Updated: May 07, 2025, 11:12 PM IST
| Gaza
غزہ میں بھوک کی موجودہ سطح کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے مکمل امدادی ناکہ بندی کے تیسرے مہینے میں داخل ہوتے ہوئے، بی بی سی نے اپنے مرکزی نیوز پروگرام ’’نیوز ایٹ ٹین‘‘ میں اس مسئلے پر ایک طویل رپورٹ پیش کی۔لیکن اسرائیلی مظالم دکھانے کیلئے نہیں بلکہ چھپانے کیلئے تھی۔
اسرائیل کی اسی سفاکی کو جائز ٹھہرانے کیلئے بی بی سی کے ذریعے رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ تصویر: ایکس
غزہ میں بھوک کی موجودہ سطح کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے مکمل امدادی ناکہ بندی کے تیسرے مہینے میں داخل ہوتے ہوئے، بی بی سی نے اپنے مرکزی نیوز پروگرام ’’نیوز ایٹ ٹین‘‘ میں اس مسئلے پر ایک طویل رپورٹ پیش کی۔لیکن یہ رپورٹ اسرائیلی مظالم دکھانے کیلئے نہیں بلکہ چھپانے کیلئے تیار کی گئی تھی۔ لیکن جہاں ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے پانچ ماہ کے بچے کی دل دکھا دینے والی ویڈیو دکھائی گئی، وہیں دوسری جانب – اسرائیل کے ۲۰؍ لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کو بھوکا مارنے کے نسل کشی کے پروگرام کو ’’دونوں فریق‘‘ کے تناظر میں پیش کر کے، اس رپورٹ کا بیشتر حصہ سامعین کو الجھانےکیلئے وقف تھا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: بن پھٹے اسرائیلی بم حماس کیلئے ایک بڑی نعمت
سب سے صدمہ کن بات یہ تھی کہ بی بی سی نے اپنی اس طویل رپورٹ میں ایک بار بھی اس حقیقت کا ذکر تک نہیں کیا کہ اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو مہینوں سے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے فرار ہے، جس پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔ کیونکہ اس نے شہری آبادی کے خلاف جنگ کے ہتھیار کے طور پر بھوک کا استعمال کیا ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف جاری گرفتاری وارنٹ کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ کہیں یہ واضح نہ ہو جائے کہ دنیا کے اعلیٰ ترین قانونی ادارے غزہ میں بھوک کی ذمہ داری براہ راست اسرائیل اور اس کی حکومت پر عائد کرتے ہیں، اور اسے – جیسا کہ برطانوی میڈیا پیش کرتا ہے – محض جنگ کا ایک بدقسمت ’’انسانی نتیجہ نہیں سمجھتے؟‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ پر قبضے کے اسرائیلی منصوبے کیخلاف بے چینی اور ناراضگی
بی بی سی ’’وریفائی‘‘ کا حصہ بھی پیش گوئی کے طور پر گمراہ کن تھا۔ اس نے اسرائیل کی شدید ناکہ بندی کی ٹائم لائن پیش کی جس میں تمام تر الزام اسرائیل پر نہیں، جو خود تمام امداد روک رہا ہے، بلکہ خفیہ طور پر حماس پر ڈال دیا گیا۔ وریفائی کے رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ مارچ کے آغاز میں اسرائیل نے یہ مطالبہ کرتے ہوئے انسانی امداد روک دی،کہ حماس جنگ بندی کوجاری رکھے اور باقی قیدیوں کو رہا کرے، پھر وہ یکایک ۱۸؍ مارچ کا ذکر کرنے لگا اور کہا: "اسرائیل نے فوجی مہم دوبارہ شروع کر دی۔‘‘ ناظرین کے ذہن میں – شاید جان بوجھ کر – یہ تاثر چھوڑ دیا گیا کہ حماس نے جنگ بندی کو جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور آخری قیدیوں کو رہا کرنے سے گریز کیا تھا۔
یہ سب جھوٹ ہے۔ درحقیقت، اسرائیل نے جنگ بندی کا کبھی احترام ہی نہیں کیا، اور اس دوران بھی غزہ پر حملے جاری رکھے اور شہریوں کو مارتا رہا۔ لیکن اس سے بھی بدتر، اسرائیل کا دعویٰ کہ وہ جنگ بندی کو طول‘‘ دے رہا ہے درحقیقت اس کا یکطرفہ طور پر جنگ بندی کی خلاف ورزی تھی، جس میں اس نے پہلے سے طے شدہ شرائط میں بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا، جن میں حماس کا قیدیوں کو رہا کرنا بھی شامل تھا۔ اسرائیل نے جنگ بندی اس لیے توڑی تاکہ اسے غزہ کے شہریوں کو – اور انہی قیدیوں کو جن کی سلامتی کا وہ دعویٰ کرتا ہے – بھوکا مارنے کا بہانہ مل سکے، اور وہ اس قدر مجبور ہو جائیں کہ مصر کی جانب سے بند کی گئی سینائی کی سرحد کو زبردستی کھولنے کی کوشش کریں۔ اسی منصوبے کا اظہار ایک اسرائیلی وزیر نے بھی اپنے بیان میں کیا تھا۔
بی بی سی کی مصدقہ سروس ناظرین کو باخبر نہیں کر ہی، بلکہ یہ یقین دلانے کی کوشش ہے کہ اسرائیل کا انسانیت کے خلاف واضح جرم درحقیقت انتہائی پیچیدہ علاقائی سیاست ہے جسے سامعین سمجھ ہی نہیں سکتے۔مزید یہ ناظرین اتنے الجھ جائیں کے وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو مساوی قصوروار تصور کرکے، فلسطینیوں کے تعلق سے ہمدردی کھو دیں۔ جبکہ عام طور پر بڑی تعداد میں بچوں کو بھوکا مارنا اخلاقی طور پر قابل مذمت ہے، اور جو بھی ایسا کرتا ہے یا اسے حق بجانب ٹھہراتا ہے وہ ایک درندہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: غذا کی تلاش میں بھوکے فلسطینی جان لیوا سڑکوں پر سفر کررہے ہیں
دوسری جانب یہ موازنہ کہ ایک جانب ہڈی کا ڈھانچہ بن چکے بچے تو دوسری جانب یرغمال ہیں۔ایک جانب ہزاروں بچے قتل کئے جا رہے ہیں، دوسری جانب یہود مخالفت کا بھی خطرہ ہے، ہو سکتا ہے اسرائیلی اہلکار فلسطینی عوام کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہوں، لیکن یہودی ریاست جسے وہ چلا رہے ہیں، اسے ہر قیمت پر بچانا بھی تو ضروری ہے۔اسی مذموم کوشش کا نتیجہ ہے۔
لیکن ان نام نہاد نامہ نگار اور صحافیوں کی بکواس سے پرے اگر کوئی بھی شخص محض ۵؍ منٹ غزہ میں گزارلے تواس حقیقت کا قائل ہو جائے گا کہ یہ نسل کشی ہے، اور ہمیشہ سےنسل کشی ہی تھی۔