Inquilab Logo

نبی کریم ﷺ کی منیٰ کیلئے روانگی، خطبہ ٔحجۃ الوداع اور تکمیل دین کی خوشخبری

Updated: March 22, 2024, 12:29 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں آج بھی آپ ؐ کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں آپؐ کے منیٰ میں قیام، نمازوں کی ادائیگی، حجۃ الوداع کا خطبہ اور تکمیل دین کی نوید سنانے والی آیت کے نزول کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔

حج کا اہم رکن رکن میدان عرفات میں حجاج کا قیام ہوتا ہے لیکن حج کے علاوہ اس دن میں زائرین میدان عرفات اور جبل رحمت کی زیارت کیلئے ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این
حج کا اہم رکن میدان عرفات میں حجاج کا قیام ہوتا ہے لیکن حج کے علاوہ دنوں میں بھی زائرین میدان عرفات اور جبل رحمت کی زیارت کیلئے ضرور جاتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

عمرہ کی ادائیگی
(گزشتہ سے پیوستہ)صفا پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہٰذا جو شخص بھی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس کے لیے اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ ان کے درمیان چکر لگائے۔ ‘‘(البقرۃ: ۱۵۸) اور بہ طور نیت یہ الفاظ کہے: وابداء بما بدأ اللّٰہ بہ، صفا پہاڑی پڑ چڑھ کر آپ قبلہ رخ ہوئے، بیت اللہ کو دیکھ کر آپ نے تکبیر کہی اور یہ دُعا پڑھی(ترجمہ) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو تنہا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، اسی لئے کہ اقتدار ہے، اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی اور لشکروں کو تنہا شکست دی۔ ‘‘ اس کے بعد کچھ دیر تک آپؐ دعا میں مشغول رہے، پھر مروہ کی طرف بڑھے، بطن وادی میں پہنچ کر آپؐ کی رفتار تیز ہوگئی، کچھ دور چل کر آپؐ معمول کی رفتار سے چلنے لگے، مروہ پر بھی وہی عمل کیا جو صفا پر کیا تھا، آپ کی سعی کا اختتام مروہ پر پہنچ کر ہوا۔ (صحیح مسلم: ۲/۸۸۶، رقم الحدیث: ۱۲۱۸) 
منیٰ کے لئے روانگی
عمرہ سے فارغ ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام اِبْطَح میں تشریف لے گئے، یہاں آپؐ کے لیے ایک خیمہ لگایا گیا تھا، اس خیمے میں آپؐ نے چار دن قیام فرمایا، اور اسی میں تمام نمازیں ادا فرمائیں۔ تمام نمازوں میں آپؐ نے قصر فرمایا، یہاں تک کہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ شروع ہوگئی، اسے یوم الترویہ کہتے ہیں۔ جمعرات کے دن چاشت کے وقت آپ تمام مسلمانوں کے ساتھ منی روانہ ہوئے، اس دن کی نمازیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور نویں تاریخ کی فجر آپؐ نے منیٰ ہی میں پڑھی، جن لوگوں نے عمرہ کرکے احرام کھول دیا تھا انہوں نے اپنی قیام گاہوں سے دوبارہ احرام باندھا، یہ احرام حج کے لئے تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: حجۃ الوداع کے مزید نام حجۃ الاسلام ، حجۃ التمام اور حجۃ البلاغ ہیں

نو ذی الحجہ کو جمعہ کے دن جب سورج طلوع ہوگیا آپؐ عرفات تشریف لے گئے، مسجد نمرہ کے قریب آپ کے لئے ایک خیمہ ایستادہ کیا گیا تھا، آپؐ نے اس میں زوال تک قیام فرمایا: اس کے بعد آپؐ اپنی اونٹنی قصواء پر تشریف فرما ہوئے اور جبل رحمت پر پہنچ کر خطبہ ارشاد فرمایا، یہ خطبہ؛ خطبۂ حجۃ الوداع کہلاتا ہے، یہ ایک اہم تاریخی دستاویز ہے، اسے ہم حقوق انسانی کا چارٹر بھی کہہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا ہے۔ ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘‘ میں انہوں نے ایک مستقل باب کے تحت اس خطبے کی تمام شقوں کو حدیث اور تاریخ کی کتابوں کی مدد سے جمع کیا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں ’’نو ذی الحجہ سن دس ہجری کو جبل الرحمۃ پر کھڑے ہوکر میدان عرفات میں موجود ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں سے جو خطاب آپؐ نے فرمایا تھا اسے خوش قسمتی سے تاریخ نے محفوظ رکھا ہے، اس خطاب کو انسانیت کا منشور اعظم کہا جاسکتا ہے۔ (رسول اللہ کی سیاسی زندگی ص:۳۰۲) 
حجۃ الوداع کا خطبہ
جیسا کہ عرض کیا گیا حجۃ الوداع کا خطبہ آپ ﷺ نے میدان عرفات میں جبل رحمت پر ارشاد فرمایا، آپؐ اس وقت اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھے۔ حضرت خالد بن عداء روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفہ کے دن خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا، آپؐ اس وقت اونٹنی کی دونوں رکابوں پر کھڑے ہوئے تھے۔ 
حمد وثنا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! میری بات سنو میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد اس جگہ میں تم سے مل پاؤں گا یا نہیں، لوگو! تمہارے خون اور تمہارے اموال ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہیں جس طرح آج کے اس دن اور اس مہینے کی حرمت ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملو۔ اور تم عنقریب اپنے رب سے ملوگے، پس وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ میں نے (آپ تک) یہ بات پہنچادی، لہٰذا جس کے پاس کسی کی امانت ہو، وہ امانت اس کے مالک تک پہنچا دے۔ جاہلیت کے تمام سود باطل کردئیے گئے، البتہ اصل راس المال لے سکتے ہو، تاکہ نہ تم دوسروں پر ظلم کرو اور نہ تم پرظلم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ سود باطل ہے۔ عباس بن عبدالمطلب کا سود بھی باطل ہے۔ زمانہ ٔجاہلیت کے تمام خون باطل کردئیے گئے اور سب سے پہلے میں ( اپنے ہی خاندان کے ایک فرد ) ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب کے بیٹے کا خون معاف کرتاہوں۔ 
لوگو! شیطان اس بات سے اب مایوس ہوچکا ہے کہ تمہاری اس سرزمین میں اس کی عبادت کی جائیگی، لیکن عبادت کے علاوہ دوسرے چھوٹے اعمال میں اگر اسکی پیروی کی گئی تو وہ اس پر بھی راضی رہے گا، لہٰذا پنے دین کے سلسلہ میں اس سے بچتے رہنا۔ 
لوگو! نسئی ( مہینوں کو آگے پیچھے کرنا) کفر میں زیادتی کا سبب ہے۔ اس کے ذریعے کافر گمراہ ہوتے ہیں، وہ ایک سال حرام مہینوں کو حلال کرلیتے اور دوسرے سال انہی کو حرام قرار دے دیتے تھے تاکہ اس طرح وہ اشہر حرم کی گنتی پوری کریں، چنانچہ وہ ان مہینوں کو حلال کردیتے تھے جن کو اللہ نے حرام کیاہے اور جن مہینوں کو اللہ نے حلال کیاہے ان کو حرام قراردیتے تھے۔ لیکن اب زمانہ اپنی اس ابتدائی حالت پر لوٹ آیا ہے جس پر وہ اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا فرمایا تھا، اللہ کے ہاں سال کے بارہ مہینے ہیں، ان میں چار حرمت والے ہیں، تین مسلسل ہیں (یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) اور ایک ماہ رجب ہے جس کا قبیلۂ مضر خاص احترام کرتا ہے، جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔ 
لوگو! تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح تم پر ان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کو تمہارے بستر پر نہ بیٹھنے دیں جسے تم پسند نہ کرتے ہو، اور یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا کام نہ کریں۔ عورتوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کے ہمیشہ پابند رہو کیوں کہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کے ذریعے ان کو اپنے لئے جائز وحلال کیاہے۔ 
لوگو!میری بات سمجھو، میں تم میں ایسی چیز چھوڑ رہاہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑلیا تو تم گمراہ نہ ہوگے، وہ چیز کتاب اللہ اورمیری سنت ہے۔ 
لوگو! میری با ت سنو اور سمجھو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے اورسب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں، لہٰذا کسی آدمی کے لئے اپنے بھائی کا مال حلال نہیں ا لا ّیہ کہ وہ اپنے نفس کی خوشی سے دے، پس تم اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/۴۶۶، بحوالہ کشف الباری: ۸/۶۲۸) 
تکمیل دین کی خوش خبری
ابھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبل رحمت کے قریب اونٹنی پر سوار ہیں اور خطبے سے فارغ ہوئے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: ’’آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لیے پسند کرلیا۔ ‘‘ (المائدۃ: ۳) 
اس آیت میں تمام مسلمانوں کو زبان رسالت کے ذریعے یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ جو دین تئیس برس قبل مکہ مکرمہ میں پہلی وحی کے نزول کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ اب پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، یہ دین اللہ رب العزت کا اپنے بندوں کے لیے ایک انعام ہے، اس طرح آج یہ انعام بھی پورا ہوچکا ہے، اور کیوں کہ یہ اللہ رب العزت کا پسندیدہ دین ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والوں کے لئے یہ دین پسند کرلیا ہے، اب اخروی نجات اسی پر موقوف ہے، باقی تمام ادیان منسوخ ہوچکے ہیں، ختم ہوچکے ہیں، مفسرین نے تکمیل دین کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرائض، حدود، حلال اور حرام کے متعلق تمام احکام نازل کردیئے ہیں، اب کوئی نیا حکم نازل ہونے والا نہیں ہے، چنانچہ اس آیت کے بعد کوئی آیت احکام سے متعلق نازل نہیں ہوئی۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت میں تکمیل دین سے مراد اسلام کی سربلندی اور عزت اور شرک وکفر کی ذلت ورسوائی ہے، آج کے دن اسلام کو وہ عروج نصیب ہوا جو کبھی نہ ہوا تھا اور شرک کو وہ ذلت ملی جس کا اہل شرک کو تصور بھی نہ تھا۔ تکمیل دین کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اب یہ شریعت کسی نئے دین سے منسوخ ہونے والی نہیں ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت سے منسوخ ہوگئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے منسوخ ہوگئی، اسلام بہ طور دین اور بہ طور شریعت قیامت تک باقی رہنے والا دین ہے۔ 
جس طرح اس آیت کا مفہوم عظیم الشان ہے، اسی طرح اس کے نزول کی کیفیت بھی ایک خاص امتیاز اور شان کی حامل ہے، چناں چہ یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی، یہ دن سال کے تمام دنوں کے مقابلے میں زیادہ مبارک ومسعود ہے، اسی لئے اس دن کو سید الایام (دنوں کا سردار) کہا جاتا ہے، جمعہ کا دن ہے، جس کی بڑی فضیلتیں ہیں، جس جگہ یہ آیت نازل ہورہی ہے وہ عرفات کا میدان ہے، اس میدان میں بھی وہ جگہ ہے جسے جبلِ رحمت کہا جاتا ہے، اور جہاں یوم عرفہ میں خاص طور پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، عصر کے بعد کا وقت ہے، جو دعاؤں کی قبولیت کے لئے بڑا اہم سمجھا جاتا ہے، جمعہ کے دن تو اس وقت کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ اس وقت دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں اور رحمت حق اپنے بندوں کی طرف متوجہ رہتی ہے، پھر یہ بھی دیکھئے کہ آیت کا نزول اس وقت ہورہا ہے جب لاکھوں مسلمان فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے میدان عرفات میں جمع ہیں اور سب کے قلوب اللہ رب العزت کی طرف متوجہ ہیں، اس عظیم الشان اجتماع میں سید الانبیاء اور خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما ہیں، گویا جگہ بھی مبارک، دن بھی مبارک، وقت بھی مبارک، اجتماع بھی مبارک، اگر کسی چیز میں اتنی برکتیں جنمع ہوجائیں تو وہ چیز کتنی مبارک کتنی اہمیت کی حامل اور کس قدر عظیم الشان ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۳/۲۶، زاد المسیر: ۱/۵۱۳) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK