہی ان کی انجینئرنگ کالج (ٹھاکر کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی) انتظامیہ نے بطور اسسٹنٹ پروفیسر ان کا تقرر کرلیا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کیلئے امریکہ گئیں اور وہاں نیویارک میں رہتے ہوئے ایک اور ’ماسٹر‘ کیا۔ اس کے بعد پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
طاہرہ شیخ سے ہم نے معلوم کیاکہ آپ کے اس شاندار سفر کا وہ چراغ کون ہے جس نے آپ کی رہبری اور رہنمائی کی تو انہوں نےمشہور کریئر کونسلر اورمدنی ہائی اسکول کے پرنسپل عامر انصاری کا نام لیا۔ بقول طاہرہ شیخ ’’عامر سر کی خوبی یہ ہے کہ وہ طلبہ میں چھپی صلاحیتوں کو پہچان لیتے ہیں اور پھر اس طالب علم پر کچھ اس طرح سے محنت کرتے ہیں کہ اس کی وہ صلاحیتیں پوری طرح سے ظاہر ہوجائیں۔ طالب علمی کے زمانے سے لے کر آج تک وہ قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ ‘‘
ملئے عامر انصاری سر سے:

عامر انصاری ایک ٹیچر، ایک کالم نویس، ایک منتظم، ایک موٹیویشنل اسپیکر اورایک ایجوکیشنل کونسلر کے ساتھ ساتھ سماج اور تعلیم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے والے ایک رابطہ کار کے طورپر پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کی خدمات صرف اپنے اسکول تک محدود نہیں ہیں بلکہ آپ پوری ریاست کے اسکولوں کو اپنا اسکول اور وہاں کے طلبہ کو اپنا طالب علم مانتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ موقع بہ موقع آپ روزنامہ انقلاب میں کالم کے ذریعہ بھی طلبہ کی رہبری کرتے ہیں۔
ہم ان سے پوچھا کہ آپ طلبہ کی رہنمائی کس طرح کرتے ہیں کہ وہ اسکول چھوڑنے کے بعد بھی آپ کو یاد رکھتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ہم تدریسی کے ساتھ ہی غیر تدریسی سرگرمیوں پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ اس کیلئے ہم تعلیمی اداروں کی سیر، مختلف شعبے کے ماہرین سے گفتگو، مشن لائف اسکلز پروگرام اور مینٹرشپ پروگرام وغیرہ کا انعقاد کرتے ہیں۔ اِسی طرح آئی ٹی، کمپیوٹر، انٹرپرینیورشپ، روبوٹکس، اردو ادب، اسپوکن انگلش جیسےپروگراموں کےذریعہ طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر ندیم انصاری (انجنویل، رتناگیری)
بی ڈی ایس، اسپیشلسٹ اِ ن ٹیتھ الائنمنٹ

کلاسک شاعر حیدر علی آتش کا ایک شعر ہے’’جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں، ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں ‘‘... ڈاکٹر ندیم انصاری اس شعر کی عملی تفسیر ہیں۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود سماجی تقاضوں کو وہ خاص اہمیت دیتے ہیں اور بڑوں کے ساتھ چھوٹوں سے بھی حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔
ندیم انصاری نے ابتدائی تعلیم اپنےگاؤں کےپرائمری اسکول (انجنویل، گوہاگر تعلقہ، رتناگیری) سے حاصل کی۔ ایس ایس سی کی تعلیم انجمن خیرالاسلام (دابھول، رتناگیری) سے اور ایچ ایس سی کی تعلیم وویکانند کالج (کولہاپور) سے مکمل کی۔ اس کے بعد بی ڈی ایس(بیچلر آف ڈینٹل سرجری) کیلئے بنگلور کا رُخ کیا جہاں راجیوگاندھی کالج آف ڈینٹل سائنس اینڈ ہاسپٹل میں داخلہ لیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھیونڈی آگئے اور دانتوں کے علاج میں مہارت رکھنے والے اور شہر کے ساتھ ہی بیرون شہر بھی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر ابرار مومن کے دواخانے سے اپنی پریکٹس کا آغاز کیا۔ اس کے بعد بھیونڈی سے کچھ ایسی محبت ہوئی کہ اسی کو اپنا مسکن بنالیا۔ وہاں ۵؍ سال تک وہاں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد بھیونڈی کے غیبی نگر میں اپنا کلینک کھولا جہاں وہ آج جدید سہولیات سے آراستہ مشینوں کے ذریعہ دانتوں کا علاج کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے ہم نے پوچھا کہ آپ کے بہترین ٹیچر کون ہیں ؟ تو انہوں نے بلا کسی توقف کے منصور ملّا سر کا نام لیا۔ میں نے حیرت ظاہر کی کہ نرسری سے بی ڈی ایس تک آپ کا سابقہ درجنوں اساتذہ سے پڑا ہوگا، آپ نے فوری طور پر منصور سر کا نام لیا، کیا خاص بات ہے ان میں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ صرف ہمارے ٹیچر نہیں، بلکہ ہمارے سرپرست جیسے ہیں ... اور انہوں نے صرف میری نہیں بلکہ ان تمام طلبہ کی سرپرستی کی ہے جنہوں نے انجنویل کے پرائمری اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔
ملئے منصور امام ملّا سر سے:

بیلگام سے تعلق رکھنے والےمنصور ملا سر سے ۱۹۸۷ء میں اپنی تدریسی خدمات کا آغاز ضلع پریشد پرائمری اسکول انجنویل سے کیا اور ۳۵؍ سال ۷؍ ماہ تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد جولائی ۲۰۲۳ء میں ڈاکٹرذاکر حسین اردو اسکول، گڈہنگلاج سے سبکدوش ہوئے۔ میں نے منصور سر سے پوچھا کہ وہ کون سی ایسی بات ہے جس کی وجہ سے آپ کے طلبہ آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔ وہی عزت دینے والا ہے اور وہی ذلت دینے والا ہے۔ رہی بات طلبہ کے محبت کی تو اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ میں نے اپنی ذمہ داری کو پوری ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایک خاص بات یہ بتائی کہ اپنے ۳۵؍ سالہ تدریسی کریئر میں اور اب سبکدوشی کے بعد بھی میں اسکول کیمپس کے دوران ہی نہیں بلکہ اپنے گھر میں بھی ایک ٹیچر کی طرح رہا اور جب بھی کسی طالب علم نے مدد مانگی، میں نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی اور اس درمیان ٹیوشن کے نام پر کسی طالب علم سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔
واحد سید مشتاق ( ممبئی)
ہیڈ شیف (گورنمنٹ کیٹرنگ کمپنی، عمان)

بھیڑ چال کے اس دور میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے لئے الگ راستہ منتخب کرتے ہیں اوردوسروں کیلئے رول ماڈل بنتے ہیں۔ واحد سید مشتاق انہیں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر اورانجینئر بننے کے بجائے ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کیا اور مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے آج عمان کی ایک سرکاری کیٹرنگ کمپنی میں ہیڈ شیف کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔ ان کی کیٹرنگ کمپنی میں تیا ر ہونےوالا کھانا عمان کے سرکاری ملازمین کو سپلائی کیاجاتا ہے۔ اس پورے کھانے کی نگرانی واحد سید کرتے ہیں۔ ان کی منظوری کے بغیر کوئی کھانا سپلائی نہیں کیا جاسکتا۔ ۲۰۰۸ء میں مدنی ہائی اسکول سے ایس ایس سی کامیاب کیا۔ اسماعیل یوسف کالج سے گریجویشن کرنے کے بعدمیں نے ملازمت کا آغاز کیا لیکن پھر ۲؍ سال کے وقفے کے بعد ہوٹل مینجمنٹ میں ڈپلومہ کیا۔ اس کے بعد ۲۰۱۴ء میں ’بامبے بلیو ریسٹورنٹ‘ میں ملازمت اختیار کرکے ایک نئے کریئر کا آغاز کیا۔ ایک سال بعد میں بحرین چلاگیا جہاں دو سال تک اپنی خدمات پیش کیں۔ اس کے بعد بحرین میں ہی ایک دوسرے شہر چلا گیا جہاں ۳؍ سال تک رہا۔ اس کے بعد دو سال کیلئے عمان چلا گیا۔ پھر سعودی عرب کے ریاض شہر میں مئی ۲۰۲۵ء تک رہا۔ اب پھر عمان میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ واحد سے میں نے ان کےبہترین ٹیچر کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے مدنی ہائی اسکول کے ’شیخ آزاد علی جواد علی‘ سر کا نام لیا۔ واحد نے بتایا کہ آزادسر حقیقی معنوں میں ایک سرپرست کہلانے کے مستحق ہیں۔ ہمیں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی، ہم بلا جھجھک آزاد سر سے اپنی بات کہتے، اور وہ ہمارے مسائل کا حل تلاش کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے۔
ملئے شیخ آزاد علی جواد علی سرسے:

شیخ آزاد علی جواد علی گزشتہ ۲۶؍ برسوں سے مدنی ہائی ا سکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ وہاں پر طلبہ کو اُردو اور شہریت کی تعلیم دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی طلبہ میں سماجی اور دینی شعور بیدار کرنے کی بھی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔
ہم نے آزاد سر سے پوچھا کہ آپ کے تئیں طلبہ کی اس بے پناہ محبت کا راز کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ’’ طلبہ کی بعض اساتذہ سے کچھ خاص انسیت ہوتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ ہمارے اسکول کے تمام اساتذہ طلبہ کی ہمہ جہت کامیابی کیلئے ٹیم ورک کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہم سب بچوں کے تئیں بہت زیادہ فکر مند رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ترقی کی راہ میں کوئی پریشانی حائل نہ ہو۔ اس کیلئے ہم اپنے کلاس کے تمام بچوں کے نہ صرف نام اوران کے والدین سے واقف ہوتے ہیں بلکہ ان کے گھریلو حالات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں، اور جب جب جہاں جہاں کوئی ضرورت پڑتی ہے، ان کے ساتھ کھڑے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘
ارشد علی حسام الدین (بھیونڈی)
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ( منیجر، حیدرآباد)

جدوجہد اور کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ لوگ جو ہار نہیں مانتے، کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ ارشد علی حسام الدین کا شمار اسی قبیل کے نوجوانوں میں ہوتا ہے جو کامیابی کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ کامیابی ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔
لیکن ان کا سفر اتنا آسان بھی نہیں رہا۔ بھیونڈی میں کے ایم ای ایس ہائی اسکول سے ایس ایس سی اور ’این ای ایس‘ جونیئر کالج سے ایچ ایس سی کی تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کیلئے پونے کا سفر کیا۔ بعد میں سی اے (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) کی تیاری شروع کی۔ سی اے فائنل میں پہنچنے کے بعد ایک بار ناکامی سے بھی سامنا ہوا۔ وہ ایک ایسا وقت تھا، جب ارشد کئی طرح کی پریشانیوں کے شکار تھے۔ کچھ معاشی تو کچھ خانگی مسائل تھے۔ اس کے بعد انہوں نے بھیونڈی کے لاء کالج سےقانون کی تعلیم حاصل کی اوراسی میدان میں ملازمت کی کوشش کی۔ بعد میں انہوں نے خود کو مستحکم کیا اور حالات پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد بھیونڈی، بنگلور اور حیدرآباد میں مختلف کمپنیوں میں کام کرتے ہوئے آج ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
میں نے ارشد سے ان کے بہترین ٹیچر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے الحمد ہائی اسکول کے مقبول ٹیچر’مومن محمد نثار احمد‘ کا نام لیا۔ بقول ارشد ’’تعلیمی سفر میں میری سب سے زیادہ مدد محمد سر نے کی۔ تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے احساس دلایا کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ ‘‘
ملئے ’مومن محمد نثار احمد سر سے:

آپ کا پورا نام ’مومن محمد نثار احمد‘ ہے لیکن آپ نہ صرف اپنے طلبہ میں بلکہ پورے شہر میں ’محمد سر‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ شہر کے ان چنندہ اساتذہ میں سے ایک ہیں جن کی ریاضی بہت اچھی ہے اور جو اپنے طلبہ میں ریاضی کے حوالے سے کافی مقبول ہیں۔ محمد سر نے مختلف پرائمری اسکولوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صمدیہ ہائی اسکول سے ایس ایس سی اور رئیس جونیئر کالج سے ایچ ایس سی کا امتحان دیا۔ اس کے بعد ایک طویل وقفے کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے فاصلاتی تعلیم کے تحت بی اے اور ممبئی یونیورسٹی سے بی ایڈ کی تعلیم حاصل کی۔ محمدسر کا تدریسی کریئر کم و بیش ۳۵؍ برسوں پر محیط ہے جن میں سے ۲۵؍ سال انہوں نے الحمد ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں گزارے ہیں۔
میں نے ان سے ان کی مقبولیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ ’’میری پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ نصابی کتب بالخصوص ریاضی سے اُن کا خوف دور کردوں۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے اپنے استاد ریاض الدین خان سے یہ بات سیکھی کہ ریاضی بچوں کو اسلئے مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس تعلق سے ان کی بیسک بہت کمزور ہوتی ہے۔ اس با ت کو میں نے اپنی گرہ میں باند ھ لی اور اپنا پورا فوکس اسی پر مرکوز کیا کہ طلبہ کی بیسک مضبوط ہو۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے اس کوشش میں بڑی کامیابی ملی۔ ‘‘