Inquilab Logo

فلاحی اسکیموں کا قضیہ

Updated: August 12, 2022, 12:16 PM IST | Mumbai

آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم مودی نے ’’ریوڑی کلچر‘‘ پر تنقید کی اور کہا کہ جو سیاسی جماعتیں ریوڑیاں بانٹتی ہیں اُنہیں متنبہ ہوجانا چاہئے کیونکہ اس سے سرکاری مالی طاقت متاثر ہوتی ہے ۔

PM Narendra Modi .Picture:INN
وزیر اعظم مودی۔ تصویر:آئی این این

 آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم مودی نے ’’ریوڑی کلچر‘‘ پر تنقید کی اور کہا کہ جو سیاسی جماعتیں ریوڑیاں بانٹتی ہیں اُنہیں متنبہ ہوجانا چاہئے کیونکہ اس سے سرکاری مالی طاقت متاثر ہوتی ہے ۔ اُنہوں نے اس کلچر کو ملک کی ترقی کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ (ریاستی حکومتیں) ایسا کررہی ہیں وہ ایکسپریس وے، ایئر پورٹ اور دفاعی کوریڈور تعمیر کرنے سے دلچسپی نہیں رکھتے۔  ریوڑی کلچر سے مراد ریاستی حکومتوں کی جانب سے فراہم کی گئی وہ سہولتیں ہیں جو عوام پر پڑنے والا مالی بوجھ کم کرنے کیلئے اور اُنہیں معاشی سہولت فراہم کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ ان میں بجلی اور پانی کا ایک حد تک مفت دیا جانا یا اس مد میں دی جانے والی رعایت وغیرہ شامل ہیں۔ نیتی آیوگ کے رکن رمیش چندر نے اپنے ایک بیان کو اس کلچر کے خلاف انتباہ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ اگر یہ کلچر، جس کے خلاف وزیر اعظم بھی متوجہ کرچکے ہیں، جاری رہا تو سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔  اتفاق سے سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا مگر عدالت نے تنقید نہیں کی بلکہ متوازن رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ رعایتوں کو روکنے کیلئے نیتی آیوگ، مالیاتی کمیشن، آر بی آئی، لاء کمیشن اور الیکشن کمیشن سے رائے طلب کی جائے اور تعمیری خطوط پر مرتب کی گئی پالیسی کو فوقیت دیتے ہوئے کوئی راستہ نکلے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم نے ریاستی حکومتوں کی جن فلاحی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے، اُن سے عوام مستفید ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر دہلی میں مفت پانی اور بجلی کا نظم۔ دیگر ریاستوں میں بھی مختلف النوع اسکیمیں جاری کی گئی ہیں۔ عموماً الیکشن کے پیش نظر سیاسی جماعتیں ان رعایتوں کا اعلان کرتی ہیں اور انتخابی کامیابی کے بعد ان اسکیموں کو جاری کرنے اور جاری رکھنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ان سے سرکاری خزانہ پر ناخوشگوار اثر پڑتا ہے اس سے انکار ممکن نہیں مگر عوامی نقطۂ نظر سے ان اسکیموں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ بعض اوقات سرکاری خزانہ اس اضافی بوجھ کا متحمل نہیں ہوتا مگر انہیں جاری رکھنا پڑتا ہے ورنہ سیاسی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ اکثر، حکومتیں زیر بار ہوتی ہیں مگر اسکیمیں جاری رکھتی ہیں۔زیر بار ہونے کے اسی مسئلہ کی وجہ سے بنگال، کیرالا، پنجاب، راجستھان اور آندھرا پردیش جیسی ریاستیں کافی مقروض ہوچکی ہیں۔ ہم نے چند روز قبل اس کالم میں قرض اور جی ڈی پی کے تناسب سے بحث کرتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ضروری اشیاء کی مفت یا رعایتی شرح پر فراہمی ہی سے سرکاری خزانے پر اثر پڑتا ہے اور خود سرکار کے اخراجات سے نہیں پڑتا؟ کیا ایسا کوئی آڈٹ ہوتا ہے جس میں نہایت دیانتداری سے یہ تعین کیا جاتا ہو کہ سرکار کے کون سے اخراجات ضروری اور جائز تھے اور کون سے غیر ضروری اور ناجائز؟ اگر ان رعایتوں اور سہولتوں کو بند کرنا ہو تو کیا اس سے پہلے ہم نے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے طبقات کو معاشی طور پر اس قابل بنادیا ہے کہ اُنہیں اب کسی رعایت اور سہولت کی ضرورت نہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہے۔ اس لئے جب تک وہ طبقات جو ان اسکیموں اور رعایتوں سے مستفید ہورہے ہیں، اُنہیں کسی قابل نہیں بنادیا جاتا، ان کی معاشی حالت قابل قدر نہیں ہوجاتی تب تک ان کا واپس لینا درست نہیں۔ چلتے چلتے یہ اعادہ ضروری ہے کہ فلاحی اسکیمیں صرف ریاستو ںکی نہیں، مرکز کی بھی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK