Inquilab Logo

آثارِ قیامت میں سے چند باتیں

Updated: April 03, 2020, 5:17 PM IST | Imam Ghazali | Mumbai

 اس سے پہلے کہ دنیا کی عمر ختم ہو اور رئے زمین پر سے زندگی غائب ہو، بہت سی عجیب و غریب چیزیں واقع ہوں گی ۔ ان میں سے کچھ کا تعلق اس امت اسلامیہ سے ہوگا جسے دنیا کی ہدایت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اوراس نے اس کی ادائیگی میں کوتاہی کی، کچھ کا تعلق ان سارے ہی لوگوں سے ہوگا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا تھا لیکن انہوں نے خود اپنی پرستش کو ترجیح دی اور اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنالیا۔

Ù–Pilgrims in Masjid-e-Haram
مسجد حرم کا روح پرور منظر

 اس سے پہلے کہ دنیا کی عمر ختم ہو اور رئے زمین پر سے زندگی غائب ہو، بہت سی عجیب و غریب چیزیں واقع ہوں گی ۔ ان میں سے کچھ کا تعلق اس امت اسلامیہ سے ہوگا جسے دنیا کی ہدایت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اوراس نے اس کی ادائیگی میں کوتاہی کی، کچھ کا تعلق ان سارے ہی لوگوں سے ہوگا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا تھا لیکن انہوں نے خود اپنی پرستش کو ترجیح دی اور اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنالیا۔
 ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مادی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی، دولت عام ہوجائے گی اور آخری ہچکی لینے سے پہلے زمین اپنے اندر کی ساری چیزیں اگل دے گی کہ اب کس کے لئے ذخیرہ کررکھے گی؟ چنانچہ وہ سوناچاندسب کچھ اوپر پھینک دے گی لہٰذا عام لوگ بڑی بڑی بلڈنگیں بنانے  میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگیں گے اور عام لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوکر وہاں پہنچ جائے گا جس سے پہلے بادشاہ لوگ واقف ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہم نے یہی سمجھا ہے:
 ’’پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔‘‘ (سورہ یونس:۲۴)
 اور یہ قول: ’’اور جب زمین پھیلا دی جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے اُسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی ۔اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اُس کے لئے حق یہی ہے (کہ اس کی تعمیل کرے)۔ ‘‘   (انشقاق:۳۔۴) یعنی زمین اپنے رب کا حکم سنے گی اور اسے سننا ہی ہے، قیامت کی علامتوں  کے تعلق سے اس کی طرف حدیث شریف میں بھی اشارہ ہے کہ دولت اتنی ابل پڑے گی کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا اور یہ کہ چرواہے بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے، یا یہ کہ ننگے بھوکے افراد لوگوں کے سربراہ ہوجائیں گے۔
 بعض لوگوں کو اس سے وہم ہوتا ہے کہ اسلام غریبوں کی سربراہی کو ناپسند کرتا ہے  ۔ یہ بالکل غلط ہے۔ عرب جنہوں نے اسلامی تہذیب کی علمبرداری کی، غریب چرواہوں کے علاوہ کیا تھے؟ مراد یہ ہے کہ گھٹیا لوگ ذلیل ہتھکنڈے استعمال کرکے آگے بڑھ جائیں گے، یہی ہم نے دوسری حدیثوں سے سمجھا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں برپا ہوگی جب تک گندے، کمینے لوگ دنیا کے سب سے زیادہ خوش بخت نہ ہوجائیں ، یا ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک دنیا کے وارث تمہارے بدترین لوگ نہ ہوجائیں، ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک کوئی اللہ اللہ کہتا ہوگا۔
 حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا بگاڑ سب  بگاڑوں سے برا ہوتا ہے کیونکہ وہ برے لوگوں کو مواقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اخلاق و کردار کو تباہ کردیں اور جان و آبرو سے کھلواڑ کریں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ امت اسلامیہ میں یہ مصیبت دوسروں سے زیادہ عام ہوگی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے باتیں کررہے تھے کہ ایک شخص آیا اور سوال کر بیٹھا کہ قیامت کب ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات جاری رکھی۔  جب بات پوری ہوگئی تب آپ صلی اللہ نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کی جانے لگے تب قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ اس نے دریافت کیا کہ امانت کا ضائع کرنا کیسے ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب معاملہ نااہل کے سپرد کردیا جائے تب قیامت کا انتظار کرو۔
 اگرچہ اجتماعی و سیاسی غداریوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے تاہم یہ آخری زمانوں میں اور زیادہ عام ہوجائیں گی ، ایسے ایسے حکمراں بھی ملتے ہیں جن کا باپ گدھے کی سوار حاصل کرنے کی تمنائے خام لئے ہوئے مرگیا ، تقدیر نے اسے ایسا موقع فراہم کردیا کہ وہ ہوائی جہاز سے سفر کرنے لگا، پھر اس نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ اپنے بیٹوں پوتوں کے لئے مٹھائی لے کر بھی جہاز سے بھیجنے لگا، اور یہ سب قوم کے مال سے۔
 اسلام ایسےحکمرانوں سے کتنی اذیتوں سے دوچار ہوا۔
 قیامت کے قریب کچھ واقعات کی روایتیں آئی ہیں ۔ ان میں سے بعض کی ہم یہاں تشریح کرتے ہیں۔ ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ ہم مسلمان انہیں خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے  کہ ہماری کتاب کہتی ہے:
 ’’وہ (عیسٰی علیہ السلام) محض ایک (برگزیدہ) بندہ تھے جن پر ہم نے انعام فرمایا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لئے (اپنی قدرت کا) نمونہ بنایا تھا۔‘‘  (الزخرف:۵۹) پھر آتا ہے: ’’اور بیشک وہ (عیسٰی علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ) قیامت کی علامت ہوں گے، پس تم ہرگز اس میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘ (الزخرف:۶۱)  یہ اشارہ ہے قیامت سے ذرا پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میری امت کا ایک گروہ برابر حق کے لئے لڑتا رہے گا ، قیامت تک غالب رہے گا تب عیسیٰ بن مریم نازل ہوں ، مسلمانوں کا امیر ان سے عرض کرے گا کہ آئیے، ہماری امامت فرمائیے ۔ (حضرت) عیسیٰ فرمائیں گے نہیں، تم میں سے بعض بعض کے امیر رہیں گے اور یہ اس امت کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت افزائی ہے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آخری رسالت ہے اور حضرت عیسیٰ نئی چیز لے کر نہیں آئیں گے ۔
 قرآن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا انتقال ہوچکا ، وہ کسی جگہ زندہ موجود  ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں، لیکن اس میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کرے جیسے دوسرے بندوں کو زندہ کرچکا ہے تاکہ کوئی اہم کام انجام دیں۔
 قیامت سے پہلے دجال کے ظہور کی بھی  روایتیں ہیں ۔ یہ بہت سے دجالوں، نبوت کے جھوٹے دعویداروں اور خودساختہ مہدیوں کے اختتام پر سب سے بڑا دجال ہوگا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال نہ پیدا ہوں، جن میں ہر ایک خدا کا رسول ہونے کا مدعی ہو۔ آخری دجال یہودیوں میں سے ہوگا، اس کے پاس علم اور صلاحیت ہوگی، وہ غالباً خدائی کا دعویٰ کرے گا، اس طرح کا دعویٰ بہائیوں کا لیڈر بھی کرچکا ہے کہ جواس کا  انکار کرے وہ کفر کا مرتکب  ہوگا۔
 حدیث میں اس دجال سے آگاہ کیا گیا ہے  اور بتایا گیا ہے کہ کانا اور خوفناک شکل کا ہوگا۔
 ایک حدیث میں  آتا ہے کہ حضور خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا:  ’’میں اپنی امت کے سلسلے میں گمراہ کن اماموں سے خدشہ محسوس کرتا ہوں اور یہ کہ میری امت میں بیس بڑے جھوٹے ہوں گے جن میں ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا جب کہ (حقیقت یہ ہے کہ) میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘  گمراہ کن امام، ظالم خلفاء و حکمراں  و بادشاہ ہیں۔ ان کے ظہور کے ساتھ ہماری تاریخ میں انحراف شروع ہوا۔ علم اور حکومت یا دوسرے الفاظ میں سیاست اور علم الگ الگ ہوگئے، پھر دینی علوم بھی تقسیم ہوگئے۔  ایسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد آتی ہے کہ ’’قریب ہے کہ تم پر قومیں ٹوٹ پڑیں جیسے کھانےوالے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نہیں بلکہ تب تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر کے جھاگ جیسے ہوچکے ہوں گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا  رعب چھین لے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دے گا۔‘‘ عرض کیا گیا : کمزوری کیا ہوگی؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دُنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا۔‘‘ قیامت کی علامتوں میں سے مغرب سے سورج کا طلوع ہونا بھی ہے۔ حدیث میں ہے ’’قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجائے، جب وہ مغرب سے طلوع ہوجائے گا تو سارے لوگ ایمان لائیں گے لیکن تب کسی ایسے شخص کوایمان کا فائدہ نہیں پہنچے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔‘‘  آخر دنیا کی چمک دمک میں کھو کر وہ کیوں اپنے آقا کو نظرانداز کئے رہا ، کہیں امتحان ختم ہونے کے بعد بھی سوالات حل کرنے کی اجازت ملا کرتی ہے؟ اس فلکی انقلاب کے بعد نہ کسی منکر کا ایمان قابل قبول ہوسکتا ہے نہ کسی برائی کرنے والے کی بھلائی۔ قدرت کیلئے سورج کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جانا یا مغرب سے مشرق کی طرف لے جانا برابر ہے۔ فضائے کائنات میں کتنے سیارے محو گردش ہیں لیکن یہ سب تبھی تک ہے جب تک قدرت کی مشیت ہے ۔ ایک دن سب کو چراغ کی طرح گل ہوجانا ہے اور وہ دن کب آئے؟ جب قیامت برپا ہوگی: ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے۔‘‘ التکویر:۱۔۲

ترجمہ: ابومسعود اظہر ندوی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK