• Mon, 08 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے

Updated: February 13, 2021, 10:59 AM IST | Shahid Latif

ایسی تقریر کرنا آسان نہیں۔ اس کیلئے علم بھی درکار ہوتا ہے، بصیرت بھی۔ اس کیلئے جرأت بھی درکار ہوتی ہے اور اسلوب بیان بھی۔ دُنیا کی کئی شخصیات نے اہم موقعوں پر یادگار تقریریں کی ہیں مگر اُنہیں کتابوں تک محدود کردیا گیاہے، اُن سے کچھ سیکھا نہیں جاتا۔

Mahua Moitra - Pic : PTI
مہوا موئترا ۔ تصویر : پی ٹی آئی

ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے بدھ کو ایوان ِ پارلیمان سے خطاب کیا کیا، لوگوں کا دل جیت کر میدان مار لیا۔ آج مسلسل چوتھے دن اُن کی تقریر عوامی اور سماجی ذرائع ابلاغ کے قومی و عالمی حلقوں میں گونج رہی ہے۔ اُن کا اسلوبِ بیان، جرأتِ اظہار، للکارنے کا انداز، جملوں کی بندش، الفاظ کا انتخاب، گہرائی و گیرائی اور برجستگی و بے ساختگی اس قابل تھی کہ سماجی ذرائع ابلاغ اس کی ستائش کرتے۔ وہی ہوا۔ اس سے قبل بھی اُن کے یہی تیور دیکھنے کو ملے تھے۔ تب بھی اُن کی اتنی ہی پزیرائی ہوئی تھی۔ کرشنا نگر، مغربی بنگال کے حلقۂ پارلیمان کی نمائندگی کرنے والی اس بہادر خاتون کی بیس منٹ تک جاری رہنے والی تقریر کے کئی جملے ایسے ہیں جن کی حوالہ جاتی اہمیت (ریفرنس ویلیو) سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 
 بلاشبہ مہوا موئترا کی یہ تقریر اس مضمون کا محرک بنی مگر ان سطور  میں مذکورہ تقریر سے بحث مقصود نہیں بلکہ فن تقریر یا فن خطابت سے متعلق  چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ دراصل تقریر بہت بڑا فن ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی منصب پر پہنچ جائے اور تمنا کرے کہ سامعین کو متاثر کرنے والی تقریر کرلے، یہ ممکن نہیں تا آنکہ وہ فن خطابت سے واقف نہ ہو اور تقریر کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ تیاری کرکے خطاب کرنے اور برجستہ بولنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسکولوں میں منعقد ہونے والے تقریری مقابلوں کے فاتحین، جو متعدد مقابلوں میں اول، دوم، سوم آئے، اُن میں سے بیشتر اپنی عملی زندگی میں مقرر کی حیثیت سے مقبول نہیں ہوئے۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے۔ اس کے اسباب سے بھی ہر خاص و عام واقف ہے۔ اسی طرح، بے شمار لوگ سیاست میں رہے، نام بھی کمایا مگر اُن کی تقریر وہ جادو نہیں جگا سکی جو خطیبانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کی تقریروں نے جگایا۔ تقریر کئی وجوہات کی بناء پر کامیاب یا ناکام قرار پاتی ہے۔ نفس مضمون اور متن کی ثروت مندی سے لے کر اندازِ بیان اور لہجے کے نشیب و فراز تک، یہ فن بہت سی صلاحیتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں موقع کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے مگر موقع کو یادگار بنانا بھی شرط ہے۔ بہت سی شخصیات کو بڑے تاریخی موقعوں پر خطاب کا موقع ملا مگر تقریر تاریخی نہیں بن سکی۔  عالمی تاریخ میں کئی تقاریر ایسی بھی ملتی ہیں جو غالب کے شعر کی طرح تھیں۔ اپنے دور میں مقبول نہیں ہوئیں مگر بعد کےادوار میں اس میں موجود بصیرت، دور بینی، پیش گوئی اور ایسی ہی دیگر خوبیوں کی ستائش ہوتی رہی۔ فن خطابت کو سمجھنے کیلئے شورش کاشمیری کی اسی نام کی تصنیف سے استفادہ ضرور کرنا چاہئے جس کے ابتدائی صفحات پر چودھری افضل حق کے تاثرات کچھ اس طرح رقم ہیں:  
 ’’ہماری جماعت میں مولانا حبیب الرحمان، مولانا مظہر علی، شیخ حسام الدین اور عزیزم شورش کے اضافہ سے چار ایسے آدمی ہیں جو پانی کے بہاؤ میں شیر کی طرح سیدھے تیر سکتے ہیں۔‘‘ 
 اس مضمون کے قارئین منقولہ جملے کی داد یقیناً دیں گے مگر میری التجا ہے کہ وہ جملے کے آخری ٹکڑے کے حسن ترکیب سے زیادہ حسن معنی پر غور فرمائیں اور فن خطابت کی شرطوں کو سمجھیں کہ اس بحر میں اِس پار سے اُس پار جانے کیلئے کس معیار کی شناوری درکار ہوتی ہے۔ اس پر توجہ نہ دیئے جانے ہی کا نتیجہ ہے کہ تقریری مقابلوں میں انعام جیتنے والے تو سامنے آجاتے ہیں، مقرر پیدا نہیں ہوتے جبکہ ہر دور میںان کی ضرورت رہی ہے، آج بھی ہے۔تقریر وہ ہے جو رٹی رٹائی نہ ہو بلکہ اپنی گوناگوں خصوصیات کے سبب سامعین کے ذہنوں کو جھنجھوڑنے کی طاقت اور دلوں میں اُترنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
 ہمارے ملک میں اب طعن و تشنیع کا ہدف بنائے جانے والے جواہر لال نہرو بھی بہترین مقرر تھے۔ آزادی کے موقع پر اُن کی تقریر آج بھی عالمی تقریروں کی فہرست میں جگہ پاتی ہے۔ نہرو نے اس تاریخی موقع کا تاریخی استعمال کرکے اُس وقت کے الفاظ کو یادگار اور تاریخی بنادیا۔ اس کا پہلا ہی جملہ تاریخی تھا: 
Long years ago we made
 .... a tryst with destiny
 (برسہا برس پہلے ہم نے اپنی تقدیر سے ایک وعدہ کیا تھا)۔ یہ جملہ  آج بھی کہیں لکھا ہوا مل جائے یا کوئی نقل کرے تو فوراً یاد آتا ہے کہ یہ نہرو کا جملہ ہے۔ اسی تقریر میں نہرو نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’آج جیسے ہی نصف شب کا عمل ہوگا اور دُنیا نیند کی آغوش میں پہنچے گی، ہندوستان  حیات نو اور زمزمۂ آزادی کے ساتھ بیدار ہوگا۔ ( تاریخ میں) ایسے موقع آتے ہیں ، بھلے ہی کم کم آتے ہوں، جب لوگ ماضی سے نکل کر مستقبل کی جانب گامزن ہوتے ہیں، جب ایک عہد ختم ہوتا ہے اور برسوں کی ستائی ہوئی روح کو قوت گویائی ملتی ہے۔‘‘
   یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے مولانا آزاد کی ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کی وہ تقریر خاص طور پر یاد آرہی ہے جس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مولانا نے کہا تھا: ’’میں نے تم سے کہا تھا کہ دو قومی نظریہ حیات معنوی کے لئے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کو چھوڑو۔ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہوا ہے نہایت تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں لیکن تم نے سنی ان سنی برابر کردی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اس کی رفتار تمہارے لئے اپنا ضابطہ تبدیل نہیں کرسکتے۔ وقت کی رفتار تھمی نہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ جن سہاروں پر تمہارا بھروسہ تھا وہ تمہیں لاوارث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کرگئے ہیں، وہ تقدیر جو تمہاری دماغی لغت میں مشیت کی منشا سے مختلف مفہوم رکھتی ہے، یعنی تمہارے نزدیک فقدان ِہمت کا نام تقدیر ہے۔‘‘ 
 اس تقریر کو بار بار پڑھئے اور  پھر دیکھئے کہ آپ پر بھی رقت طاری ہوتی ہے یا نہیں۔ مولانا فن خطابت کے شہسوار تھے۔ تقسیم وطن کے بعد جو احساسات اُن کے تھے وہی احساسات اُس دور میں بہت سے لوگوں کے رہے ہوں گے مگر اُن کی ترجمانی کا حق سوائے مولانا آزاد کوئی اور شاید ہی ادا کرپاتا۔ مولانا گویا ہوئے تو تاریخی موقع سے تاریخی تقریر معرض وجود میں آئی اور اب تک کئی نسلوں کے مطالعے سے گزرتی ہوئی آئندہ نسلوں کو بھی اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کیلئے کافی ہوگی اگر ہم نے اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت کی اور پوری تقریر کو بعد کی نسل تک پہنچانے اور اس کا مفہوم سمجھانے کا اپنا فرض بحسن و خوبی ادا کیا۔ 
 یہ باتیں اسلئے بھی لکھی گئی ہیں کہ اس مضمون کے قاریہمارے ملک اور دیگر ملکوں کی اہم شخصیات کی تقریریں پڑھیں۔ نیٹ پر سننے سے کام نہیں چلے گا۔ نیٹ اتنا مستند ذریعہ نہیں جتنی کتابیں ہیں۔ نیٹ دھوکہ دے سکتا ہے، کتابیں برسوں کی آزمودہ ہیں ۔

tmc Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK