فرقہ پرست سیاسی عناصر نے مہاراشٹر اور عمومی سطح پر دیکھیں تو ملک کے بیشتر علاقوں میں عوام کو مذہبی جذبات کے فریب میں پھنسا رکھا ہے۔
EPAPER
Updated: September 24, 2023, 1:21 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
فرقہ پرست سیاسی عناصر نے مہاراشٹر اور عمومی سطح پر دیکھیں تو ملک کے بیشتر علاقوں میں عوام کو مذہبی جذبات کے فریب میں پھنسا رکھا ہے۔
مہاراشٹر میں گزشتہ برس سیاسی جوڑ توڑ سے اقتدار میں ہونے والی تبدیلی کے جو اثرات سماج میں ظاہر ہو رہے ہیں ان میں ایک نمایاں اثر فرقہ پرست عناصر کی وہ دیدہ دلیری ہے جو ریاست کی پرا من سماجی فضا کو مکدر بنا رہی ہے۔ ملک کی خوشحالی اور ترقی کے تناظر میں اس ریاست کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اوریہ حیثیت اس وقت تک ہی برقرار رہے گی جب تک کہ ریاست گیر سماجی امن باقی رہے گا۔امن و آشتی کے ماحول کو یقینی بنائے رکھنے میں اقتدار اور انتظامی امور سے وابستہ شعبے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس زاویہ سے اگر ریاست کے موجودہ حالات کا تجزیہ کیا جائے تو واضح طور پر یہ محسوس ہوگا کہ سماجی سطح پر اس تشنج کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے جو بالآخر مذہبی تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تشنج اوپری سطح پر نظر بھلے ہی نہ آئے لیکن عوام کا طرز عمل صاف اشارہ کرتا ہے کہ سماجی سطح پر اپنی فوقیت کو برقرار رکھنے کیلئے فرقہ پرست عناصر مختلف سطحوں پر سرگرم ہیں ۔ ان کی اس سرگرمی کو پس پردہ ان سیاسی قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے جو مذہبی منافرت کی بنیاد پر اپنی سیاسی دکان چلاتے ہیں۔
اس ریاست میں مذہبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کا معاملہ دیگر ریاستوں سے قدرے مختلف رہا ہے۔ ایک دہائی قبل تک ریاستی سطح کی سیاست میں مرکزی اہمیت کی حامل شیو سینا نے جس ہندوتوا وادی نظریہ کی تائید اور تشہیر کے ذریعہ سیاسی اہداف کے حصول کا راستہ اختیار کیا تھا اب اس راستے میں کچھ ایسے پیچ آگئے ہیں کہ اس سیاسی پارٹی کا سفر مسلسل ہچکولے کھا رہا ہے۔ آنجہانی بال ٹھاکرے نے جارحیت پر مبنی جس ہندوتوا کی وکالت کی تھی اس کے اظہار میں انھوں نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا اور اکثر موقعوں پر اس خود ساختہ ہندوتوا آئیڈیالوجی پر فخریہ بیان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اس ضمن میں بابری مسجد کی شہادت کے سلسلے میں ان کے بیانات کو یاد کیا جا سکتا ہے لیکن اب اس پارٹی کا ہندوتوا اُدھو ٹھاکرے کا وہ ہندوتوا ہے جو مذہبی اور سیکولر افکار کی آمیزش سے تیار ہوا ہے۔ ایک طرف وہ ہندوتوا سے اپنی وابستگی کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ جس سے بی جے پی کو دوم درجہ کے ہندوتوا والی پارٹی ثابت کر سکیں اور دوسری جانب سیکولر اتحاد میں بھی نمایاں رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ تضاد بہرحال انھیں کوئی واضح سیاسی شناخت عطا کرنے سے قاصر ہے ۔ ان کے اسی متضاد رویہ کا فائدہ اٹھا کر ایکناتھ شندے نے اقتدار میں سیندھ ماری کی اور سیاسی و قانونی پیچ و خم سے گزرتے ہوئے وہ اب تک ریاست کی وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔
مہاراشٹر میں اقتدار کی اس تبدیلی سے یہ صاف ہو گیا تھا کہ اب ریاست کے سیاسی منظرنامے پر اُن عناصر کو نمایاں حیثیت حاصل ہو جائے گی جن کی سیاست مذہب کے محور پر گردش کرتی ہے۔ سیاست میں مذہب کی آمیزش سے اب کوئی بھی سیاسی پارٹی مبرا نہیں رہی اور ہر پارٹی اپنے حسب فائدہ اور ضرورت مذہب کا کارڈ کھیلتی ہے لیکن زعفرانی سیاسی جماعت نواز فرقہ پرست عناصر اس بازی میں فتح حاصل کرنے کیلئے نفرت اور تشدد کا جو حربہ اختیار کرتے ہیں وہ وسیع پیمانے پر سماجی امن و خوشحالی کو متاثر کرتا ہے۔ اس وقت مہاراشٹر کے سماجی ماحول میں بھی ان عناصر کی سرگرمی نے ریاستی امن و آشتی کو متاثر کیا ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران بشمول ممبئی ریاست کے مختلف مقامات پر مذہبی منافرت سے مملو تشدد اور جارحیت کے جو واقعات پیش آئے ان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اب اس ریاست میں بھی سماجی کشیدگی کو فروغ دے کر سیاسی مقصد کو حاصل کرنے کی حکمت عملی فرقہ پرست سیاسی عناصر نے اختیار کر لی ہے۔ اس حکمت عملی کو روبہ عمل لانے میں کسی نہ کسی سطح پر ان مقتدر افراد کا تعاون بھی شامل ہے جن پر ریاست کے نظم و نسق کو بہتر بنائے رکھنے کی ذمہ داری ہے۔
یہ ریاست ملک کے معاشی نظام میں انتہائی اہم مقام رکھتی ہے اور اگر اس ریاست میں سماجی امن کو ہدف بنایا جائے گا تو اس سے بہرحال معیشت بھی متاثر ہوگی ۔ اگر ادھو اور شندے کے دور حکومت کا تجزیہ اس حوالے سے کیا جائے تو یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ شندے حکومت سے قبل ریاست میں سماجی سطح پر وہ اضطراب آمیز کیفیت نہیں نظر آتی تھی جو اس وقت نظر آ رہی ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ اگرچہ بہت جارحانہ تیور ظاہر نہ کرتے ہوں لیکن ان کی حکومت کو اپنے کندھوں کا سہارا دینے والی بی جے پی اس تیور کے اظہار میں کسی طرح کی کوتاہی برتنے کی قائل نہیں ہے۔ اس ضمن میں خصوصی طور سے نائب وزیر اعلیٰ فرنویس کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو اپنے جارحانہ مذہبی افکار کے ذریعہ شیو سینا کے ہندوتوا کو نقلی ہندوتوا ثابت کرنے کی کوششوں میں مسلسل مصروف نظر آتے ہیں ۔ چونکہ ریاست کے بیشتر معاملات میں فرنویس کی رائے حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے لہٰذا جب ان کی اور بھگوا پارٹی کے دیگر لیڈروں کی جانب سے مذہبی شدت پسندی پر اصرار کرنے والی باتیں کی جاتی ہیں تو لامحالہ اس کا اثر ریاست کے سماج پرظاہر ہوگا ۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے ریاست کے مختلف شہروں میں جو افسوس ناک واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں ۔
ریاست میں فرقہ ورانہ منافرت پر مبنی تشدد کے افسوس ناک واقعات کی تازہ کڑی کے طور پر ستارا کے اس حادثے کو پیش کیا جا سکتا ہے جس میں نورا لحسن نامی ایک مسلمان کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مذہبی جنون میں مبتلا ہجوم نے مسجد میں گھس کر نورالحسن پر اس قدر تشدد کیا کہ اس کے بعد وہ نوجوان انجینئر جانبر نہ ہو سکا جو اپنے گھر والوں کا واحد سہارا تھا۔اس سے کچھ ماہ قبل ممبئی کے گھاٹ کوپر میں بھی ایک مسلم نوجوان کو اس کے مسلمان ہونے کے سبب زد و کوب کیا گیا ۔ان حادثات پر ریاستی حکومت نے پھسپھسا سا رد عمل ظاہر کر کے اپنے طور پر اپنا فرض ادا کر دیا۔اس طرز کے رد عمل سے ریاستی امن کے ماحول کو تقویت ملنے کی توقع ذرا کم ہی کی جا سکتی ہے۔ اقتدار کی سطح سے ایسے رویے کا اظہار کسی حد تک اس کی مجبوری بھی ہے ۔ فرقہ پرست عناصر اسی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر سماجی ہم آہنگی کو متاثر کر رہے ہیں ۔صنعتی شہر ممبئی میں بھی اس کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ گھاٹ کوپر اور میرا روڈ میں عید الاضحی کے مہینے میں قربانی کے سلسلے میں ہونے والے تنازع نے جو رنگ اختیار کر لیا تھا، اس سے واضح ہے کہ سماج انتشار کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ یہ کیفیت اگرچہ ابھی پوری طرح نمایاں نہ ہو ئی ہو لیکن ایک زیریں لہر کے طو رپر سماج میں اس کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس کیفیت پر قابو پانے کیلئے جس سطح پر اقدام کرنے کی ضرورت ہے وہ عموماًنظر نہیں آرہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ا ٓئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات ہیں ۔ اس انتخاب کے متعلق ہونے والے حالیہ سروے نے برسر اقتدار پارٹی کو متنبہ کر دیا ہے کہ اس بار اقتدار کا حصول آسان نہ ہوگا۔ ایسی صورت میں یہ پارٹی ایک مرتبہ پھر مذہبی کارڈ پوری شدت کے ساتھ انتخابی بساط پر آزمائے گی اور خصوصاً ان ریاستوں میں جہاں کسی نہ کسی طور پر وہ اقتدار کا جزو ہے۔ ان حالات میں مہاراشٹر میں اگر سماجی امن کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش فرقہ پرست عناصر کے ذریعہ مسلسل کی جائے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔اس حوالے سے آئندہ کچھ ماہ ریاستی حکومت کیلئے پریشان کن اور ریاستی مسلمانوں کیلئے سخت امتحان والے ہو سکتے ہیں۔
اس پریشانی سے نجات اور امتحان میں کامیابی کیلئے اقتدار کا غیر جانبدار رہنا اور عوام کا بطور شہری اپنے سماجی فرائض کو انجام دینا ضروری ہے۔سیاسی اور مذہبی عناصر اپنے اہداف کے حصول کیلئے عوام کو مہرہ کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گا۔ اس صورتحال میں عوام کو ایک شہری کے طور پر اپنی اور اپنے معاشرہ کی فلاح و ترقی اور خوشحالی کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر عوام مذہب یا دیگر قسم کے تعصبات میں پھنس کر اس پہلو سے نظریں پھیر لے تو اس کا اثر بہرحال سماجی امن و آشتی پر رونما ہوتا ہے۔ فرقہ پرست سیاسی عناصر نے مہاراشٹر اور عمومی سطح پر دیکھیں تو ملک کے بیشتر علاقوں میں عوام کو اسی فریب میں پھنسا رکھا ہے جو ان کے مذہبی جذبات کی عارضی تسکین کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے ان کے معیار زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں ہو سکتی۔