اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کی تخلیق کرتے ہی انہیں دنیا میں نہیں بھیج دیا بلکہ جنت میں رکھا تاکہ وہ خلافت کی باریکیاں سمجھ لیں اور آزمائشوں کیلئے تیار ہوسکیں۔
EPAPER
Updated: August 25, 2025, 4:45 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کی تخلیق کرتے ہی انہیں دنیا میں نہیں بھیج دیا بلکہ جنت میں رکھا تاکہ وہ خلافت کی باریکیاں سمجھ لیں اور آزمائشوں کیلئے تیار ہوسکیں۔
سوچئے، اگر کسی بڑے میچ کے انتخابی مرحلے میں کھلاڑیوں کے بجائے ایک شخص یونہی سڑک سے راہ گیر کو پکڑ لائے اور بغیر کسی تیاری و مشق کے میدان میں اتار دے، تو وہ عقل مند کہلائے گا یا دیوانہ؟ بلاشبہ وہ نادان اور بےوقوف قرار پائے گا، کیونکہ یہ اقدام حکمت ِ انتخاب اور تجربۂ ماہرین کے خلاف ہے۔ یہ مثال اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب کوئی عظیم مقصد سامنے ہو تو اس کے لئے مرحلہ وار تیاری ناگزیر ہوتی ہے۔
بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض یوں ہی دنیا میں نہیں اتارا۔ سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو وجود بخشا، پھر حضرت حوا کو پیدا فرمایا اور انسانی نسل کا آغاز ہوا۔ لیکن غور کیجئے! آدمؑ کو تخلیق کرتے ہی براہِ راست دنیا میں کیوں نہ بھیجا گیا؟ انہیں پہلے جنت میں کیوں رکھا گیا؟ یہی سوال دراصل حکمت ِ تخلیق اور فلسفہ ٔ ابتلا کا دروازہ کھولتا ہے اور ہم آپ کا اس پر غور کرنا ضروری ہے۔
خلافت ِ ارضی کا منشور: اللہ نے صاف اعلان کیا:’’میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ ‘‘ (البقرہ:۳۰)یہ اس بات کا اعلانِ عام تھا کہ انسان کی تخلیق محض وجود کیلئے نہیں، بلکہ ایک عظیم ذمہ داری (خلافت ِ ارضی) کے لئے ہے۔ لیکن خلافت کی باریکیاں سمجھے بغیر انسان کو زمین پر بھیج دینا ایسا ہی ہوتا جیسے بغیر تیاری کے کسی کو میدانِ کارزار میں دھکیل دینا۔ اس لئے آدمؑ کو پہلے جنت میں رکھا گیا تاکہ وہ دیکھیں کہ اصل سکون، اصل نعمت اور حقیقی وطن کہاں ہے۔
امتحان کی تمثیل اور انسانی کمزوری: جنت میں آدمؑ کے لئے ہر شے مہیا تھی، صرف ایک درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا۔ یہ ممانعت گویا پہلا امتحان تھا، امتحانِ اطاعت۔ نتیجہ کیا ہوا؟ لغزش ہوگئی، کیونکہ انسان کی ساخت ہی میں بھول اور کمزوری ہے لیکن اسی لغزش نے ایک عظیم حقیقت واضح کی: انسان گرتا ہے مگر اٹھ بھی سکتا ہے؛ بھٹکتا ہے مگر پلٹ بھی سکتا ہے۔ اور یہی انسان کی سب سے بڑی عظمت ہے۔
حضرت آدمؑ نے جب لغزش کی تو فوراً رجوع کیا اور پکار اٹھے:’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائینگے۔ ‘‘ (الاعراف:۲۳)
اصل وطن کا شعور: اگر آدمؑ کو براہِ راست دنیا میں بھیج دیا جاتا تو انسان کبھی نہ جان پاتا کہ اس کا اصل وطن جنت ہے اور دنیا محض ایک امتحان گاہ۔ جنت میں ابتدائی قیام نے یہ شعور رگ وپے میں اتار دیا کہ دنیا عارضی ہے اور منزلِ مقصود صرف جنت ہے۔ یہی احساس انسان کو اپنی اصل کھوئی ہوئی میراث کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے۔
آدمؑ کی فضیلت اور کائناتی اعلان: جنت میں قیام کے ایک اور پہلو پر بھی غور کیجئے: فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدمؑ کے سامنے سجدۂ تعظیم بجا لائیں، اور آدمؑ کو علمِ اسماء عطا ہوا۔ یہ گویا کائنات کے سامنے اعلان تھا کہ انسان محض مٹی کا پتلا نہیں بلکہ علم، ارادہ اور اختیار کا حامل ایسی مخلوق ہے جس کی صلاحیتیں فرشتوں سے بھی بڑھ سکتی ہیں۔
فلسفہ ٔ نبوت اور انسان کی تربیت: آدمؑ کا جنتی تجربہ دراصل فلسفہ ٔ نبوت کی تمہید ہے۔ عقل خالق کے وجود تک تو پہنچا سکتی ہے لیکن مکمل نظامِ حیات نہیں دے سکتی۔ جب شیطان بہکاتا ہے، تو پھر انسان کو ایک رہنما چاہئے جو وحی کے نور سے اس کی اصلاح کرے۔ یہی نبوت کا مقصد ہے: انسان کو اس کے رب کی طرف لوٹنے کی راہ دکھانا۔
انسان اگر الٰہی احکام کے ساتھ جڑ جائے تو اس کی رفعت اس مقام تک پہنچ سکتی ہے جہاں فرشتوں کی پرواز بھی نہیں پہنچتی؛ لیکن اگر وہ ربانی ہدایات سے منہ موڑ لے تو ذلت و مسکنت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہی جنت کے قیام کا راز تھا، انسان کو وہاں زندگی گزارنے کا عملی طریقہ سکھایا گیا۔ جب حضرت آدمؑ نے اس ضابطہ ٔ الٰہی پر عمل کر کے زندگی کا سلیقہ سیکھ لیا اور زمین کی زندگی کے لئے تیار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی طرف بھیجا تاکہ وہ اپنی اولاد کیلئے ایک عملی نمونہ بن جائیں۔ یہی ’’نمونہ‘‘ دراصل نبوت ہے۔
دراصل، ایک انسان اس وقت تک اتباع اور پیروی کے لائق نہیں ہوتا جب تک اس کی زندگی تمام تر پہلوؤں سے سامنے نہ آجائے۔ حضرت آدمؑ کی حیات اپنی اولاد کے لئے ایک زندہ نصاب تھی جس میں اطاعت، لغزش، توبہ اور پھر ہدایت کے سفر کا عملی خاکہ موجود تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت دراصل ’’عملی تعلیم‘‘ ہے، جو انسان کی فطری کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اسے بار بار یاد دہانی کراتی ہے۔
انسان کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ غفلت میں پڑ جاتا ہے اور شیطان کے نازک وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ وہ احکامِ الٰہی کو بھلا بیٹھتا ہے اور نظامِ حیات سے کٹ کر گمراہی کی راہوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت کی ضرورت پڑی۔ نبوت وہ نسخہ ہے جو انسان کی اس کمزوری کا علاج کرتی ہے؛ وہ چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی بکھیر دیتا ہے؛ وہ انتباہ ہے جو بھٹکے ہوئے کو جگا دیتا ہے۔
آدمؑ کے تجربے کو دیکھئے: ایک مختصر لمحے کی لغزش ہوئی، شیطان نے چھلاوا دکھایا، قدم پھسل گئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ انسان کو ’’چھوڑ دینے کیلئے‘‘ نہیں بنایا گیا۔ وہ فوراً متوجہ ہوا، نادم ہوا، اور اس نے اعترافِ تقصیر کے ساتھ رب العالمین کی طرف رجوع کیا۔ یہی انسانیت کا اصل سرمایہ ہے، لغزش کے بعد رجوع۔ اور یہی نبوت کا مقصد ہے، انسان کو اس کے بھول جانے پر یاد دلانا، اس کے گرنے پر اٹھا دینا، اور اس کی غفلت کو بیداری میں بدل دینا۔
سیرتِ محمدیؐ انسانی ہدایت کا کامل نمونہ: انسانی تاریخ میں ہزاروں انبیاء آئے، ایسا ہر چراغ اپنی قوم کی تاریکیوں کو دور کرنے کیلئے بھیجا گیا۔ ہم ان پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر اتباع کے باب میں ہاتھ بندھے ہیں۔ کیوں ؟ اسلئے کہ اتباع اسی کی کی جاسکتی ہے جس کی زندگی مکمل، محفوظ اور بے داغ گواہی کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہو، اور خاتم النبیینؐ کی حیات ِ مبارکہ تاقیامت بنی نوع انسانی کے لئے ہدایت کا کامل نمونۂ حیات ہے، اور آپؐ کی کامل اتباع میں ہی ہماری کامیابی ہے، یہی بات سمجھنے اور دل میں اُتار لینے کی ہے۔