Inquilab Logo Happiest Places to Work

رب العالمین رزاق ہے اور بندوں کا امتحان بھی لیتا ہے

Updated: December 01, 2023, 12:28 PM IST | Muhammad Abul Barakat Misbahi Purnawi | Mumbai

ہمیں اس پر یقین رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کے حصے کا جتنا رزق متعین کردیا ہے وہ اسے پہنچ کر ہی رہے گا، انسان خواہ فرمانبردار ہو یا نافرمان۔

The desire for more leads a person to those paths where the difference between halal and haram disappears. Photo: INN
مزید کی خواہش انسان کو ان راستوں تک لے جاتی ہے جہاں حلال و حرام کا فرق ہی ختم ہوجاتاہے۔ تصویر : آئی این این

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا، بے جان سے جاندار بنایا، اس نے ہماری زندگی کے لئے انواع و اقسام کی چیزیں مہیا فرمائیں تاکہ ہم ان کے ذریعے دنیاوی زندگی بآسانی گزار سکیں اور جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے اس مقصد پر کھرا اتر سکیں ۔
 ہمارا مقصد تخلیق کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ سورۂ الذّاریات، آیت ۵۶؍میں ارشاد فرماتا ہے:
’’اور مَیں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں ۔‘‘
  جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ میں نے انسان اور جنات کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے تو عبادت کے لئے انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے اور زندہ رہنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفاتوں میں سے ایک صفت ’’رزاق‘‘ بھی ہے جس کا معنیٰ رزق دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا فرمانے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں چار چیزیں لکھ دیتا ہے۔
 حدیث شریف کا مفہوم ہے: جب بچہ ماں کے پیٹ میں سا رے مراحل طے کر چکا ہوتاہے تو فرشتہ اللہ کے حکم سے چار چیزیں لکھ دیتا ہے: عمل ، رزق، عمر اوریہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت۔ (صحیح بخاری) 
  اللہ رب العزت نے رزق کو اپنے ذمۂ کرم پر لیاہے۔ اللہ کے رزق میں اتنی وسعت ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، وہ اپنی ہر مخلوق کو رزق دیتا ہے وہ چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، مرد ہو یا عورت، شقی ہو یا سعید، نافرمان ہو یا فرماں بردار، کافر ہو یا مسلم غرض کہ اللہ اپنی تمام مخلوق کو اس کے حصے کا رزق پہنچاتا ہے یہاں تک کہ چیونٹیوں کو ان کے بلوں میں اور مچھلیوں کو سمندروں کی تہوں میں رزق پہنچاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بندوں کا امتحان بھی لیتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ رزق حاصل کرنے کے راستے میں صبر سے کام لیں اور اسی پر کامل بھروسہ کریں ، ارشاد خداوندی ہے:
 ``اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے۔‘‘ 
(سورہ الطلاق:۳)
 معلوم ہواکہ جس کے حصے کا جتنا رزق متعین ہے وہ اسے پہنچ کر ہی رہے گا۔ کبھی کبھی انسان اپنی سکت سے زیادہ کوششیں کر نے لگتا ہے، حرام و حلال کی پروا کئے بغیر خوب ہاتھ پیر مارتاہے، حد تو یہ ہے کہ چوری، ڈکیتی، لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی یا لوٹ کھسوٹ پربھی اتر آتا ہے ، اور اللہ کی نافرمانی کرکے اپنی دنیا و آخرت خراب کر بیٹھتا ہے، اس کے باوجود اسے بھی ملتا ا ُتنا ہی ہے جتنا اللہ نے ان کے نصیب میں لکھ دیا ہے۔ 
 نبی دوجہاں ﷺ کافرمان عالیشان ہے: ’’ بندے کو رزق ایسے تلاش کرتا ہے جیسے بندے کی موت اس کو تلاش کرتی ہے۔ (مسندالبزار)
 اللہ تعالیٰ سورہ الذاریات آیت ۵۸؍میں فرماتا ہے: ’’بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔‘‘
اس کی ذات والا صفات ایسی ہے کہ ہر کس و نا کس کو روزی دیتا ہے۔وہ قوی ہے اپنے بندوں تک رزق پہنچانے میں اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی، سب کو وہی عطا فرماتا ہے وہی سب کا پالنہار ہے:
 ’’بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران:۳۷)
 رب کریم کی شان کریمی دیکھئےکہ جو اس کا نافرمان ہے، ہمہ وقت اس کی نافرمانیوں میں لگا رہتا ہے، اس کواپنا معبود تسلیم نہیں کرتا، اس کی حمد و ثناء یا عبادت نہیں کرتا حتیٰ کہ اس کو برا بھلا کہتا ہے لیکن اللہ اسے بھی محروم نہیں رکھتا،بلکہ اس کی شان رزاقیت میں اتنی وسعت ہے جس سے تمام مخلوق ہمیشہ سیراب ہوتی رہتی ہیں ۔ 
 اللہ تعالیٰ کی جملہ مخلوقات، جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا، اپنے رب کی عطا سے خوش ہو کر زندگی بسر کر رہی ہیں سوائے انسانوں کے کہ اللہ کی اَن گنت عطاؤں کے باوجود وہ نا خوش ہیں ، ہمیشہ اپنی تنگ دستی و بدحالی کا رونا روتے ہیں ، اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کے بجائے ہمہ وقت ناشکری ہی میں لگے رہتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ سورہ ابراہیم،آیت نمبر ۷؍ میں فرماتا ہے:
 ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں ) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘
 انسان کتنا بڑا ناشکرا ہے اس کا اندازہ اس آیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں خود خداوند کریم، پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے:
 ’’بیشک انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘(سورہ :العادیات:۶)

 انسان کے بالمقابل دوسری تمام مخلوقات کو دیکھا جائے تو وہ اللہ کی عطا پر بہت خوش نظر آتے ہیں ، مثال کے طور پر پرندوں ہی کو دیکھ لیں ، وہ صبح اٹھتے ہیں اور اٹھتے ہی اللہ کی حمد و ثنا میں لگ جاتے ہیں ، اس کے بعد وہ اپنی روزی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ، پھر جب وہ رات میں اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہیں توشکم سیرہوکر خوش و خرم لوٹتے ہیں ، ان کے لئے کوئی جگہ متعین بھی نہیں ہوتی کہ انہیں وہاں سے رزق ملے گا یا یہاں سے، لیکن اللہ نے ان کے نصیب میں جو متعین کیا ہے وہ انہیں پورا کا پورا ملتا ہے اور ملتا رہے گا۔
 رہی بات انسانوں کی تو وہ اتنے حریص ہوچکے ہیں کہ ہمیشہ مزید ہی کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ دوسری مخلوق کی بہ نسبت اللہ کی عطائیں ان پر زیادہ ہیں اور ہو بھی کیوں نہ کہ اللہ نے انہیں اشرف المخلوقات بنایا ہے، انہیں عقل و فہم سے نوازا ہے، ان کی روزی کے لئے جگہیں متعین کر دی ہیں کہ تمہیں یہاں سے رزق ملے گا یا وہاں سے ملے گا، اس کے باوجود وہ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں اور ناشکری کرتے ہیں ۔ (الا ماشاء اللہ) 
 ہونا یہ چاہئے کہ انسان، رب العالمین پر کامل بھروسہ کر کے ساری چیزیں اسی کی مشیت پر چھوڑ دے کیوں کہ اللہ اپنے بندے کے لئے جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے، وہ اپنی مخلوق سے ستر (۷۰) ماؤں سے بھی زیادہ محبت فرماتا ہے۔
 آج ہماری زبوں حالی اور در بدر کی ٹھوکریں کھا نے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کی نعمت سے نا امید اور صبر و شکر سے کوسوں دور ہو گئے ہیں حالاں کہ خود پروردگار عالم سورہ الزمر آیت نمبر ۵۳؍ میں ارشاد فرماتاہے: ’’اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔‘‘
 جس دن ہمارا رشتہ اللہ سے مضبوط ہو جائے گا اور ہم اپنی ساری چیزوں کا مداوا اللہ کو ماننے لگیں گے، اپنا سارا دکھ درد اسی کے سامنے بیان کریں گے، اسی دن سے کامیابی ہماری ہمرکاب ہوگی ۔ یقین رکھیں ! جو رزق ہمارے نصیب میں ہے وہ چل کر آے گا اور جو نصیب میں نہیں ہے وہ آ کر بھی چلا جائے گا، لہٰذا راضی برضا ئے الٰہی ہی میں ہماری فلاح اور بھلائی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK