Inquilab Logo

نپور اور جندل کے خلاف کارروائی دکھاوا ہے

Updated: June 16, 2022, 2:53 PM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

نپور کے خلاف مہاراشٹرمیں کئی ایف آئی آر درج ہیں۔ لیکن اس کے بیان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو جیل میں ٹھونسا گیا ہے اوران کے مکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے زمیں بوس کیا جارہا ہے جس پر عدلیہ بھی خاموش ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

بی جے پی کے دولیڈروں نپور شرما اور نوین جندل کی طرف سے آنحضورﷺ کی شانِ اقدس میں اہانت آمیز اور دلآزار بیانات دینے کے بعد خلیجی ممالک کے شدید ردعمل پر پارٹی نے جو کارروائی کی، اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے جب بیرونی دباؤ میں آکر پارٹی نے غیرمعمولی قدم اٹھایا۔ کارروائی غیرمتوقع اس لئے تھی کہ مودی راج میں اہلیت ثابت کرنے کے لئے لیڈر کا مسلم دشمنی میں طاق ہونا لازمی کوالیفکیشن سمجھی جاتی ہے اور دونوں لیڈر اسی را ج دھرم کا پالن کررہے تھے۔ لیکن اس بار وہ لکشمن ریکھا پارکرگئے اور آپؐ کی شان میں وہ کہہ گئے جسے کوئی مسلمان، کتنا ہی گیاگزرا ہو،برداشت نہیں کرسکتا۔ ان لیڈروںکو یہ حوصلہ کیسے ہوا؟ اس کے لئے زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ جب ایک سادھوی رام زادہ اور حرام زادہ کا فرق سمجھانے لگے، دھرم سنسدوں میں اسلام اور پیغمبراسلام کے خلاف نازیبا تبصرے کئے جائیں، سادھوسنت مسلمانوں کے قتل عام اور مسلم عورتوں کی آبروریزی کا فرمان جا ری کرنے لگیں اور ۱۳۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے پردھان سیوک ہونے کے ناطے مودی ان دریدہ دہنوں کے خلاف کارروائی کے بجائے اُن جیسی زبان بولنے لگیں۔ شمسان وقبرستان ، دیوالی ورمضان کی باتیں کرنے لگیں، دنگائیوں کو ان کے لباس سے پہچاننے کا دعویٰ کرنے لگیں تو اس کے بعد کہنے کے لئے وہی بچتا ہے جس کی جرأت مذکورہ لیڈروں نے کی۔ جب اس پر ملک کے مسلمانوں نے احتجاج اور مظاہرہ کیا تو حکومت او رپارٹی کے کانوں پر جُوں نہیں رینگی لیکن جونہی خلیجی ممالک نے کڑے تیوردکھائے اور سفارتی سطح پر احتجاج کیا تو پارٹی کو ایکشن لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ورنہ ایسےموقعوں پر حکومت اور سیا ستداں عموماً بندھے ٹِکے فارمولے پر کام کرتے ہیں۔ قومی سطح کے مظاہروں پر خاطی لیڈر میڈیا پر اپنے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگاتا ہے اور تشفی نہ ہونے پر یہ عذر پیش کرتا ہے کہ اس کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ اگرکسی کو ٹھیس پہنچی ہے تو وہ معذرت چاہتا ہے۔ حکومت، قومی سطح پر ہونے والے احتجاج کو گھاس نہیں ڈالتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تنقیدوں کو ’ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ‘ کہہ کر ٹرخادیتی ہے۔ اس بار یہ دونوں ترکیبیں کام نہ آسکیں ۔ نپور شرما نے ۲۷؍ مئی کو ٹائمز ناؤ چینل پر آپؐ کی شان میں جو گستا خانہ کلمات کہے اسے ساری دنیا نے دیکھا اور سنا۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو خلیجی ممالک کی برہمی او روہاں کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کررہے ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ نے حکومت کو صفائی دینے کا کوئی موقع نہیں دیا۔ نتیجتاً پارٹی چیف کو مجبوراً نپور شرما کو پارٹی سے معطل کرنے اور نوین جندل کو پارٹی نکالا دینے کا اعلان کرناپڑا۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے خلیجی ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے کیلئےبڑی محنت کی تھی اورکامیاب ہوئے تھے کئی خلیجی ممالک نے انہیں اعلیٰ شہری اعزازات سے نوازا تھا۔ ہندوستان کے ان ممالک کے سا تھ گہرے دوستانہ اور تجارتی تعلقات ہیں اورمودی کے چہیتے اڈانی ، امبانی کے تجا رتی گھرانوں نے وہاں بڑے پیمانے پرسرمایہ کا ری کی ہے۔ یہ ممالک بڑی مقدار میں ہندوستان کی گیس اور تیل کی ضروریات کو پو را کرتے ہیں اور وہاں کام کر نےوالے ۸۰؍ لاکھ ہندوستانی ملک کے زرمبادلہ کا ایک بڑا او را ہم ذریعہ ہیں۔ ان حالات میں خلیجی ممالک کی نا راضگی کا خطرہ مول لینا حماقت کہلاتا ۔ البتہ مودی کی چپی ہنوز ایک معمہ ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گجرات کے مسلم کش فسادات پر سابق وزیراعظم واجپئی نے مودی کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت کی تھی اور تشویش ظاہر کی تھی کہ اب وہ کیا منہ لے کر بیرون ملک کے دوروں پر جائیں گے۔ مودی کو آج اسی صورتحال کا سامنا ہے۔
 اسلام و پیغمبر اسلام اور قرآن ومسلمان کے خلاف نفر تی مہم میں ۹/۱۱سانحہ کے بعد جو شدت آئی اس سے ہندوستان بھی محفوظ نہیں تھا۔ آپ کو اڈوانی کا وہ تا ر یخی جملہ یاد ہوگا کہ سا رے مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں ۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوںکے خلاف تشدد اور نفرتی مہم میں آئی تیزی سے بھی دنیا واقف ہے۔بدقسمتی سے مودی اور بی جے پی لیڈر اتنی موٹی چمڑی کے مالک ہیں اور اتنے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں کہ زمانے کے سرد وگرم کی طرح کوئی تنقید وتنقیص اور ذلت ورسوائی ان پر اثر نہیں کرتی ہے۔ مذہبی آزادی، جمہو ریت ، نظم ونسق اور معیشت سے لے کر دیگر تمام شعبوںکے عالمی جدولوں میں ہندوستان تیزی سے ڈھلان کی طرف مائل ہے لیکن ’’وشوگرو‘‘بننے اور ۵؍ ٹریلین ڈالر اکنامی کا خواب دکھانے والے پردھان سیوک اور ان کی حکومت پراس کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔
  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سطح پرشرمندگی اٹھانے کے بعد کیا حکومت اور پا رٹی کے اسلام ومسلمان مخالف رویے میں تبدیلی آئے گی ؟ ہمارا جواب ’نا‘ میں ہے۔ شیر کے منہ کو خون لگ جائے تو اس کا چسکا چھوٹے نہیں چھوٹتا ہے۔ مودی حکومت کی حالت اس شتر مرغ کی طرح ہے جو ریت میں منہ چھپاکر یہ سمجھتا ہے کہ طوفان ٹل جائے گا ۔ مودی کا ۸؍ سالہ دَوراس پر شاہد ہے کہ حکومت پارٹی کے دریدہ دہنوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں نوازتی ہے۔ دہشت گردی کی ملزمہ پر گیہ ٹھاکر کو ایم پی بنادیا جاتا ہے۔ دہلی الیکشن کے موقع پر پہلے دور میں رہے وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر کو گولی مارو… نعرے پر دوسرے دور پروموشن دے کر وزیراطلاعات ونشریات جیسا اہم عہدہ سونپاجاتا ہے۔ بعید نہیں کے معاملہ ٹھنڈا ہونے پر نپورشرما کو بھی بحال کرکے کوئی اہم عہدہ دیاجائے ورنہ کیا بات ہے کہ اس کے معاملے میں حکومت اور پارٹی نے ہفتہ بھر خاموشی رہنے کے بعد کارروائی کی۔نپور کے خلاف مہاراشٹرمیں کئی ایف آئی آر درج ہیں۔ لیکن اس کے بیان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو جیل میں ٹھونسا گیا ہے اوران کے مکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے زمیں بوس کیا جارہا ہے جس پر عدلیہ بھی خاموش ہے۔ 
  آخری بات … مسلمانوں کے خلاف نفرتی مہم کو بڑھاوادینے میں سب سے بڑا ہاتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا ہے جو آئے دن ملک میں اسلاموفوبیا کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ مودی راج میں جمہوریت کے ساتھ انسانیت بھی دم توڑ رہی ہے ورنہ بلڈوزر کے چلنے پر ایک طبقہ تالیاں نہ بجاتا اور باحجاب لڑکیوں کے امتحان میں بیٹھنے کی ممانعت پر خوشیاں نہ مناتا۔ مذہب اور سیاست کی آمیزش سے جو کاک ٹیل تیار ہوتا ہے بصیرت وبصارت دونوں کو سلب کردیتا ہے ۔ ہندوستان کو اسی کڑوی سچائی کا سامنا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK