Inquilab Logo

پہلے کے مقابلے اب شادیوں کے اخراجات میں کافی اضافہ ہوا ہے

Updated: February 07, 2023, 3:19 PM IST | nadir | Mumbai

چند سال قبل تک شادیوں کیلئے بریانی مخصوص تھی، اس کے بعد ضائقہ بدلنے کیلئے لوگ نان قورمہ کے ساتھ چاول یا بریانی کا اہتمام کرنے لگے، پھر بعض پیسے والوں نے اسٹارٹر کا چلن شروع اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ بعض شادیوں میں تصو ر سے بھی کہیں زیادہ اہتمام ہوتا ہے اور کھانے والوں کو سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں سے شروع کریں

photo;INN
تصویر :آئی این این

آج سے ۲۰؍ یا ۲۵؍ سال پہلے بھی ممبئی میں عام طور پر شادیاں کسی ہال ہی میں ہوا کرتی تھیں۔ بعض لوگ اپنے محلے یا بلڈنگ کی چھت پر منڈپ ڈال لیا کرتے تھے  اور وہیں ساری رسمیں ہوتیں لیکن  زیادہ تر فیشن ہال ہی کا تھا۔ کسی بھی شادی میں آپ جائیں تو پہلے آپ کو  ایک چینی مٹی کی پلیٹ میں آئسکریم دی جاتی تھی۔  اس کے بعد کھانا لگایا جاتا جس میں بریانی اور رائتہ ہوتا تھا۔ یہی آپ کا استقبال تھا اور یہی آپ کی تواضع۔  
  بریانی شادیوں کی مخصوس ڈش بلکہ علامت تھی۔ آج بھی شادی کے تعلق سے بریانی کا تذکرہ محاورتاً کیا جاتا ہے۔ کسی نوجوان سے یہ پوچھنا ہو کہ ’’ شادی کب کر رہے ہو؟‘‘ تو کہا یہ جاتا ہے ’’ بریانی کب کھلا رہے ہو؟‘‘  لیکن بیسویں صدی کے آتے آتے  جہاں  رسم ورواج اور فیشن میں تبدیلی آئی وہیں شادیوں کے  پکوان بھی بدلنے لگے۔ شروع میں ضائقہ بدلنے کیلئے لوگ نان قورمہ کے ساتھ چاول یا بریانی کا اہتمام کرنے لگے۔  پھر بعض پیسے والوں نے اسٹارٹر کا چلن شروع کیا۔ ساتھ میں روٹی سالن  اور چاول۔ پھر اس میں دال کو بھی شامل کر لیا گیا۔ آج اگر آپ کسی شادی میں جائیں تو وہاں آپ کی توقع سے زیادہ چیزیں آپ کی تواضع کیلئےموجود ہوں گی۔
  ہال میں داخل ہوتے ہی، ویلکم جوس ( استقبالیہ مشروب)  آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ پھر  ایک طرف پانی پوری کا اسٹال نظر آئے گا تو  دوسری طرف جلیبی کا ٹھیلہ دکھائی دے گا۔ کہیں کہیں پان کا گوشہ بھی لگا ہوتا ہے ( جو کھانےکے بعد استعمال ہوتا ہے) کھانے میں کم ازکم ۲؍  اسٹارٹر ، اوپر والے نے توفیق دی ہے تو ۳؍ یا اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ان میں چکن، مٹن، بیف سب کچھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ۲؍ قسم کے سالن جن میںسے ایک کا  رنگ ہرا ہوگا تو دوسرے کا لال۔ کبھی یہ دونوں چکن کے ہو سکتے ہیں اور کبھی ان میں سے ایک چکن اور ایک مٹن ہوگا۔ ساتھ میں کوئی ایک روٹی یا نان نہیں بلکہ، نان ، تندوری ،ر وٹی، رومالی روٹی  بعض اوقات اور بھی کسی قسم کی روٹی ہو تو اسے بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔   
  یہ تو متوسط طبقے کی شادیوں کا حال ہے اگر دولت مندوں کی شادیوں میں چلے جائیں ، جیسے کسی  کارپوریٹر ، بلڈر یا اعلیٰ ملازمت کے حامل شخص کی  دعوت ہو تو ایک میلہ لگا ہوتا ہے جہاں آپ کو پہلے تو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ آخر آپ کیا کھائیں گے اور کیا ترک کریں گے؟  عام طور پر وقت کے ساتھ ساتھ زمانے کی روش اور سماج کے چلن میں فرق آتا ہے۔ سو ممبئی میں بھی شادیوں کے کھانے میں تبدیلی آئی ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی کیا صرف  فیشن کی بنا پر آجاتی ہے یا اس میں لوگوں کی مالی حالت  میں ہونے والی ترقی کا بھی ہاتھ ہے۔ فیشن بغیر فارغ البالی کے تو نہیں اپنایا جاتا؟ 
  اس معاملے میں سینئر صحافی رفیع خان (۷۲) جو کھانے پینے کا ذوق رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’’  ایک وقت تھا کہ اسی ممبئی میں شادیوں کے کھانوں میں روٹی سالن اور چاول پیش کیا جاتا تھا۔ اس میں بھی ہال کی شرط نہیں تھی۔ گلی ہی میں منڈپ لگا دیا جاتا اور محلے کے لڑکے سارا کام سنبھال لیتے تھے۔  لوگ بے تکلفی کے ساتھ کھانا کھاتے اور  اپنے اپنے گھر چلے جاتے ۔ ‘‘  وہ بتاتے ہیں کہ ’’ کئی جگہوں پر کھانا بھی خود ہی بنایا جاتا تھا ۔ بعض لوگ یہ کرتے کہ بھٹیارے کو بلوالیتے اور سارا سامان خود خرید کر لاتے۔ سامنے کھانا پکوایا جاتا تھا۔ ‘‘موجودہ تبدیلی کے تعلق سے رفیع خان کہتے ہیں ’’ یہ تبدلی میرے خیال سے تن آسانی کے سبب آئی ہے۔ اب لوگ خود  بھاگ دوڑ نہیں کرنا چاہتے اسلئے کیٹرنگ کو آرڈر دے دیتے ہیں۔ کھانا پوری طرح بھٹیارا یا اس ہوٹل مالک کے ذمہ ہوتا ہے جسے آرڈر دیا گیا ہے۔  اب تو مہمانان کی تواضع کیلئے بیرے رکھے جاتے ہیں۔ یہ کام پہلے اہل محلہ اور رشتے دار خود کرتے تھے۔ ‘‘  لیکن اتنے بڑے پیمانے پر اخراجات کیلئے آپ کے پاس پیسے بھی تو ہونے چاہئیں؟ رفیع خان  کہتے ہیں ’’پیسوں کا کیا ہے ؟   یا تو آپ یہ سمجھ لیجئے کہ جو آپ کو جیسا دکھائی دے رہا ہے ویسا ہے نہیں۔ یعنی نوکری پیشہ شخص اتنے بڑے پیمانے پر دعوت کا انتظام کیسے کرے گا؟ اور اگر کرتا ہے تو مطلب ہے کہ اس کی آمدنی کا کوئی اور بھی ذریعہ ہے جو دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ‘‘ آگے وہ کہتے ہیں کہ ’’ اب ایک اور چلن شروع ہو گیا ہے کہ لوگ قرض لے کر شادیاں کرتے ہیں اور شادی کے بعد ایک زمانے تک وہ قرض ادا کرتے رہتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا ۔ لوگ اتنے ہی پیر پھیلاتے تھے جتنے ان کے پائوں ہیں۔‘‘قرض لے کر اتنے بڑے پیمانے پر شادی کرنے کا مطلب تو یہی ہے کہ شادیوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ فیشن کی بنا پر آئی  ہیں؟ رفیع خان کا کہنا ہے ’’ یہ صرف نمائش ہے۔ ورنہ آپ دیکھ لیجئے کہ ہر شادی میں ایک ہی جیسا کھانا کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ اگر لوگ آپ کی تواضع کرنا چاہتے ہیں۔ یا انہیں اچھے کھانوں کا ذوق ہے تو مختلف شادیوں میں آپ کو مختلف پکوان دکھائی دینے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہے۔ جب بریانی بنا کرتی تھی تو ہر شادی میں بریانی ہی بننے لگی۔ پھر لوگوں نے نان قورمہ شروع کیا  تو  ہر جگہ وہی نظر آنے لگا۔ اور اب یہ جو نئے کھانے آئے ہیں، اسٹارٹر، روٹیاں اور رنگین سالن ، تو ہر جگہ ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں بھلے ہی ان کے نام الگ ہوں اور  ذائقہ میں فرق ہو۔‘‘ 
   ناگپاڑہ میں رہنے والے اسماعیل شیخ (۵۷) کوئی ۳۰؍ سال سے زائد عرصے سے شادیوں کو قریب سے دیکھتے آئے ہیں کیونکہ وہ ایک زمانے تک شادیوں میں ویڈیو گرافی کا کام کرتے  رہے۔  انہوں نے کہا ’’شادیوں میں نظر آنے والے جدید طور طریقے بدلتے وقت کی ہی علامت ہیں۔ ہم نے ہر سال  شادیوں میں کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھی ہے۔ ‘‘  وہ یاد دلاتے ہیں کہ ’’ پہلے آپ نے دیکھا ہوگا کہ نکاح عام طور پر شادی ہال کے اسٹیج ہی پر ہو جاتا تھا۔ قاضی صاحب ہال میں آتے تھے ایجاب وقبول کرواتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ اس کے بعد دیگر رسمیں اور استقبالیہ وغیر کی تقریب ہوتی تھی  لیکن اب نکاح عام طور پر مسجدوں میں ہوتا ہے۔ نکاح صبح ہے کھانا شام کو یا شام کو مسجد میں نکاح ہے ،اس کے بعد ہال میں کھانے کا نظم ہے۔ ‘‘  وہ کہتے ہیں کہ ’’ رہ گئی بات کھانوں کی تو ، یہ سچ ہے کہ لوگوں کے پاس اب پیسہ ہے۔ جس زمانے کی آپ بات کر رہے ہیں ، تب گھر کا بڑا کماتا تھا اور بیٹے یا بیٹی کی شادی کرتا تھا۔ اس وقت یہ چلن تھا کہ کاٹ کسر کرکے خرچ کیا جاتاتھا لیکن اب وہ نسل آگے بڑھ گئی۔ اگلی نسل سامنے آگئی۔ یعنی ان کے بچے بڑے ہو گئے۔ گھر میں ۲؍ سے ۳؍ بھائی کمانے والے ہیں جو کہ شادی میں اپنے  شوق کے مطابق خرچ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
 پر اسماعیل شیخ کہتے ہیں ’’ پہلے ڈیکوریٹر سے گھر کے بڑے رابطہ کیا کرتے تھے اور اپنے بجٹ کے مطابق سجاوٹ کی مانگ کرتے تھے لیکن اب نوجوانوں کو ڈیکوریٹر کے پاس بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی پسند کے مطابق سجاوٹ کروا سکیں۔‘‘ ان کے مطابق ’’ یہی حال کھانے پینے کا بھی ہے۔ نوجوان چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے اپنے دوستوں کے ہاں شادیوں میں کھایا ہے ۔ وہی اپنے گھر کی شادیوں میں بھی پکوائیں یا اس سے بہتر طریقے سے مہمانوں کی تواضع کریں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ اب تو لوگ بچوں سے بھی پوچھتے ہیں کہ وہ شادی میں کیا کھانا پسند کریں گے۔ عام طور پر اسٹارٹر چھوٹے بچے ہی طے کرتے ہیں کہ چکن میں رہے گا یا فش ( مچھلی) فرائے کی جائے گی۔ اب شادیوں میں کھانے پہلے کے مقابلے میں متنوع نظر آتے ہیں۔ 
  ڈاکٹر افسر ( ۴۰)کہتے ہیں کہ ’ ’ ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب شادیوں میں صرف بریانی پیش کی جاتی تھی ۔ اس کے ساتھ دودھی کا یا پھر انناس کا حلوہ ہوتا تھا۔ ہاں .... کھانا شروع ہونے سے پہلے آئس کریم ضرور دی جاتی تھی۔ اس وقت بہت مختصر تقریب ہوتی تھی جسے’ ریسپشن ‘کہتے تھے۔ اب تو ’ڈنر ‘کہتے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’ بعد میں تھوڑی بہت تبدیلیاں آئیں جب نان قورمہ یا تندوری روٹی اور قورمہ پیش کیا جانے لگا۔ ساتھ میںبگھارے ہوئے چاول ہوتے تھے لیکن یہ چلن بہت کم وقت تک رہا۔ اور اب تو شادی کے کھانے میں کیا کیا ہوتا ہے پوچھئےمت۔ ‘‘ لیکن اتنے انواع و اقسام کے کھانوں کیلئے پیسے بھی تو چاہئے؟ اس سوال پر ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں’’ پیسہ تو بے شک بڑھا ہے۔ اب لوگوں کے پاس پیسے ہیں۔ ہم جب اسکول جاتے تھے تو ہمارے جیب میں پیسے نہیں ہوتے تھے۔ جس دن پیسے ملتے تھے اس دن یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ اسے کہاں خرچ کریں؟ آج ہر بچہ اسکول جانے سے پہلے گھر سے پیسے ضرور لیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس وقت گھر کی آمدنی محدود تھی اب اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ‘‘ وہ ایک اور مثال دیتے ہیں’’ پہلے ہم جن علاقوں میں رہتے تھے ان میں چند محلے تھے اور اطراف میں جنگل، اس میں آپ ممبرا کو گن لیجئے یا بھیونڈی کو یا پھر کلیان کو، اب جن علاقوں کو جنگل سمجھ کر وہاں ہم جانے سے گریز کرتے تھے وہاں بھی کالونیاں بنی ہوئی ہیں، وہ بھی مہنگی۔ ممبئی میں بڑے بڑے ٹاور بن رہے ہیں اور لوگ وہاں گھر خرید رہے ہیں۔ ان کے پاس پیسے کہاں سے آ رہےہیں؟ ظاہر ہےکہ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، اسلئے شادیوں میں اخراجات میں وہ دکھائی دے رہا ہے۔ ‘‘ لیکن کیا اس کا شمار فضول خرچ میں ہوگا؟ وہ کچھ دیر سوچ کر کہتے ہیں’’ فضول خرچ تو اس وقت کہا جائے گا جب پیسہ ضائع ہو رہا ہو۔ اس میں تو لوگوں کی ضیافت ہوتی ہے۔ اگر ہم اس نیت سے کھانا کھلائیں کہ اس بہانے احباب اچھے پکوان کھا لیں گے تو یہ ایک نیکی ہی ہوئی۔ ‘‘
  انہوں نے اس نکتے کے علاوہ مزید کچھ باتیں بتائیں۔ کہنے لگے ’’ آپ کو یاد ہوگا کہ پہلے بیشتر نکاح ہال میں اسٹیج ہی پر ہو جاتے تھے۔ اب تقریباً ہر شادی میں نکاح مسجد میں ہوتا ہے اور سادگی سے یعنی اس تقریب میں کوئی بے جا رسم نہیں ادا کی جاتی۔ چاہے وہ امیر کی شادی ہو یا غریب کی۔ اس کے علاوہ پہلے ہال میں جہیز سجا کر رکھا جاتا تھا تاکہ مہمان دیکھ لیں کہ لڑکی اپنے ساتھ کیا کیا لے کر آئی ہے۔ اب آپ کو شہروں میں شاید ہی کسی شادی میں ہال میں جہیز سجا ہوا دکھائی دے۔ یہ مثبت باتیں ہیں جنہیں آپ کو لکھنا چاہئے۔‘‘
 ممبئی کے تاڑ دیو علاقے میں کیٹرنگ کا کاروبار کرنے والے صابر علی سے جب شادی کے کھانوں میں ہونے والی تبدیلیوںکے تعلق سے پوچھا تو انہوں نے سارا ریکارڈ ہمارے سامنے رکھ دیا۔ بات یوں شروع کی ’’ دیکھو! پہلے یعنی ۱۹۹۰ء تک شادی میں بریانی بنتی تھی، بہت ہوا تو کٹلیٹ رکھ لیتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی میٹھا ہوتا تھا ۔ پھر تھوڑے دن نان قورمےکا فیشن چلا۔ یہ ۲۰۰۰ء کے بعد کی بات ہے۔ اس کے ساتھ چاول بھی ہوتے تھے۔ یہ جو آج آپ اتنے قسم کے کھانے دیکھ رہے ہیں تو وہ ۲۰۱۰ء کے بعد کی بات ہے۔ اس کے بعد اسٹارٹر، کانڈی، کباب، قیمہ ، ہر چیز شادی میں بنایا جانے لگا۔‘‘ ہم نے پوچھا لیکن اتنے قسم کے کھانوں کیلئے پیسوں کی بھی تو ضرورت ہے ؟ انہوں نے تپاک سے جواب دیا ’’ پبلک کے پاس پیسہ ہے نا بھائی! پیسہ ہے تبھی تو دکھاوا کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا’’ دھندہ بڑھا ہے، آبادی بڑھی ہے، جب پریوار (خاندان) بڑھتا ہے تو آمدنی خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ پہلے گھر میں ۲؍ کمانے والے تھے تو اب ۴؍ ہو گئے ہیں، اسلئے پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘ چونکہ انہوں نے خود ہی لفظ ’دکھاوا‘ استعمال کیا تھا اسلئے ہم نے پوچھ لیا ’’ ایسا تو نہیں کہ لوگ دکھاوے کیلئے قرض لے کریوں شادیوں میں خرچ کرتے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’ ایسا بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ تو ادھار بھی بنا کر لے جاتے ہیں کھانا ۔ ابھی ہمارا ہی ایک آدمی کے اوپر ڈیڑھ لاکھ روپیہ باقی ہے۔ سال بھر کے اوپر ہو گیا ہے شادی کو مگر اب تک پیسہ نہیں دیا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’پہلے آرڈر مزدوری پر ملتا تھا یعنی سارا سامان پارٹی خود لےکر آتی تھی اور بس شادی والے دن وہاں جائو اور کھانا بنا آئو لیکن اب پلیٹ کا حساب ہوتا ہے۔ جیسی پلیٹ ہوگی یعنی جتنے قسم کے کھانے ہوں گ،اس حساب سے اس کا ریٹ ( دام) ہوگا۔ ‘‘ ا س کامطلب یہ ہوا کہ کیٹرنگ والوں اور بھٹیاروں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے؟
  وہ کہتے ہیں ’’کمائی تو بڑھی ہے نہ بھائی۔ جیسے سب کی بڑھی ہے ویسے ہماری بھی بڑھی ہے۔ اب کام بھی تو زیادہ ہوتا ہے۔ ‘‘ وہ گنوانے لگے کہ ’’ پہلے ایک یا دو چیز یں ہوتی تھیں تو اتنے لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ۔ اب زیادہ چیزیں بنائی جاتی ہیں تو لوگ بھی زیادہ لگتے ہیں اور برتن بھی زیادہ لگتے ہیں۔ہماری آمدنی بڑھی ہے تو ہمارے ساتھ کام کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے، انہیں روزگار ملا ہے۔‘‘ ہم نے پوچھا اتنی تبدیلیوں کے بعد مستقبل میں شادیوں میں بننے والے کھانوں میں اور کیا کچھ بدل سکتا ہے؟‘‘ صابر علی کہتے ہیں’’ دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ ویسے تومہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اسلئے ہو سکتا ہے کہ لوگ پھر سے شادیوں میں سادگی لے آئیں اور ایک دو ڈش بنانے پر ہی اکتفا کریں جیسا کہ کورونا کے وقت ہوا تھا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK