چھٹی صدی قبل مسیح کے مشہور چینی فوجی جنرل، فلسفی اور مدبر’ سُن تزو‘ کی تصنیف’دی آرٹ آف وار‘ کا جائزہ، جس میں انہوں نے جنگی تدابیر، حکمت عملی اور دشمن کی چالوں کو بھانپنے کے فن کو باقاعدہ ایک علمی صورت دی، اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین عسکری ادب میں ہوتا ہے۔
ابھی چند ہی دن گزرے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان عسکری کشمکش کو دنیا نے دیکھا۔ جنگ تو ٹل گئی، لیکن ایک قیامت قریب آکر گزر گئی۔ جنگ مسئلہ ہے۔ مسئلوں کا حل نہیں، لیکن ابتداء آفرینش سے گروہوں، قبیلوں، ملکوں اور قوموں میں جنگ وجدل ہوتا آیا ہے۔ جنگ کے طور طریقوں پر دنیا میں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں لیکن سُن تزو کی ’دی آرٹ آف وار‘ یعنی ’فنِ حرب‘کو لاجواب مقبولیت ملی۔ سُن تزو چھٹی صدی قبل مسیح کا ایک مشہور چینی فوجی جنرل اور فلسفی تھا۔ اُس نے جنگی تدابیر، حکمتِ عملی اور دشمن کی چالوں کو بھانپنے کے فن کو ایک باقاعدہ علمی صورت دی۔ اُسکا نام سُن وو تھا لیکن احتراماً اُسے سُن تزو یعنی اُستاد سُن کہا جاتا ہے۔
’دی آرٹ آف وار‘ کا شمار دنیا کے قدیم ترین عسکری ادب میں ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک، اس کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا لیکن اب دنیا بھر کی فوجی اکیڈمیوں میں اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب صرف جنگی اصولوں پر ہی نہیں بلکہ سیاسی، معاشی اور نفسیاتی حکمتِ عملیوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ سُن تزو کا فلسفہ آج بھی نہ صرف فوجی اداروں بلکہ کاروباری، سیاسی اور سفارتی حلقوں میں یکساں مقبول ہے۔ متن کا اختصار اور درستگی کتاب کی نمایاں خصوصیات ہے۔ اختصار جو کلاسیکی چینی ادب کی ایک خاص پہچان ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر جملہ وزن رکھتا ہو اور ہر اصول وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔
منصوبہ بندی: جنگ زندگی اور موت کا معاملہ ہے؛ اس کے اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ محتاط منصوبہ بندی، عملی لڑائی سے زیادہ اہم ہے۔ پانچ بنیادی عوامل، تنازعات کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں ؛ اخلاقی قانون، آسمان، زمین، سالارِ سپاہ، طریقہ جنگ اور نظم و ضبط۔
لڑے بغیر فتح: سب سے اعلیٰ حکمتِ عملی یہ ہے کہ دشمن کو لڑے بغیر ہی شکست دی جائے۔ ذہانت، فریب اور پینتروں سے اکثر یہ ممکن ہوتا ہے۔ جنگ کا سارا دارومدار ہی دھوکے اور چالاکی پر ہوتا ہے۔ استاد سُن کہتا ہے کہ کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس نے طویل عرصے تک جنگ کی اور فتحیاب ہوا ہو۔ یعنی یہ کہ جنگ لڑنی پڑے تو وہ تیز رفتار اور مختصر ہو۔ جنگ سے پیدا ہونے والے بھیانک شر کا تصور ذہن نشین کرلینا چاہئے۔
کمانڈر: قائد جیش کو عادل، بردبار، دانش مند، حوصلہ مند اور نظم و ضبط کا ماہر ہونا چاہئے۔ کامیاب سپہ سالار وہ ہے جو حالات کا درست اندازہ لگا ئے۔ اچھا کمانڈر، فیصلہ کن لمحات میں صحیح قدم اٹھاسکنے کیلئے ضروری فہم و فراست، موقع شناسی اور جرأت جیسی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ کامیاب جرنیل کو مارا ماری کے مختلف انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ہمیشہ ایک ہی طریقے سے لڑتے ہیں، تو دشمن آپ کی حکمت عملی کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ مختلف حربوں کے استعمال سے آپ دشمن کوزیر کر سکتے ہیں اور اُسےغیر متوقع حالات کا سامنا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
ماحول و جغرافیہ کی اہمیت : زمین کی ساخت، موسم، اور اردگرد کے حالات جنگ کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کے خطوں اور عسکری حکمت عملی پر ان کے اثرات کا تجزیہ ضروری ہے۔ پانی اور ہوا جیسے قدرتی وسائل کے نتائج پر اثر انداز ہونے کو حکمت عملی وضع کرتے وقت ذہن میں رکھا جائے۔ کھلا میدان، پہاڑی علاقے اور دلدل، سنگلاخ وادیاں منفرد چیلنجز اور مواقع فراہم کرتی ہے۔ دھوپ، بارش، سردی، دھند، برف باری، ہوائیں اور طوفان وغیرہ موسمی عوامل جنگ کا پانسہ پلٹ سکتےہیں۔
لچکدار حکمتِ عملی : استاد سُن ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ غیر متوقع حالات پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں، آپ کو اپنی فوج کے نقل و حرکت میں فوری تبدیلی کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اچانک رونما ہونے والے تغیرات کا مقابلہ کرنے کیلئے فوجی قیادت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک کمانڈر میں مختلف حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ جنگ میں کامیابی کا انحصار اکثر اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کس طرح اپنے منصوبے کو وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اپنے دشمن کی طاقت، کمزوری اور فوج کی موجودہ حالت کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ یہ معلومات آپ کو فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہیں کہ کب اور کیسے حکمت عملی میں تبدیلی کرنی ہے۔
قوت کا موثراستعمال: سُن تزونےاس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ میں توانائی یا طاقت کا مؤثر استعمال جنگ کی کامیابی کیلئے کیوں اہم ہے۔ طاقت کا استعمال سمجھداری سے کرنا چاہئے۔ طاقت کا بے جا استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ توانائی کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب اسے صحیح وقت اور درست مقام پر استعمال کیا جائے۔ یہاں طاقت کے دانشمندانہ استعمال کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی فوج کی قوت کو بیجا استعمال نہیں کرنا چاہئے، بلکہ وقت کی مناسبت سے کرنا چاہئے۔ طاقت کا مؤثر استعمال دشمن کی کمزوریوں کو سمجھنے اور ان پر حملہ کرنے میں ہے۔ جب آپ اپنے دشمن کی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں، تو آپ کی قوت میں خودبخود اضافہ جاتا ہے۔
وسائل کا منصفانہ استعمال: جنگ کی قیمت ہوتی ہے اور وہ بہت بھاری ہوتی ہے۔ جنگ بہت سی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ جنگ کی تیاری، فوج کی تربیت، اسلحہ اور رسد کی فراہمی پر زرِ کثیرخرچ ہو جاتا ہے۔ سن کہتا ہے کہ آغاز ہی میں ایک کمانڈر کو یہ سمجھنا لازمی ہے کہ متوقع جنگ کی قیمت کیا ہوگی اور کیا یہ صورتحال اس بار کی متحمل ہو سکتی ہے؟ سپلائی لائن یا خطِ فراہمی ٔ رسد کی حفاظت اور فوج کی ضروریات کا خیال رکھنا جنگ میں کامیابی کی بنیاد ہے۔ ایک مضبوط نظام نقل وحمل کے بغیر، کوئی بھی فوج کامیاب نہیں ہو سکتی۔
کمزوری اور قوت: اپنی اور فریق مخالف کے کمزور اور قوی نقاط کا ٹھیک ٹھیک ادارک بہت اہم ہے۔ استاد سُن اپنی طاقت کو تقویت دیتے ہوئے دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی وکالت کرتا ہے۔ دشمن کی تھکاوٹ، بھوک، خوف یا افراتفری کو پہچان کر وار کرنا چاہئے۔ اتحاد اور داخلی ہم آہنگی فتح کیلئے ضروری عوامل ہیں۔
خفیہ اطلاعات اور جاسوسی: دشمن کی نیت، چالوں اور کمزوریوں کا علم کامیابی کی کنجی ہے۔ سُن تزو جاسوسوں اور مُخبروں کی مختلف اقسام اور تزویراتی فائدے کیلئے اُن کی اہمیت کی تفصیلی وضاحت کرتا ہے۔
موجودہ دور میں عسکری عمل کی شکل قدیم دور کے مقابلے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اب الیکٹرانک جنگ و جدال اور سیٹیلائٹ مواصلات کی مدد سےچلنے والے ہتھیاروں کا دور دورہ ہے۔ تاریکی میں دیکھنے والے کیمروں سے لیس خودکار بندوقیں ، خود کُش ڈرون اور سُوپر سونک میزائلیں طاقت کی علامتیں بن گئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے ہند پاک تصادم، روس یوکرین جنگ، آذربائیجان آرمینیا جنگ اور غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ آج کی جنگ مصنوعی ذہانت کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ پروپیگنڈا کا ہتھیار قدیم دور میں بھی تھا لیکن آج اُس کو سوشل میڈیا کی مدد حاصل ہے۔ پہلے ہجو کے تیر چلتے تھے۔ آج ٹی وی مباحثوں، میم اور ریل کی شکل میں الفاظ کے توپ داغے جاتے ہیں۔ نفسیاتی اثرات پیدا کئے جاتے ہیں۔
کتاب میں بیان کردہ آفاقی اصول صرف میدان جنگ کیلئے نہیں بلکہ سیاست، کاروبار اور زندگی کے ہر پہلو میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ سُن تزو کے اصول اگر دانائی سے اپنائی جائیں تو قیادت، منصوبہ بندی اور نظم وضبط سے ماحول کو منور کرنے والی کرنیں ہیں۔ لیکن اگر محض طاقت اور فریب کے آلہ کار بن جائیں تو یہ اصول بے اعتمادی، زوال و بربادی کی تاریکیاں پھیلا سکتے ہیں۔ دنیا کی بڑی جنگوں پر غور کر کے راقم الحروف اس نتیجے پر پہنچا کہ طاقت ہمیشہ کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتی۔ ظلم، غفلت اور غرور کا انجام زوال ہوتا ہے۔ امن صرف جنگ سے نہیں، عدل، اخلاق اور مکالمے سے قائم ہوتا ہے۔
استاد سُن جنگ کو ٹالنے کی وکالت کرتا ہے مگر اپنے تمام تر ’ثی شے‘ یعنی گیان کے باوجود یہ کتاب جنگ کے اخلاقیات پر خاص رہنمائی نہیں کرتی۔ انسانی جان کی حرمت پر خاموش ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے لیکن ہم اپنی طرف سے دشمن سے لڑنے کی تمنا نہ رکھیں اور خدا سے عافیت طلب کرتے رہیں۔ ہر ایک درخت پھلتا پھولتا رہے۔ ہر آنگن میں شمع جلتی رہے۔