Inquilab Logo Happiest Places to Work

قول و فعل کا تضاد ہمارے لئے دشواری پیدا کریگا!

Updated: June 22, 2025, 9:25 AM IST | Aakar patel | Mumbai

اِدھر کچھ عرصہ سے ہماری خارجہ پالیسی ہدف تنقید بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عالمی برادری میں ہم الگ تھلگ پڑ چکے ہیں۔ اس ضمن میں مضمون نگار نے ہمارے قول و فعل سے بحث کی ہے۔

India has taken on the responsibility of taking the voice of the Global South to global forums.
ہندوستان نے گلوبل ساؤتھ کی آواز (وائس آف گلوبل ساؤتھ) کو عالمی فورموں تک لے جانے کی ذمہ داری قبول کی ہے

ہندوستان نے گلوبل ساؤتھ کی آواز (وائس آف گلوبل ساؤتھ) کو عالمی فورموں تک لے جانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کا اعلان اس ماہ میں ہماری حکومت نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اخبار کی سرخی کچھ اس طرح تھی: ’’یہ وقت ہے کہ ہم اپنی موجودگی درج کرائیں، ہندوستان گلوبل ساؤتھ کی آواز بنے گا‘‘۔ یہ سرخی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے حوالے سے جی ۷؍ کی میٹنگ سے قبل شائع ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان گزشتہ تین سال سے وائس آف گلوبل ساؤتھ چوٹی کانفرنس کا انعقاد کررہا ہے۔ اسے حکومت نے وی او جی ایس ایس (مخفف) کا نام ہے۔ مذکورہ اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کی وجہ یہی جان پڑتی ہے کہ ہم جی ۷؍ میں اپنے اثرورسوخ کو محسوس کروا سکیں۔ ہندوستان جی ۷؍ کا باقاعدہ ممبر نہیں ہے بلکہ اسے نامزد کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ جن دیگر ملکوں کو نامزدکیا جاتا ہے اُن میں میکسیکو، برازیل، کومروس اور کو‘ک آئی لینڈز شامل ہیں جو مشاہد کی حیثیت سے مدعو کئے جاتے ہیں۔ اس میں ہمارا کوئی خاص کردار نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہمارا نمائندہ دیگر ملکوں کے نمائندوں (سربراہان) کے ساتھ مصافحہ و معانقہ کرے اور اس موقع کی تصویریں دُنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوں۔ جی ۷؍ کے اصل اراکین وہ سات ممالک ہیں جن کی وجہ سے اس کا نام جی ۷؍ پڑا۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان ہیں ۔ اپنی حالیہ میٹنگ میں، جو حال ہی میں کنیڈا میں منعقد کی گئی، ان ملکوں نے ایران کی مذمت کی جبکہ حملہ آور اسرائیل ہے ایران نہیں۔ تہران اور دیگر جگہوں پر ہونے والی بمباری کو موضوع بناتے ہوئے جی ۷؍ کے شرکاء کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے، اسی لئے ’’ہم اسرائیل کے تحفظ کے اپنے عہد کا اعادہ کرتے ہیں۔‘‘ یہی نہیں شرکاء کا یہ بھی موقف تھا کہ ’’ایران مشرق وسطیٰ کے عدم استحکام اور دہشت گردی کا منبع ہے‘‘۔ یہ کیسی منطق ہے کون سمجھے اور کون سمجھائے!
 وائس آف گلوبل ساؤتھ (وی او جی ایس) کا اس موضوع پر کوئی موقف نہیں تھا۔ چونکہ ہمارے وزیر اعظم جی ۷؍ کی میٹنگ میں شریک تھے اس لئے گلوبل ساؤتھ کی آواز اتنے بڑے عالمی فورم تک پہنچانے کا یہ بہت اچھا موقع تھا مگر ہماری جانب سے اس سلسلے میں خاموشی رہی۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہم ایسی میٹنگ یا کانفرنس میں شریک ہی کیوں ہوتے ہیں جہاں طاقتور ممالک میٹنگ یا کانفرنس کو اپنے موقف کے اعادے کا بہترین موقع تصور کرتے ہیں اور ہم موجود ہونے کے باوجود کچھ نہیں کہہ پاتے۔ اگرہندوستان گلوبل ساؤتھ کی ترجمانی کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی موجودگی درج ہو تو اُس کے پاس موقع تھا جی ۷؍ میں اس موقف کو پیش کرکے اپنی موجودگی درج کرانے کا۔ یہ کیوں نہیں ہوا؟
 شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن میں بھی وائس آف گلوبل ساؤتھ رکن ہے۔ یہاں اسے اپنی بات کہنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس کے ۹؍ اراکین ہیں جن میں روس، چین، ہندوستان، ایران، قزاخستان، کرغیزستان، پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ ان ملکوں کی مجموعی آبادی، عالمی آبادی کا ۴۲؍ فیصد ہے اور یہ بڑا ادارہ ہے جس کے چارٹر میں درج ہے کہ اس کا مقصد ایک نئی جمہوری، صاف ستھری، عدل پر مبنی، عقل و فہم کو کسوٹی بنانے والی عالمی برادری تشکیل دینا ہے جو سماج کے کمزور اور غریب ملکوں کے حقوق کی بات کرسکے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن نے ایران اسرائیل تنازع میں کہا کہ ’’ہم اسرائیل کے ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہیں جو توانائی کے ذخائراور ذرائع نقل و حمل کی تباہی اور انسانی جانوں کے اتلاف کا سبب بنتے ہیں جو کہ عالمی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورز ی ہے۔ لیکن اس فورم پر بھی ہمارا طرزعمل مختلف تھا۔ ہم نے اسی دن ایک بیان جاری کیا جس کے ذریعہ خود کو شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے موقف سے علاحدہ کرلیا گیا اور توضیح پیش کی گئی کہ ا س بیان کی تیاری کیلئے ہونے والی گفتگو میں ہندوستان شریک نہیں تھا۔ یہاں بھی اس نے علاحدہ موقف اختیار کیا اور چونکہ یہ ایک اہم اور بڑا ادارہ ہے اس لئے ضرورت تھی کہ یہاں موجودگی درج کرالی جاتی مگر ہم نے خود ہی الگ راہ اپنالی۔ 
 اسی دن (۱۴؍ جون کو) اخبارات میں شائع ہوا کہ غزہ میں جنگ بندی کی اقوام متحدہ کی قرارداد کی ۱۴۹؍ ملکوں نے تائید کی، ہندوستان غیر حاضر رہا۔ اس قرارداد میں شہریوں کو غذا سے محروم کرنے کے عمل کو جنگ کا حربہ قرار دیا گیا مگر جس ملک نے خود کو گلوبل ساؤتھ کی ترجمانی کا ذمہ دار مانا تھا، وہ غیر حاضر رہا جبکہ تمام جنوبی ایشیائی ملکوں نے اس کی تائید کی۔ ہمارا موقف تھا کہ تنازعات کو گفتگو کے ذریعہ حل کرنا چاہئے اور متصادم ملکوں کو سفارت اور مذاکرات کے ذریعہ قریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ بات تو درست ہے مگر کیا اُس کو جو بمباری کررہا ہو اور اُس کو جو بمباری کا عتاب جھیل رہا ہو، قریب لایا جاسکتا ہے؟
 مرکزی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ۱۴؍ اگست ۲۴ء کو ہندوستان نے وائس آف گلوبل ساؤتھ کی تیسری سالانہ چوٹی کانفرنس کی میزبانی کی۔ اس کانفرنس کو مودی کے ویژن ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘‘ سے جوڑا گیا اور بتایا گیا کہ یہ کوشش وسودھیو کٹمبکم کے فلسفے سے عبارت ہے۔ مگر، ۸؍ مئی کو روہنگیاؤں کو ملک بدر کرنے کے بارے میں اسی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اُسے اقوام متحدہ کے ادارہ یو این ایچ سی آر کے رفیوجی کارڈ قابل قبول نہیں ہیں اور اس نے ۱۹۵۱ء کے اقوام متحدہ رفیوجی کنونشن پر دستخط نہیں کئے ہیں اس لئے پناہ گزینوں کو تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔ اس ضمن میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر ہندوستان نے یو این رفیوجی کنونشن پر دستخط نہیں کئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانوں کو دھکا دے کر باہر نکالا جائے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے رفیوجی کنونشن کا حوالہ تو دیا مگر اور بھی قوانین ہیں جو ہم پر لازم کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو ایسی جگہ زبردستی نہ بھیجیں جہاں کے حالات اُن کے لئے ناگفتہ بہ ہوں۔ اس پر ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہم دُنیا پر قول و فعل کا تضاد ہی ظاہر کررہے ہیں ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK