Inquilab Logo Happiest Places to Work

عشرۂ ذو الحجہ، عرفہ کا روزہ، تکبیرِ تشریق، حج اور قربانی

Updated: May 30, 2025, 3:13 PM IST | Mufti Nadeem Ahmed Ansari | Mumbai

ذو الحجہ کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر متعدد مخصوص اعمال متوجہ ہوتے ہیں، جن میں سب سے اہم ’حج ‘ہے، اسی کی مناسبت سے اس مہینے کا نام ذی الحجہ یا ذوالحجہ پڑ گیا یعنی حج والامہینہ۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ذو الحجہ کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر متعدد مخصوص اعمال متوجہ ہوتے ہیں، جن میں سب سے اہم ’حج ‘ہے، اسی کی مناسبت سے اس مہینے کا نام ذی الحجہ یا ذوالحجہ پڑ گیا یعنی حج والامہینہ۔ اس کے علاوہ اس ماہ میں ایک خاص حکم جانوروں کی’قربانی‘کاہےجو ’عیدالاضحی‘کے موقع پر کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں عشرۂ ذی الحجہ سے متعلق چند احکام اور بھی ہیں۔ یہاں ان سب کا مختصر تذکرہ کیا جائےگا:
عشرۂ ذو الحجہ کی فضیلت: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ فجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے وہ راتیں جمہور کے قول کے مطابق عشرۂ ذو الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ (معارف القرآن) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اعمال ذو الحجہ کے (شروع) دس دنوں کی نیکیاں ہیں۔ 
بال اور ناخن کا خاص حکم: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہاراارادہ قربانی کا ہو تو تم اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رکے رہو۔ (مسلم) یہ حکم استحبابی ہے اور صرف قربانی کرنے والوں کے ساتھ خاص ہے۔ 
ذو الحجہ میں صیام و قیام: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ذو الحجہ کے پہلے عشرےمیں ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، ان دنوں (یعنی یکم ذی الحجہ تا ۹؍ ذی الحجہ) میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے نفلی روزوں کے برابر اور ایک رات میں قیام کا ثواب شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔ (ترمذی)

یہ بھی پڑھئے:اسلامی شریعت میں وقف کا تصورعبادات اور معاشرتی خدمات کے سنگم پر قائم ہے

حجِ بیت اللہ: حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں، مخصوص فعل سے، مخصوص مکان کی زیارت کرنے کو’حج‘ کہتے ہیں۔ (عمدۃ الفقہ) حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ قرآنِ کریم میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا: لوگوں پر اللہ کا حق یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر (کعبے) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے، اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہلِ عالَم سے بے نیاز ہے۔ (آل عمران)
حج کے فضائل: حج کے فضائل احادیث میں کثرت سے وارد ہوئے ہیں، یہاں فقط ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے؛ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نےحضرت نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص رضاے الٰہی کے لیے حج کرتا ہے، اس طرح کہ اس میں کسی قسم کی فحش اور برائی کی بات نہ کرے اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلا نہ ہو تو وہ حج کے بعد اپنے گھر گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر واپس لوٹے گا، جس طرح پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے (گناہوں سے پاک) اِس دنیا میں آیا تھا۔ (بخاری)
صومِ عرفہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ (یعنی ۹؍ ذی الحجہ) کا روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم)
تکبیرِ تشریق: ۹؍ ذو الحجہ کی نمازِ فجر سے۱۳؍ ذو الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ تکبیرِ تشریق ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، آزاد ہو یا غلام، جماعت سے نماز پڑھنے والاہو یا منفرد۔ البتہ ان دنوں کی کوئی نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کے وقت تکبیرِ تشریق پڑھنے کی ضرورت نہیں، اسی طرح پہلے کی کوئی قضا نماز جو کہ واجب الادا تھی، ان دنوں میں اس کی قضا کرے تو بھی تکبیرِ تشریق نہیں کہی جائے گی۔ یہ تکبیر مرد متوسط بلند آواز سے اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔ (خلاصۃ الفتاویٰ) نمازِعید کے بعد بھی تکبیرِ تشریق کا وجوب معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، اگرچہ فی نفسہ فرض نہیں، اسی پر مسلمانوں کا توارث ہے۔ (بحرالرائق) 
 عید کی رات میں عبادت: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص عیدین(عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں میں شب بیداری اور عبادت کا اہتمام کرے، اس کا دل قیامت کے دن اس وقت بھی زندہ رہے گا جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ)اس لیے اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ 
 قربانی: ’القربان‘کے معنی ہیں ’وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی قُرب جوئی کی جائے‘ اور عرف میں قربان بہ معنی ’نسیکہ‘ یعنی ’ذبیحہ‘ کے آتے ہیں۔ (مفردات القرآن) رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: عید الاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)
قربانی کا پس منظر اور ثواب: حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺکے صحابہؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے والد حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اور فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے (بھی) ایک نیکی۔ (ابن ماجہ) 
قربانی نہ کرنے پر وعید: ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے، ایک حدیث میں رسول اللہﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے: جو صاحبِ نصاب باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ (ابن ماجہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK