Inquilab Logo

وہ صبح یقیناً آئے گی، جب بیٹیوں کی طرح بیٹے بھی سنجیدگی برتیں گے اور معاشرے کا توازن سنبھل جائے گا

Updated: November 05, 2023, 1:42 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہمارے معاشرے میں کیا وہ صبح کبھی نمودار ہو گی جو یہ نوید لے کر آئے کہ لڑکے بھی پڑھ رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم اور اُس سے اعلیٰ مرتبے حاصل کر رہے ہیں۔

If we learn the art of encouraging children, there is no reason why they cannot move forward. Photo: INN
اگر ہم نے بچوں کی حوصلہ افزائی کا ہنر سیکھ لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ آگے نہ بڑھیں۔ تصویر:آئی این این

ہمارے معاشرے میں کیا وہ صبح کبھی نمودار ہو گی جو یہ نوید لے کر آئے کہ لڑکے بھی پڑھ رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم اور اُس سے اعلیٰ مرتبے حاصل کر رہے ہیں اور اس بنا پر حصولِ تعلیم کے ضمن میں ہمارے یہاں جو سماجی توازن بگڑ چکا ہے،اس کے سنبھلنے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں؟ ہم قطعی مایوس نہیں ہیں مگر اس صبح کا سورج دیکھنے کیلئے ہمیں اپنا نظریہ اور اُس سے زیادہ اپنا طریقۂ کا ر تبدیل کرنا ہوگا۔
 (۱) سب سے پہلے ہم مایوسی کے اندھیروں سے نکلیں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم لڑکوں کو تعلیم و اعلیٰ تعلیم کی جانب آمادہ کر ہی نہیں سکتے یا یہ کہ اس ضمن میں کچھ اس قدر بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اب یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ لڑ کے اعلیٰ تعلیم کی دھارےسے جُڑ سکیں بلکہ اس آیتِ ربّانی پر یقین رکھیں کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہے۔
 (۲) کسی بھی تحریک کا آغاز ہمیشہ اصلاح معاشرہ ہی سے ہوگا کیوں کہ معاشرے کے بگاڑ کے برقرار رہتے ترقی کا کوئی بھی خواب پورا نہیں ہوسکتا لہٰذا لڑکوں کے دل و دماغ میں اٹھنے والے بغاوت کے شعلے ٹھنڈے پڑسکتے ہیں اگر ہمارے گھروں کا ماحول درست ہو جائے۔
 (۳) ہمیں اس کی فکر کرنی ہے کہ آخر ہمارے ہر گھر میں ایسا کیوں دکھائی دے رہا ہے کہ باپ اور بیٹے بالکل متوازی خطوط کی طرح ساتھ ساتھ تو چلتے ہیں مگر کبھی ملتے نہیں ہیں ، آخر یہ متوازی خطوط بنے ہی کیوں ؟ یہ دونوں کسی نقطے پر ملتے کیوں نہیں ؟
 (۴) ہمارے کچھ گھروں میں کینسر سے بھی زیادہ مہلک ’انا‘ نام کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ باپ اور بیٹے میں جو سرد جنگ چلتی ہے، اُس میں دونوں جس ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں وہ ہے ’ انا‘۔ اس معاملے میں باپ یہ سمجھتا ہے کہ انا صرف اُس کی ہے، جذبات مجروح صرف اُس کے ہوتے ہیں ۔ بیٹا صرف بیٹا ہے سر جھکائے صرف سنتار ہے۔ وہ سنتا ضرور ہے مگر اپنی ہر بے عزّتی پر وہ اپنے باپ سے دُور دُور ہونے لگتا ہے۔ 
 (۵) لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے ترغیب دینے کی تحریک اپنے گھر سے شروع ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ اساتذہ، اکابر اور دانشوروں کے یہاں ہی ’چراغ تلے اندھیرا‘ ہو۔ ایسی خبریں سُن کر اور پڑھ کر بہت دُکھ پہنچتا ہے کہ ہیڈ ماسٹر کے بیٹے نے پورے محلے کے ناک میں دم کر رکھا ہے یا کسی دانشور کا بیٹا ہی اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہو چکا ہے۔ کسی مصلح قوم، کسی مفکّر، کسی مدبّریا کسی مقرر کا بیٹا ہی زندگی کی دھارا سے کٹ چکا ہے۔
 (۶) ہمارے سماج کی ایک اور بڑی بیماری کا نام ہے: نفسانفسی۔ ایک بار ہمارے تعلیمی بیداری مرکز پر ایک صاحب آئے۔ باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ ’’کون کہتا ہے مسلمان لڑکے پڑھتے نہیں ، میرے چار بیٹے ہیں تین بیٹے انجینئر بن چکے ہیں ، یہ چوتھا ابھی جو میرے ساتھ آیا ہے یہ بھی انجینئر بننا چاہتا ہے اُس کی رہنمائی کیلئے میں آیا ہوں تا کہ چاروں بیٹے انجینئر۔‘‘ ہم نے اُن سے کہا کہ جناب اپنے محلے ہی میں نظر اٹھا کر دیکھ لیجئے، وہاں ۴۰؍ لڑ کے ایسے دکھائی دیں گے جن میں سے کوئی اِسٹو درست کر رہا ہے تو کوئی چھتری بنا رہا ہے، کوئی رکشا چلا رہا ہے تو ٹھیلے پر سامان بیچ رہا ہے۔ ہماری قوم کا یہ بڑا المیہ ہے کہ ہماری زندگی کا محور ہے: ہم اور ہماری فیملی۔ ہم اپنی کامیابی کے گُر اپنے پڑوسی میں بھی بانٹنے کو تیار نہیں ، رشتہ داروں میں بھی نہیں ، محلہ اور قوم تو بہت دور کی بات ہے۔
 (۷) آزادی کی ان ۸؍سے دہائیوں میں ہماری قوم کے ایک بڑے طبقے کو ایک عادت سی پڑ گئی ہے یہ کہنے کی ’’ آخر حکومت کیا کر رہی ہے؟ وہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف کب کرے گی ؟ ہمیں ہمارے جائز حق کب دلائے گی وغیرہ وغیرہ۔‘‘ حکومت اور سیاسی بازیگروں پر ۷۷؍ سال تک تکیہ کرنے کا نتیجہ ہم نے سچر کمیشن کی رپورٹ میں دیکھ لیا ہے کہ ہم سب سے پچھڑوں سے بھی زیادہ پچھڑ گئے۔ ہماری چند بڑی کوتاہیاں یہ رہیں کہ (الف) ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کے بجائے حکومت اور دوسری قوموں کی سازشوں کی شکایت کرتے رہے اور ( ب ) محلہ تنظیمیں قائم کرنے کے بجائے آل انڈیا تنظیموں کے پیچھے دوڑے۔ لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم سے جوڑنے اور جُڑے رہنے کیلئے اب ہمیں محلہ تنظیموں کو متحرک بنانا ہے اور اسکول/ کالج ڈراپ آؤٹ ہونے والے اور محلوں کے نکّڑ آباد کرنے والے لڑکوں کو تعلیمی دھارا سے جوڑنے کا کام جنگی پیمانے پر کرنا ہے۔
 (۸) گاؤں گاؤں ، شہر شہر،محلہ محلہ اور گلی گلی کی خاک چھاننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کے ہر خاندان کو ایک کائونسلر کی ضرورت ہے جو اُن کی نفسیاتی تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر رہنمائی کر سکے لہٰذا کاؤنسلنگ یا رہنمائی کو ہمارے معاشرے میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ رہنمائی کے اجلاس ہر محلے میں مسلسل منعقد ہوتے رہیں اور اُن سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا ہر ٹیچر روزانہ ایک گھنٹہ کسی بلڈنگ اور چال میں جا کر طلبا و طالبات کی تعلیمی و نفسیاتی رہنمائی کرے اور اس کیلئے حکومت کے کسی بھی جی آرکا انتظار نہ کرے۔ لڑکوں کے ڈ راپ آئوٹ کی بناء پر ہماری قوم کے حالات بالکل دھما کہ خیز موڑ پر پہنچ چکے ہیں اسلئے تعلیمی جہاد میں اساتذہ کو عملی طور پر متحرک ہونا اب لازمی ہے۔
 (۹) لڑ کوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے ضمن میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اُس کی ایک بڑی وجہ بلاشبہ والدین کی بے صبری اور غیردُور اندیشی ہے۔ کم از کم ہمارے والدین اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں والدین کی رہنمائی کے اجلاس ہر ہفتے نہ سہی البتہ ماہانہ ہونا ضروری ہیں اور انہیں واضح طور پر سمجھایا جائے کہ (الف ) زندگی میں قلیل مدّتی فائدوں کے پیچھے اپنے بچّوں کو وہ خود دوڑا رہے ہیں (ب) اپنے بیٹوں پر، گھر میں چولہا جلنے کا ایندھن ، یہ لیبل والدین نے لگایا ہے ( ج ) ہر بچّہ تن آسانی چاہتا ہے اور بڑی آسانی سے اور بڑی جلدی کمانے کیلئے آمادہ والدین ہی کرتے ہیں لہٰذا بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔اُس کے بر اہ ر است ذمہ دار والدین قرار پا رہے ہیں ۔
 (۱۰) ہمارے گھروں میں آج والدین اور خصوصاً بیٹوں کے ساتھ ربط ، تبادلۂ خیال ( یا ڈائیلاگ) کی بڑی کمی ہے۔ والدین جس بیٹے پر شرمیلا، غصہ ور اور کم گو وغیرہ کا لیبل لگاتے ہیں اس بیٹے کو نکّڑوں پر جا کر دیکھیں تو وہ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ وہی بیٹا وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ کس قدر دل کھول کر ہنستا ہے اور بحث میں حصہ لیتا ہے۔ ایک الگ ہی روپ دیکھنے ملے گا وہاں اپنے بیٹے کا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے بیٹے میں بنیادی کوئی نقص نہیں ہے، وہ شرمیلا، کم گو، غصہ ور وغیرہ کچھ نہیں ہے، نقص گھر کے ماحول میں ہے۔ گھر میں اُسے تبادلۂ خیال کرنے اور اپنی بات کہنے کی شاید آزادی نہیں ہے۔ والدین کے پاس اپنے بیٹے کی بچکانہ بے سروپا اور ’بکو اس‘ سننے کیلئے وقت بھی نہیں ہے جبکہ اُس کے دوستوں کے پاس وہ ہے۔ 
 (۱۱) والدین یہ بھی سوچیں کہ وہ بچّوں کی تربیت کی مشقّت سے بری الذمہ ہونے کیلئے کہیں بہت جلد اپنے بچّوں پر اس طرح لیبل تو نہیں لگا ر ہے مثلاً (الف) بچّے نے معمولی ضد کی تو اُسے نافرمان قرار دیا (ب) ذرا سی شرارت کی تو اُسے آوارہ قرار دیا (ج) کسی ایک مضمون میں فیل ہوگیا تو اُسے کند ذہن کہہ دیا (د) کتابیں / بیاضیں وغیرہ کی بے ترتیبی پر پاس پڑوس کے لوگوں کو کہہ دیا کہ اُن کے بیٹے جیسا غیر ذمہ دار بیٹا کوئی نہیں اور (ہ) ہر بار اپنے بیٹے کے تعلق سے بات کرتے وقت یا تو اپنا سر پکڑ لیا یا اللہ پناہ،خدا بچائے اس سے اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے، جیسےکلمات استعمال کرتے رہے ! والدین کی یہ ساری حرکات اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے ہی ہوتی ہیں اور کچھ نہیں !اُسی بیٹے کو ویڈیو گیمز کھیلتے وقت اُس کے اسمارٹ فون سے آواز آتی ہے: ’’ویری گُڈ، زبردست، بہت خوب، آگے بڑھو، ڈٹے رہو‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اپنے بیٹے کی کسی اچھی کارکردگی، اُس کی کامیابی، اُ س کے کسی اچھے برتائو کیلئے والدین کتنی مرتبہ حوصلہ افزائی کے کلمات استعمال کرتے ہیں ؟
خواتین و حضرات ! آپ کے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے راغب کرانا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ضرورت ہے ہماری مثبت فکر ، واضح ویژن یا دُور اندیشی اور بیٹوں کے تعلق سے اپنے مفروضات و نظریات کو مکمل تبدیل کرنے کی! اور پھر وہ صبح یقیناً آئے گی جب بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور سماج کا بگڑا توازن پھر سنبھل جائے گا۔انشاء اللہ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK