Inquilab Logo Happiest Places to Work

بی بی سی پر غزہ کوریج میں منظم تعصب کا الزام، فلسطینیوں کی زندگیوں کو کم اہمیت دی گئی:سی ایف ایم ایم

Updated: June 17, 2025, 8:09 PM IST | Inquilab News Network | London

رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ بی بی سی کی کوریج میں اکثر تاریخی سیاق و سباق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ نشریاتی ادارے کی بیشتر رپورٹس میں فلسطین-اسرائیل تنازع کو ۷ اکتوبر سے شروع ہوتا بتایا گیا ہے جبکہ صرف ۵ء۰ فیصد مضامین میں اسرائیل کے قبضے، فلسطینی علاقوں کی ناکہ بندی یا جنگ سے پہلے کی کارروائیوں کا ذکر کیا گیا۔ ان میں اسرائیل کے متنازع فوجی نظریات اور نسل کشی کی بیان بازی کا ذکر بھی بڑی حد تک غائب تھا۔

BBC. Photo: INN
بی بی سی۔ تصویر: آئی این این

سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ (سی ایف ایم ایم CfMM) کی پیر کو جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں برطانیہ کے میڈیا ہاؤس برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) پر اسرائیل کی غزہ کے خلاف جاری جنگ کی رپورٹنگ میں وسیع پیمانے پر ادارہ جاتی ناکامیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے فلسطینیوں کے مصائب اور تکالیف کو پس پشت ڈال کر اسرائیلی بیانیے کو زیادہ اہمیت دی۔ سی ایف ایم ایم کی ۱۸۰ صفحات پر مشتمل رپورٹ بعنوان "بی بی سی آن غزہ-اسرائیل: ون اسٹوری، ڈبل اسٹینڈرڈز" میں ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے ۶ اکتوبر ۲۰۲۴ء تک کے ۳۸۷۳ مضامین اور ۳۲۰۹۲ ٹی وی اور ریڈیو سیگمنٹس کا تجزیہ کیا گیا۔ ان کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ بی بی سی کے ادارتی فیصلوں نے غیر جانبداری کو مسلسل نقصان پہنچایا اور تنازع کی حقیقت کو مسخ کیا۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں امدادای مراکز پر حملوں میں اضافہ، غزہ کا نظامِ صحت ’انتہائی نازک‘موڑ پر

جانبدار زبان کا استعمال

رپورٹ کے اہم نتائج میں فلسطینی اور اسرائیلی ہلاکتوں کی رپورٹنگ میں واضح تفاوت شامل ہے۔ اگرچہ فلسطینی ہلاکتیں، اسرائیلی ہلاکتوں سے ۳۴ گنا زیادہ تھیں (۴۲۰۱۰ بمقابلہ ۱۲۴۶)، بی بی سی کی کوریج میں فی ہلاکت اسرائیلی اموات کا ذکر مضامین میں ۳۳ گنا اور نشریات میں ۱۹ گنا زائد بتایا گیا۔ اس مطالعہ سے پتا چلا ہے کہ بی بی سی کے ذریعے"قتل عام"، "مظالم" اور "ذبح" جیسے جذباتی الفاظ زیادہ تر اسرائیلی متاثرین کیلئے استعمال کئے گئے جبکہ فلسطینیوں پر اسی طرح کے حملوں کو زیادہ غیر جانبدار الفاظ میں بیان کیا گیا۔ "قتل عام" کا لفظ اسرائیلی متاثرین کیلئے ۱۸ گنا زیادہ استعمال ہوا اور فلسطینی ہلاکتوں کو بیان کرنے والی سرخیوں میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فوج نے غزہ کے ۹۰؍ فیصد اسکول تباہ کردیئے، ۶۵۸۰۰۰؍ بچے تعلیم سے محروم

انٹرویوز میں جانبداری کا مظاہرہ

انٹرویوز میں، بی بی سی نے اسرائیلی نقطہ نظر کو نمایاں طور پر زیادہ جگہ دیتے ہوئے ۲۳۵۰ اسرائیلی مہمانوں کے مقابلے صرف ۱۰۸۵ فلسطینی مہمانوں کو مدعو کیا۔ مزید برآں، ان انٹرویوز میں ۳۸ مہمانوں پر حماس کے ۷ اکتوبر کے حملہ کی مذمت کرنے کیلئے زور دیا گیا لیکن بی بی سی نے اسی طرح دیگر مہمانوں سے اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی مذمت کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، حالانکہ ہزاروں فلسطینی شہری اسرائیلی کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے۔

تنازع کا سیاق و سباق نظر انداز

رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ بی بی سی کی کوریج میں اکثر تاریخی سیاق و سباق کو نظر انداز کیا گیا۔ نشریاتی ادارے کی بیشتر رپورٹس میں فلسطین-اسرائیل تنازع کو ۷ اکتوبر سے شروع ہوتا بتایا گیا ہے جبکہ صرف ۵ء۰ فیصد مضامین میں اسرائیل کے قبضے، فلسطینی علاقوں کی ناکہ بندی یا جنگ سے پہلے کی کارروائیوں کا ذکر کیا گیا۔ ان میں اسرائیل کے متنازع فوجی نظریات اور نسل کشی کی بیان بازی کا ذکر بھی بڑی حد تک غائب تھا۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ کے سب سے بڑے طبی مرکز ناصر میڈیکل کمپلیکس کے بند ہونے کا خطرہ

رپورٹنگ میں دہرا معیار

رپورٹ کے مطابق، بی بی سی کے دہرے معیار ایک واضح مثال کے طور پر، اس کی جانب سے حماس کے ہاتھوں پکڑے گئے اسرائیلیوں کیلئے "یرغمال" کے لفظ کا وسیع استعمال کیا گیا جبکہ اسرائیل کی "انتظامی حراست" پالیسی کے تحت بغیر الزام کے حراست میں لئے گئے ۱۰ ہزار سے زائد فلسطینیوں کیلئے اسی طرح کے الفاظ کے استعمال سے گریز کیا گیا۔ رپورٹ میں غزہ کی کوریج کا روس-یوکرین جنگ کی رپورٹنگ سے موازنہ کیا گیا تو سامنے آیا کہ بی بی سی نے یوکرینی متاثرین کو زیادہ ہمدردی سے پیش کیا گیا اور روس کو اسرائیل کے مقابلے ۷ء۲ گنا زائد مرتبہ جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔

قانونی معاملات پر، بی بی سی نے اسرائیل کے طرز عمل کے حوالے سے "جنگی جرائم" کا ذکر صرف ۳ فیصد مضامین میں کیا حالانکہ بین الاقوامی عدالتوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ انٹرویو دینے والے جن مہمانوں نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات لگائے یا ان کا ذکر کیا تو انہیں ۱۰۰ سے زائد بار روکا گیا یا (الزامات کو) مسترد کیا گیا۔

یہ بھی پڑھئے: ۲۷؍ مئی سے اب تک امداد حاصل کرنے کے دوران اسرائیلی فوج کی بمباری میں ۳۰۰؍ سے زائد فلسطینی جاں بحق

رپورٹ میں سابق بی بی سی عملے، سفارت کاروں اور انسانی حقوق کے ماہرین کے بیانات بھی شامل ہیں۔ ان شخصیات میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسیسکا البانیز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل (برطانیہ) کی چیف ایگزیکٹیو ساشا دیشمکھ نمایاں ہیں جنہوں نے ان نتائج کو "جامع جرم کی نشاندہی" قرار دیا۔ سی ایف ایم ایم کی تحقیقاتی سربراہ فائزہ مجاہد نے کہا کہ شاہی چارٹر (جس کے تحت ۱۹۲۷ء میں بی بی سی کا قیام عمل میں آیا) کے تحت، بی بی سی کا فرض ہے کہ وہ غیر جانبدار کوریج فراہم کرے۔ ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کی کئی دہائیوں میں سب سے اہم سال کے دوران یہ فرض پورا نہیں کیا گیا۔

بی بی سی سے آزادانہ جائزہ لینے کا مطالبہ

بی بی سی نے ابھی تک رپورٹ پر باضابطہ طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ سی ایف ایم ایم نے نشریاتی ادارے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی کوریج کا آزادانہ جائزہ لے اور ادارتی توازن اور عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے سفارشات پر عمل کرے۔ فائزہ مجاہد نے کہا کہ یہ انفرادی صحافیوں پر تنقید کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ایک ادارہ جاتی ناکامی کو دور کرنے کیلئے ہے کہ وہ ہمارے دور کے سب سے اہم انسانی حقوق کے بحران میں مکمل سچائی بتائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK