Inquilab Logo

ملائم سنگھ کا رخصت ہونا اور اپوزیشن کا اتحاد

Updated: October 18, 2022, 12:57 PM IST | Hassan Kamal | Mumbai

اس میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ ملائم سنگھ ایک بڑے اور یوپی کی حد تک بے حد مقبول اور عوامی لیڈر تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا نام یو پی کے باہر اس لئے کبھی نہیں لیا جا سکا کہ وہ لالو پرساد اور ممتا دیدی کی طرح کبھی یوپی سے باہرنہیں نکل سکے۔

Mulayam Singh Yadav .Picture:INN
ملائم سنگھ ۔ تصویر:آئی این این

ملائم سنگھ کا اس دنیا سے رخصت ہونا، اس ملک کی سیاست کا ایک بہت عظیم نقصان ہے۔ ویسے اس ملک کی مروجہ سیاست میں پہلے کانگریس اور اب بی جے پی کے علاوہ کسی اور لیڈر کی موت یا بات کا ویسا اثر نہیں لیا جاتااوردیگر دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی موت کو ایک صوبہ یا کسی ایک علاقہ کی موت ہی سمجھا جاتا ہے۔لیکن ہم اسے بہر حال ایک بڑا واقعہ ہی سمجھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملائم سنگھ کو ہم اس ملک کی سیاسی آزادی کے لیڈروں کے بعد آنے والے ان سیاسی رہنمائوں کے سلسلہ کی وہ کڑی سمجھتے ہیں ، جن کا تعلق اس سے پہلے نہ کسی سیاسی بڑی ہستی کے خاندان یا کنبہ سے تھا، نہ ہی وہ چند دوسرے لیڈروں کی طرح کسی مالدار یا زمیندار گھرانے سے تھے۔ وہ ایک ٹیچر تھے اور انہیں پہلوانی کرنے کا بڑا شوق بھی تھا۔  یہ صحیح ہے کہ وہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی سماج وادی سے ضرور متفق تھے، جو یہ سمجھتے تھے کہ پڑھے لکھے متوسط طبقہ کے لوگوں کو یہ ضرور جان لینا چاہئے کہ وہ اب تک سماجی ترقی کی دوڑ میں کیوںپیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں وہ زمانہ بہت اچھی طرح یاد ہے جب وہ مشرقی یو پی کے ایک پچھڑے ہوئے علاقہ سے منتخب ہو کر یو پی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ اس وقت نارائن دت تیواری یوپی کے چیف منسٹر ہوا کرتے تھے۔ جس دن یو پی اسمبلی میں ملائم سنگھ کا بھاشن ہونے والا ہوتا تھا، اس دن تمام کانگریسی سنبھلے سنبھلے رہتے کہ نہ جانے آج ملائم سنگھ کے بھاشن کا رخ کس کی طرف ہوجائے۔ اس کے بعد ان کے عروج کا زمانہ بھی شروع ہوا اور وہ تین بار یوپی کے چیف منسٹر بھی بنے۔مرکز میں وزیر دفاع بھی رہے اور وہ اس وقت بھی یوپی کے چیف منسٹر ہی تھے۔  اس میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ ملائم سنگھ ایک بڑے اور یوپی کی حد تک بے حد مقبول اور عوامی لیڈر تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا نام یو پی کے باہر اس لئے کبھی نہیں لیا جا سکا کہ وہ لالو پرساد اور ممتا دیدی کی طرح کبھی یوپی سے باہرنہیں نکلے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ وہ ڈاکٹرلوہیا کی سماج وادی تحریک سے بہت متاثر تھے، لیکن انہوں نے لالو یادو کی طرح کبھی او بی سی کے کاز کی کھلی حمایت نہیں کی۔ ان کے یو پی سے باہر نہ جانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی۔ ہر مقبول عام لیڈر کی طرح اگر چہ ان کی مقبولیت ان کی بے حد کٹھن اور دانشمندانہ لیڈر شپ کی مرہون منت تھی تو ان کی دوستوں کے انتخاب کی کمی بھی ایک وجہ تھی۔  وی پی سنگھ  ان کے بہت قریب آئے، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ دونوں کبھی ایک دوسرے کو زیادہ پسند نہیں کرتے  تھے۔ ہمیں ذاتی طور پر معلوم ہے کہ لالو یادو نے بھی انہیں قریب رکھنا چاہا لیکن یہ معاملہ بھی زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ پھر انہوں نے نہ جانے کب اور کیوں امر سنگھ کو اپنا دوست چنا۔ انہو ںنے ملائم سنگھ کو کیا کچھ دیا،یہ جاننے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، لیکن ان کی وجہ سے ملائم سنگھ کے چند بہت کارآمد دوست ان سے جدا ہوگئے ۔ انہیں کی وجہ سے ملائم سنگھ کے بہت مضبوط خاندان و رشتہ داروں میں کئی مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شیو پال یادو اور اکھلیش یادو میں ان کی ہی وجہ سے دوریاں پیدا ہوئی تھیں۔ ملائم سنگھ اور بہن جی کی دوریاں بھی اسی دوستی کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں، بلکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ ملائم سنگھ کو ایجنسیوں کے جال میں الجھانے میں انہیں کا ہاتھ تھا۔ کہاجاتا ہے کہ ملائم سنگھ نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا تھا لیکن  امرسنگھ نے ان سے چند کام ایسے ضرور کروالئے تھے جن کی وجہ سے وہ ایجنسیوں کے نشانے پر آگئے تھے۔ پھر امرسنگھ نے ہی انہیں یہ کہہ کر بچایابھی تھا کہ مودی سے ان کے اچھے تعلقات ہیں اور وہ معاملہ درست کروا دینگے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملائم سنگھ کی اینٹی کانگریس پالیسیاں بھی اسی دوستی کا نتیجہ تھیں۔ ایک بار تو انہوں نے ملائم سنگھ سے سونیا گاندھی کی مخالفت بھی کروادی تھی جس کے بعد  اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم بن گئے تھے۔ اب چونکہ ملائم سنگھ یادو بھی نہیں رہے اور امر سنگھ بھی نہیں ہیں، اس لئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ راہل کے خلاف اکھلیش کی مخالفت کچھ کم ہوجائے گی۔کیونکہ ماضی  میں جب راہل، اکھلیش  اور جینت ایک ساتھ آئے تھے تو ملائم سنگھ نے اسے بہت پسند نہیں کیا تھا۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ اب اپوزیشن کے اتحاد کا پودا پروان چڑھ سکتا ہے؟ موجودہ حالات میں یہ اتحاد بہت ضروری ہے۔ اب ان تمام معاملات کو راہل کی پدیاترا کی طرف لانے کا ایک واقعاتی مقصد بھی ہے کہ یہ یاترا اس وقت ملک کی سیاست کا اہم ترین  نقطہ ہے۔ بات تھوڑی عجیب لگ سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ ملائم سنگھ کے جانے کے بعدراہل کی پد یاترا کے بارے  میں کچھ بہتر اور معقول اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ راہل گاندھی اور کسی حد تک سونیا گاندھی کے بارے میں  اپوزیشن کے  خیالات بڑی حد تک متروک بھی ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بات بہت اچھی طرح جانی جاتی ہے کہ ممتا دیدی بھی اب کانگریس کی قیادت کے بارے میں زیادہ باتیں نہیں کرتیں۔ یہ بھی طے ہے کہ وہ آج سے نہیں ایک عرصہ سے سونیا گاندھی کی قیادت سے خوش نہیں تھیں، اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے راہل گاندھی کی قیادت کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا ۔ انہیں اب یہ محسوس ہو رہاہے کہ مغربی بنگال میں ان کی قیادت کا چیلنج کانگریس یا سی پی ایم نہیں ہے بلکہ بی جے پی ہی ہے۔ یہی حال تلنگانہ میں کے سی آر کا بھی ہے۔ ان کی تلنگانہ صوبے کی مانگ کا کانگریس کے اندر بھی بہت زیادہ ذکر نہیں تھا، صرف سونیا نے ان کی قیادت کی تھی۔ اس کے لئے انہوں نے سونیاگاندھی کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ اب انہیں بھی معلوم ہوگیا ہے کہ اکالی دل اور شیو سینا کو توڑنے میں بی جے پی کا ہی ہاتھ رہا ہے اور یہی بی جے پی ان کی پارٹی کا بھی وہی حال کر سکتی ہے۔نتیش کمار کو بھی معلوم ہے کہ بی جے پی سے الگ ہونے کے باوجود اب ان کی بھی نیّا صرف کانگریس ہی پار لگاسکتی ہے۔ ان تمام حالات کے بعد یہ ملائم سنگھ ہی تھے جو اپوزیشن کے اس کھلے اتحاد کیلئے غرقابی کا ذریعہ بن سکتے تھے۔ اس کے علاوہ شرد پوار بھی ایک اہم اپوزیشن لیڈر ہیں۔ لیکن خبریں شاہد ہیں  کہ تلنگانہ سے راہل کی یاترا جب شہر ناندیڑ میں داخل ہوگی تو وہ خود اس کا خیر مقدم کرینگے۔ ظاہر ہے یہ سب باتیں صرف اس لئے بی جے پی کو بہت سخت معلوم ہو رہی ہیں کہ ہماچل اورگجرات کا الیکشن قریب ہے، لیکن اس بار گجرات اور ہماچل  دونوں، بی جے پی کیلئے سہل نہیں ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK