انسان اپنی تعریف کا نہایت شوقین اور تنقید سے نہایت ڈرنے والا واقع ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: August 25, 2025, 4:38 PM IST | Dr. Mujahid Nadwi | Mumbai
انسان اپنی تعریف کا نہایت شوقین اور تنقید سے نہایت ڈرنے والا واقع ہوا ہے۔
اللہ کے رسول کریمؐ اور صحابہ کرامؓ جب ہجرت کرکےمکہ سے مدینہ پہنچے، اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا، مکہ نہیں۔ اللہ کے رسول کریمؐ کی دلی خواہش تھی کہ قبلہ کعبہ بنے لیکن بعض روایات کے مطابق ۱۶؍ مہینے اور بعض کے مطابق ۱۷؍ مہینے تک اس سلسلے میں اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی حکم نہیں آیا۔ پھر ایک دن نماز میں رخ کعبہ کی طرف پھیر دینے کا حکم آیا۔ مدینے میں اس وقت تک منافقین کا ایک گروہ وجود میں آچکا تھا جو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔
اب جب قبلہ بدلنے کا حکم آیا اور ایک طرح سے اچانک آیا تو ان کے منہ سے زہر نکلنا ضروری تھا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:’’اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں ) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں : مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ‘‘(البقرۃ:۱۴۲)
قرآن مجید نے ’بیوقوف لوگ‘ یہ لفظ استعمال کرکے مسلمانوں پر یہ واضح کردیا کہ جب انسان صحیح راستے پر ہو، اللہ تعالیٰ اور نبی ؐ کے بتلائے ہوئے راستے پر چل رہا ہو تو پھر اس کو کسی کی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ یہی ایمان کا تقاضہ ہے۔ اسی بات کو سورۃ المائدۃ، آیت نمبر ۱۰۵؍ میں اللہ رب العزت نے بالکل دوٹوک انداز میں واضح کردیا چنانچہ فرمایا:
’’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:اپنی دنیا میں کھونے کے بجائے انسانیت کا درد محسوس کیجئے
یہ سارے احکامات اس لئے ہیں کہ نفسیاتی طورپر دیکھا جائے تو انسان دیگر انسانوں کی جانب سے ملنے والی تعریف کا نہایت شوقین اور ان کی تنقید سے نہایت ڈرنے والا واقع ہوا ہے۔ اگرچہ کہ دیگر انسانوں کی جانب سے ملنے والی تعریف اور تنقیدکچھ مواقع پر انسان کو اپنی شخصیت اوراپنے اعمال کو سدھارنے کا موقع فراہم کرتی ہیں لیکن ان دونوں کی جانب حد سے زیادہ توجہ دینا انسان کے اندر ایسی کمزوری پیداکرتا ہے جو اس کو زندگی میں کسی بھی میدان میں ترقی سے محروم کردیتی ہے۔
کسی نے سوشل میڈیا پر ایک بڑا ہی معنی خیز پیغام پوسٹ کیا تھا کہ: ہماری ساری زندگی اسی سوچ میں گزرجاتی ہے کہ ’لوگ کیا کہیں گے جبکہ لوگ اخیر میں ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ ہی کہتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں یعنی ہمیں اپنی ساری زندگی اس فکر میں نہیں گزارنی چاہئے کہ لوگوں کی رائے کیا ہوگی۔ یہی بات سکھانے کے لئے ایک عربی شاعر نے ایک بہت اچھی مثال دی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ :’’ مضبوط ارادے والا آدمی اس کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہتے ہیں، وہ اپنے عزائم کے حصول کے لئے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہوا چلتی ہے تو کاغذ اڑ جاتا ہے لیکن ہوا بلند وبالا پہاڑوں کو ہلانے سےعاجز رہتی ہے۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ لوگ جب ہماری تعریف کریں یا تنقید کریں تو ہمیں نہ تو اسے مکمل طور پر نظر انداز کرنا چاہئے اور نہ ہی اس کی وجہ سے جو کام کررہے ہیں اس سے یکسر ہٹ جانا چاہئے۔ یہ بات ہم مکمل وثوق کے ساتھ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریمؐ کا اسوہ اس سلسلے میں ہمیں یہی بات سکھلاتا ہے۔ جب آپؐ کو مکہ کے سردار دھمکی دینے آئے اور بیچ میں آپؐ کے چچا حضرت ابوطالب کو رکھا اور دین کی دعوت سے باز رہنے کی تلقین کی توآپؐ نے مکمل اعتماد کے ساتھ ان کی بات کو ردکیا اور فرمایا کہ:’’اگریہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے مقصد سے باز نہیں آؤں گا۔ ‘‘
یہ خود اعتمادی ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ جب ہم حق پر ہوں تو ہمیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ یعنی معاملہ ہمارے دل میں اطمینان کا ہے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے کا دھارا اس کے بالکل برعکس بہہ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں گناہوں پر جرأت اور ان کا کھلے عام مظاہرہ اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ ہم کسی بھی تنقید کو مکمل طور پر نظر اندازکرنے والے بنتے جارہے ہیں یہاں تک کہ اولاد اپنےو الدین کی جانب سے ملنے والی تنبیہ کو بھی اپنی آزادی پر حملہ تصور کرنے لگی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کی وجہ سے ضروری اور غیر ضروری، مناسب اور غیر مناسب ہر قسم کی تعریف، بھلے ہی ہم اس کےمستحق ہوں یا نہ ہوں، کے عادی بلکہ اس کے دیوانے ہوچکے ہیں چنانچہ معاشرے میں خودنمائی کی عادت پروان چڑھتی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں : ہم حق پر ہیں اور کوئی ہم پر تنقید کرتا ہے تو ہمیں پروا نہیں کرنی چاہئے۔ اگر معاملہ عام زندگی سے جڑا ہو، حق وباطل کی بات نہ ہو، اور اس صورت میں ہم پر تنقید ہو رہی ہو، یا ہم غلطی پر ہوں اور لوگوں کی تنقید ہماری اصلاح کے لئے ہو تو ہمیں فوری طور پر اس کو قبول کرنا چاہئے اوراپنی اصلاح کرنی چاہئے۔