Inquilab Logo

بی بی سی پر چھاپوں کا قضیہ

Updated: February 16, 2023, 7:31 AM IST | Mumbai

ممبئی اور دہلی میں بی بی سی کے دفاتر پر ’سروے‘ ٹیم کا پہنچنا، چھان بین کرنا اور اس چھان بین کا دوسرے دن بھی جاری رہنا پوری دُنیا کے اخبارات، نیوز چینلوں اور ویب سائٹس پر جگہ پاچکا ہے

BBc
بی بی سی

ممبئی اور دہلی میں بی بی سی کے دفاتر پر ’سروے‘ ٹیم کا پہنچنا، چھان بین کرنا اور اس چھان بین کا دوسرے دن بھی جاری رہنا پوری دُنیا کے اخبارات، نیوز چینلوں اور ویب سائٹس پر جگہ پاچکا ہے۔ ہرچند کہ محکمۂ انکم ٹیکس نے اسے حسب معمول سروے قرار دیا ہے مگر شاید ہی کوئی ہو جو اس کے معنی و مفہوم کو پڑھنے اور سمجھنے کے قابل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے جہاں جہاں بھی اس کی رپورٹنگ ہوئی ہے، سروے کو چھاپہ لکھا گیا ہے اور اسے دو قسطوں میں جاری ہونے والی بی بی سی کی رپورٹ ’’دی مودی کوئسچن‘‘ کا خمیازہ باور کرایا ہے۔ اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔ محکمۂ انکم ٹیکس مذکورہ دستاویزی فلم کے اجراء کے بعد ہی حرکت میں آیا ہے۔ اس سے قبل بی بی سی کی کسی بے ضابطگی کی معمولی سی بھی اطلاع نہیں تھی۔ یہ ہوئی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ محکمے نے چھاپوں کے دوسرے دن بھی یہ واضح نہیں کیا ہے کہ یہ کارروائی کس کیلئے یا کس بنیاد پر عمل میں لائی جارہی ہے۔ تیسری بات یہ ہوئی کہ چھاپوں کے چند ہی گھنٹوں بعد حکمراں جماعت کے لیڈر اور قومی ترجمان گورو بھاٹیہ نے پریس کانفرنس کی اور بی بی سی کو سب سے زیادہ بدعنوان ادارہ قرار دیا اور کہا کہ اسے سبق سکھانا ضروری ہے۔ اس بیان کے بعد مذکورہ کارروائی کو حسب معمول کارروائی سمجھنے کی گنجائش اس لئے بھی باقی نہ رہی کہ گورو بھاٹیہ کے الفاظ، جملے، تیور اور اندازاس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔
  اگر یہ کارروائی معمول کی کارروائی تھی یا اس کا تعلق ادارہ کی کسی بے ضابطگی سے نہیں تھا تو حکمراں جماعت کے ترجمان کو پریس کانفرنس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اگر پریس کانفرنس ضروری تھی تو محکمۂ انکم ٹیکس نے کیوں نہیں کی؟ ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اداروں بشمول صحافتی اداروں نے اس کارروائی کو مذکورہ دستاویزی فلم سے جوڑ کر دیکھا اور دیکھ رہے ہیں چنانچہ آپ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا بیان دیکھ لیجئے یا کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (نیویارک) کو، ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کو دیکھ لیجئے یا رپورٹرس وِدھاؤٹ باؤنڈریز کو۔ ان تمام کے بیانات میں بی بی سی کی فلم کا حوالہ موجود ہے۔ صحافتی اداروں نے اپنے اخبارات اور ویب سائٹس پر جاری کی جانے والی خبروں میں بھی فلم کا حوالہ ضرور دیا ہے خواہ وہ نیویارک ٹائمس ہو یا گارجین۔ اسی لئے ہم شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ اس (کارروائی) کی وجہ سے عالمی سطح پر وطن عزیز کی شبیہ متاثر ہورہی ہے جو اڈانی معاملے کی وجہ سے پہلے بھی کچھ کم متاثر نہیں تھی۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جہاں جہاں اڈانی کا نام آتا ہے، ہندوستان کا تصور اُبھرتا ہے اور ہندوستان میں کارپوریٹ اُمور کی شفافیت موضوع بحث بنتی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، اڈانی معاملہ پوری دُنیا میں تشویش کا سبب بنا ہوا ہے۔ 
 اڈانی اور بی بی سی کے حوالے سے ہندوستان ایسے وقت خبروں میں ہے جب ہمارا ملک جی ۲۰؍ کی میزبانی کررہا ہے۔ یہ وقت تھا کہ بیرونی ملکوں کے مندوبین کی موجودگی کا فائدہ اُٹھا کر ہندوستان کی بہتر تصویر پیش کی جاتی مگر اس کے بجائے کچھ اور ہی ہورہا ہے۔ اخبارات بی بی سی پر چھاپے کی رپورٹنگ میں پریس فریڈم انڈیکس میں ہمارے ۱۵۰؍ ویں نمبر کا تذکرہ کررہے ہیں۔ یقیناً اس انڈیکس میں ہمارا پچھڑنا افسوسناک ہے جس سے اہل اقتدار کو سوچنے اور غوروخوض کرنے پر مجبور ہونا چاہئے مگر بی بی سی پر چھاپے نہ پڑتے تو اس انڈیکس کا تذکرہ نئے سرے سے سرخیوں میں نہ آتا۔ تو کیا ہم بلاسوچے سمجھے فیصلے کررہے ہیں؟  n

bbc Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK