Inquilab Logo

ممتاز شاعر منور رانا کا انتقال، اُردو زبان اور اردو شاعری کیلئے بڑا خسارہ ہے

Updated: January 21, 2024, 3:15 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

اُردو زبان کے باکمال اور عالمی شہرت یافتہ شاعر منور راناکی رحلت اردو شاعری کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ان کا وصف خاص تھا۔

Munawwar Rana is no longer among us, but his voice, the voice of the people, will continue to reverberate in the society for a long time. Photo: INN
منور رانا اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی آواز ، عوام کی آواز بن کر سماج میں مدتوں گونجتی رہے گی۔ تصویر : آئی این این

اُردو زبان کے باکمال اور عالمی شہرت یافتہ شاعر منور راناکی رحلت اردو شاعری کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ان کا وصف خاص تھا۔ منور رانا کی شاعری زبان زد تھی بالخصوص ماں کے حوالے سے ان کے اشعار لازوال تھے اور ہر جگہ استعمال کئے جارہے تھے۔ معین شاداب لکھتے ہیں کہ ’’منور رانا نے `ماں `کے پاکیزہ موضوع کو اس قدر برتا ہے گویا انھوں نے اسے اپنے حق میں پیٹنٹ کرالیا ہے۔ ‘‘منور رانا کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ عوام کے احساسات، جذبات اور خیالات کو بڑے سلیقے سے شاعری میں برتتے تھے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مراٹھی اخبارات نے اردو کے اس عظیم شاعر کی وفات پر کیا کچھ لکھا ہے۔ 
لوک ستہ(۱۶؍جنوری)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’اے اہل سیاست یہ قدم رک نہیں سکتے:رک سکتے ہیں فنکار قلم رک نہیں سکتے۔ اس طرح عمر بھر تھوڑی بہت باغیانہ شاعری کرنے والے منور رانا دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اردو شاعری یعنی عشق و عاشقی کے قصیدے پڑھنالیکن شاعری کا یہ مزاج منور رانا کو منظور نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے شروع ہی سے اپنی ایک الگ راہ اپنائی تھی۔ ماں کی محبت، بہن کی الفت، معاشرے میں پھیلی نظریاتی تقسیم اور تقسیم وطن کا کرب جیسے موضوعات کو منور رانا نے اپنے منفرد لب و لہجہ سے جاوداں بنا دیا۔ انہیں اردو شاعری میں آفاقی پہچان ملی۔ دورسے توجہ مبذول کرانے والی سیاہ شیروانی، سرمے سے سجی آنکھیں، بنگالی پان سے رنگے ہونٹ اور ان لبوں پر دل سے نکلنے والے اشعار اب ہمیں سنائی نہیں دیں گے۔ تاہم منور رانا کی اتار چڑھاؤ سے بھری زندگی کے بے شمار قصوں کو بھلانا آسان نہیں ہوگا۔ جیسی ان کی شاعری موضوع بحث بنی ویسے ہی ان کا سیاسی موقف بھی سرخیوں میں رہا۔ منور رانا اور تنازعات کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔

یہ بھی پڑھئے: بلقیس بانو معاملے میں عدالت عظمیٰ کا گجرات حکومت کو زوردار طمانچہ

۲۰۲۲ء میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے قبل منور رانا نے کہا تھا کہ یوگی آدتیہ ناتھ دوبارہ وزیر اعلیٰ بنے تو میں یوپی میں نہیں رہوں گا۔ ان کے اس موقف پر خوب ہنگامہ ہوا تھا۔ ان کی قومیت پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے۔ اردو ادب میں منوررانا کی خدمات کے اعتراف میں ساہتیہ اکاڈمی نے انہیں ۲۰۱۴ میں ایوارڈ سے نوازا تھا۔ ۲۰۱۲ میں ماٹی رتن سمان بھی تفویض کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے ۲۰۱۵ میں عدم رواداری کا مسئلہ اٹھایا۔ اتر پردیش کے دادری میں ہونے والی ماب لنچنگ میں اخلاق احمد کی موت کے بعد منور رانا نے ایک نیوز چینل پر لائیو بحث کے دوران اپنا ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ واپس کرنے اور آئندہ کسی بھی سرکاری ایوارڈ قبول نہیں کرنے کا اعلان کیا تھا اور اسے عمر بھر نبھایا۔ اخیر عمر میں منور رانا کو کئی بیماریوں نے گھیر لیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ موت برحق ہے اسی لئے انہوں نے پہلے ہی سے اپنی موت کے بارے میں لکھا تھا کہ ہم سے محبت کرنے والے روتے ہی رہ جائیں گے:ہم جو کسی دن سوئے تو سوتے ہی رہ جائیں گے۔ ‘‘
مہاراشٹر ٹائمز(۱۶-جنوری)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’ماں سے متعلق کن الفاظ میں اظہار خیال کیا جائے، یہ سوال اچھے اچھے ادیبوں کو پریشان کرتا ہے۔ یہی سوال عام آدمی کیلئے بھی اہم ہے۔ اس کے باوجود چند باصلاحیت لوگوں کی تحریروں میں ماں کیلئے کچھ اس طرح محبت کا اظہار ملتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا جو جذبات شاعر یا نثر نگار کے ہیں، وہی میرے احساسات ہیں۔ کچھ ایسی ہی صلاحیتوں کے مالک عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کے بھی ہیں۔ اردو کے غزل گو شاعر منور رانا اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی: میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی۔ جب یہ شعر زبان زد ہو گیا تو گھر کے تمام چھوٹے بھائیوں کو محسوس ہوا کہ شاعر نے اپنے نہیں بلکہ ان کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ `میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو:مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا۔ جب منور رانا نے یہ شعر تخلیق کیا تو ماں کی ممتا کو یاد کرکے ہر چھوٹے بڑے کی آنکھیں اشک بار ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اپنی غزلوں کے ذریعے ماں کی محبت اور الفت کو ایک الگ اونچائی پر پہنچایا اور بہتوں کو اس کا احساس دلایا۔ لتا دیدی کے بے حد اصرار پر اُن کے والد دینا ناتھ منگیشکر کیلئے `بابا کے عنوان سے انہوں نے ایک خوب صورت نظم لکھی تھی جو کافی مشہور ہوئی۔ ان کی شاعری میں وطن عزیز کی تقسیم کا درد اور کرب بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ بہت کم شاعر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے حقیقت پسندی سے کام لیا۔ منور رانا نے اپنے قلم کے ذریعہ معاشرے کے مفلس اور دبے کچلے طبقے کی آواز بن کر بے انصافیوں کے خلاف بغاوت کرنے کی جسارت کی ہے۔ منور رانا عرصہ دراز تک یاد رکھے جائیں گے۔ ‘‘
ایک مت(۱۷ ؍جنوری)
 اخبار لکھتا ہے کہ ’’ منفرد لب ولہجہ کے معروف شاعر منور رانا کا انتقال اردو زبان و ادب کیلئے بڑانقصان ہے۔ ماں کے حوالے سے اپنی الگ پہچان بنانے والے منور رانا نے باغیانہ شاعری بھی کی ہے۔ سماجی ناہمواری اور اقتدار سے محرومیوں کا درد اُن کی شاعری کی ایک خاص پہچان ہے۔ ہجر، جدائی، غم، محبت اور خوشی ہر موضوع پر انہوں نے شاعری کی ہے اور لوگوں کی آواز بن کر ابھرے ہیں۔ اہل سیاست کی ضمیر فروشی اور منافقت کا پردہ فاش کرنے میں انہوں نے جس بے باکی اور جرأت مندی سے کام لیا ہے، وہ بہت کم لوگوں کے یہاں دیکھنے میں آتی ہے۔ `ایک آنسو بھی حکومت کیلئے خطرہ ہے:تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا۔ منور رانا کی زندگی کئی طوفانی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بابری مسجد سےمتعلق عدالتی فیصلے پر ان کی جارحانہ رائے اور طالبان کے ساتھ تقابل پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں انہوں نے عدم رواداری کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی تھی اوراپنا ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ بھی واپس کردیا تھا۔ شاعری میں انسانی جذبات کو لفظوں میں ڈھال کر انسانیت کا پیغام دینے والے منور رانا اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK