Inquilab Logo

الاؤ کی محفل، باتوں کی گرمی اور سردی میں نہانے کا قصہ

Updated: January 16, 2023, 4:10 PM IST | MUMBAI

اس رات معمول سے کہیں زیادہ ٹھنڈ تھی، کہرا بھی چھایا ہوا تھا۔ چبھنے والی ہوائیں غضب ڈھارہی تھیں۔ محکمۂ موسمیات جو بھی کہے،گاؤں والوں کو اس کی پڑی نہیں تھی، اس کی کوئی خبر نہیں تھی

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اس رات معمول سے کہیں زیادہ ٹھنڈ تھی، کہرا بھی چھایا ہوا تھا۔ چبھنے والی ہوائیں غضب ڈھارہی تھیں۔ محکمۂ موسمیات جو بھی کہے،گاؤں والوں کو اس کی پڑی نہیں تھی، اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ گاؤں کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ ایسی ٹھنڈ دس بیس سال کے بعد  ہی پڑتی ہے، ابھی نہیں جائےگی،  ایک آدھ ہفتہ رہے گی، بہت بچنا ہوگا اس سے،  بچوں اورمویشیوں کو زیادہ بچانا ہوگا، لاپروائی پر جان بھی جاسکتی ہے۔ سوراخ میں بھی سانپ بچھو مر گئےہوں گے ۔  
 گاؤں میںشدید سردی کے باوجود سرسوں کے کھیتوں اور آم کے باغات کے قریب کے گھروں    میں چہل پہل تھی۔ کچھ فاصلے پر  ندی بہہ رہی تھی۔بہہ کیا رہی تھی ؟ سچ پوچھئے تو رینگ ہی  رہی تھی ۔     ایک جگہ گھر اور کھیت کے درمیان   چلبل کے درخت کے نیچے سورج ڈوبنے کے تقریباً آدھا گھنٹے کے بعد کوڑا(الاؤ) دہکنے لگا۔ یہ نوجوانوں کی محفل تھی۔ الاؤ کے گرد کچھ لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے، کچھ چارپائی پر اور کچھ زمین پریوں ہی اکڑوں ... کچھ اینٹ پر بیٹھ کر آگ سینک رہے تھے۔چارپائی پر اچھی خاصی جگہ باقی تھی۔اچانک ایک ایک کرکے نوجوان اپنے گھروں سے نکلنے لگے اور اس محفل کاحصہ بننے لگے۔ یہ سب گھر سے کھانا کھاکر آرہے تھے۔ ادھر کچھ نوجوان :جائی تھے کھائے۔ (جارہا ہوںکھاناکھانے)کہہ کر محفل چھوڑنے لگے۔ اس طرح دوگئے، آٹھ آگئے۔ الاؤ کی محفل جم گئی، باتیں ہونے لگیں۔موبائل کہاں خاموش رہتے؟کچھ نوجوان اسی میں مست تھے، سامنے کی محفل چھوڑ کر ’یوٹیوبیا‘ اور’ فیس بکیا گیان‘ لے رہے تھے۔ گیم بھی کھیل رہے تھے۔ اس محفل کا ایک نوجوان والی بال کی ٹیم جمع کررہا تھا، اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے مشورہ کررہا تھاکہ کل کے ٹورنامنٹ میں کسے کھلایا جائے؟ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلاں کھلاڑی سے بات کی تھی مگر وہ تیار نہیں ہوا، حالانکہ وہ میرا بہت اچھا دوست ہے لیکن جہاں سے کچھ فائدہ ہوگا،کوئی وہیں جائے گا نا، ہم سےکچھ لے دے سکتا نہیں.. دیکھنا کل وہ کھیلے گا کسی نہ کسی ٹیم  میں ...کیا کہا جائےبھائی؟ اب پیسہ ہی سب کچھ ہے۔  والی بال میں بھی پیسہ آگیا ہے، دوستی یاری گئی تیل لینے......۔ نوجوان بہت ناراض تھا۔وہ دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا، وہ ٹیم کا کپتان تھا۔کہنے لگا کہ اب چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں فری میں کسی ٹیم سے نہیں کھیلوں گا..میں بھی پیسہ لوں گا، بہت دوستی یاری نبھا چکا۔ 
 باتوں کی گرمی سے محفل میں گرمی آگئی۔چند لمحے میں موضوع بدل گیا، جس کی طرف زیادہ دھواں جانے لگا، اس کی ’کھنچائی‘ کی جانے لگی۔کہاجاتا ہے کہ جس کی طرف دھواں جاتا ہے، اس کی ساس بہت زیادہ مانتی ہیں،عزت کرتی ہیں۔جو دھوئیں سے پریشان ہوکر جگہ بدلتا ہے، آگ کے قریب منہ کرکے باربار پھونک مارتا ہے، اس کی خیر نہیں ہوتی۔ اس محفل میں بھی ایک نوجوان کی شامت آ گئی۔اس نے دھوئیں سے بچنے کیلئے پہلو بدلا ہی تھا کہ دوستوں کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ چہک چہک کر کہنے لگے: لگا تھے ان کی ساس بہت مانی، چلا ہمہو لوگ کا داوت واوت دیہا بھائی۔ (لگتا ہے کہ ان کی ساس بہت مانیں گی، چلئے ہمیں بھی دعوت واوت دینا بھائی۔) 
 پھر محفل کا موضوع ساس اور دھواں ہوگیا۔ کنوارا نوجوان طنز کےنشتروں سے زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کا چہرہ  اور کھل اٹھا۔وہ اپنے دوستوں کے تبصرے سن سن کر مسکراتا رہا۔ ادھر اچھی طرح پھونک مارنے پر آگ  دھوئیں سے پاک ہوگئی۔ کھتھا(درخت کی جڑ) پٹ پٹ کی آواز کے ساتھ جلنے لگا مگر موضوع بدلا نہیں،اسی ساس اور دھوئیں پر دھواں دار تبصرے ہوتے رہے...
 باتوں ہی باتوں میں نہانے کا قصہ آگیا۔ اب محفل کے شرکاء سے باری باری پوچھا جانے لگا کہ کتنے دن پہلے نہائے ہو؟ہر ایک کا جواب الگ الگ تھا۔ جھوٹ بولنے والے پکڑے گئے۔ کچھ نے کہاکہ کل ہی نہایا ہوں۔کئی نوجوانوں  نے ’واہ واہی ‘میں کہہ دیا کہ روز نہاتا ہوں۔ نہانے اور نہ نہانے پر بات ختم ہوگئی اور محفل بھی۔ جس نے پندرہ بیس دن سے نہیں نہایا تھا، اسے غیرت دلائی گئی اور ہر حال میں صبح تک نہالینے کی نصیحت کی گئی۔اسے مخاطب کرکے کہا گیاکہ ایسے ہی لوگ ہیں جو صابن اور شیمپو کا خرچ بچا رہے ہیں۔ویسے بھی سردی میں صابن کا خرچ بچ جاتا ہے۔بتاتے ہیں کہ جس گھر میں مہینے میں ایک درجن صابن ختم ہوتا تھا،وہاں اب ایک مہینے میں تین ہی صابن لگتا ہے۔ صابن اور شیمپو ’نظر کرم‘ کے منتظر رہتے ہیں مگر جس دن دھوپ نہیں نکلتی، اس دن ان بے چاروں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں، پانی کے ایک چھینٹے کیلئے ترس جاتے ہیں۔دسمبر اور جنوری کی سرد راتوں کا معمول یہی ہے۔ دو مہینے تک ہر حال میں کوڑا جلایا جاتا ہے۔اسی طرح آتے جاتے  اور باتوں کے سہارے رات دس بجے تک دہکتی آگ کے گرد محفل سجی رہتی  ہے، پھر یہ جگہ خالی ہوجاتی ہے، کتوں کی سرکار آجاتی ہے۔ آگ کی راکھ کتوں کا بستر بن جاتی ہے،وہ صبح تک  اسی میں خود کو سمیٹے پڑے رہتے ہیں،اسی طرح ٹھنڈ سے لڑتے رہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK