Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھکتوں کی عقیدت اور حالات کی حقیقت

Updated: June 14, 2020, 10:14 AM IST | Aakar Patel

بھکتوں کو اب بھی یقین ہے کہ وزیر اعظم مودی میں حالات کو بہتری پر گامزن او رمستحکم کرنے کی صلاحیت ہے مگر وہ چاہے معیشت ہو یا کورونا کی وباء سے نمٹنے کی صلاحیت، حقیقت حال کچھ اور ہے۔

Bhakt - Pic : INN
بھکت ۔ تصویر : آئی این این

بھکت کا معنی ہے عقیدتمند۔ ایسا شخص جو کسی فرد یا کسی شے کے تعلق سے جذباتی اور پُرجوش ہو۔ ہندی میں ایسے شخص کو انوراگی کہا گیا ہے یعنی وہ شخص جو غیر مشروط اور غیر فانی محبت و عقیدت کا مظاہرہ کرے۔ لفظ ’’بھکت‘‘ وزیر اعظم مودی کے مداحوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اس خیال کے حامل ہیں کہ وہ (مودی) مسیحا ہیں اور ملک کو جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ اُن کے دم خم سے برپا ہوسکتی ہے۔ اس طرح کا انداز فکر رکھنے والوں کے نزدیک وطن عزیز کی ترقی کچھ بدعنوان اور نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے رُکی ہوئی تھی جبکہ مودی ایسے تمام سیاستدانوں سے بالکل الگ ہیں جن میں صورتحال کو یکسر بدل دینے کی صلاحیت ہے چنانچہ اُن کی قیادت اور سرپرستی میں وطن عزیز ایک بار پھر عظیم بن سکتا ہے۔
 مَیں نے جو لفظ استعمال کیا وہ انداز فکر ہے مگر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس بھکتی کا فکر، سوچ یا سوجھ بوجھ سے کوئی علاقہ ہے۔ عقیدت عقل و ذہن یا سوچ اور فکر کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق مذہب سے بھی ہوتا ہے اور مذہب کی طرح، یہاں جو بھکت ہے وہ مادی دُنیا کے تعلق سے فکرمند نہیں ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جاننا چاہتا کہ حقیقی دُنیا میں کیا ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مودی کے عقیدتمندوں اور مداحوں کو بھکت کہنا درست ہے؟ 
 آئیے اس کا معروضی جائزہ لیتے چلیں: 
 گجرات ماڈل کے ایجنڈا کی پہلی چیز معیشت تھی۔ اکنامی۔ ہندوستانی معیشت اس سال سکڑ جائے گی یعنی اس کا جی ڈی پی سال ۲۱۔۲۰۲۰ء میں کم ہوجائیگا۔ یہ ایسی چیز ہے جو گزشتہ چار دہائیوں میں کبھی نہیں ہوئی۔ معیشت کا اس طرح سکڑنا یا محدود تر ہونا ایسے وقت میں ہورہا ہے جب معیشت سست رفتاری کا شکار ہے اور گزشتہ ۹؍ سہ ماہیوں میں اس کی رفتار فکروتشویش کا باعث بنی ہے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ 
 یہ لاک ڈاؤن سے پہلے کی صورتحال ہے۔
 ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے حال ہی میں ملک کو معاشی اعتبار سے اُسی خانے میں رکھ دیا ہے جہاں وہ ۲۰۰۳ء میں تھا۔ اس کی وجہ سے ہماری معاشی ساکھ متاثر ہوگی اور ہماری وہ قدروقیمت بھی،  جس کی بنیاد پر ہم سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ اسکول کے رپورٹ کارڈ پر لگنے والی سرخ نشان جیسی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ہمیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ 
 حکومت کے معاشی مشیر (چیف اکنامک ایڈوائزر) کا کہنا ہے کہ اُنہیں سال کے دوسرے حصے میں یا آئندہ سال کے دوران معیشت کی بحالی کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اُنہیں اس دورانیہ میں بحالی کی اُمید نہیں ہے۔ جہاں تک بے روزگاری کا تعلق ہے، وہ سال کی ابتداء میں ۸؍ فیصد تھی جو کہ ملک کی تاریخ کی سب سے زیادہ شرح تھی۔ یہ بھی لاک ڈاؤن سے پہلے کی صورتحال ہے۔ اب یہ (شرح بے روزگاری) ۲۰؍ فیصد ہے۔ 
 سنیچر، ۱۳؍ جون کو اکنامسٹ کی سرخی تھی: ’’ہندوستان کا لاک ڈاؤن وائرس کو روکنے میں ناکام مگر معیشت کو روکنے میں کامیاب‘‘۔ یہ وہ جریدہ ہے جو ماضی میں وزیر اعظم مودی کے بارے میں صحیح اندازہ قائم کرچکا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں اس نے پیش گوئی کی تھی کہ مودی اُترپردیش سے الیکشن لڑیں گے۔ اُس وقت میں نے لکھا تھا کہ یہ اندازہ غلط ثابت ہوگا۔ میرا خیال تھا کہ مودی گجرات سے الیکشن لڑیں گے۔ مگر مَیں غلط ثابت ہوا تھا۔ 
 مودی کے ایجنڈے کا دوسرا نکتہ قوم پرستی (نیشنلزم) تھا۔ برطانوی اخبار ’’ٹیلیگراف‘‘ نے جمعرات کو جو انکشاف کیا اس کے بارے میں سارے ہم وطن جانتے ہیں مگر کوئی اس پر تبادلۂ خیال نہیں کررہا ہے۔ وہ یہ کہ چین نے لداخ کے ۶۰؍ مربع کلومیٹر کے رقبے میں داخل ہوگیا ہے۔ جمعہ کو فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے خطہ میں تعینات سینئر ملٹری افسروں کی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ کہ ’’چینی فوج، پینگانگ اور گلوان کی وادی میں پیچھے ہٹنے سے انکار کررہی ہے اور موجودہ پوزیشن مستحکم کرنے پر مصر ہے۔‘‘ 
 سنیچر کو صبح کے اخبارات کی ورق گردانی کرتے ہوئے مَیں ایک خبر پر رُک گیا۔ لکھا تھا: ’’کلگام اور اننت ناگ میں جاری مڈ بھیڑ میں ۴؍ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘ یہ ایک ہفتے میں اپنی نوعیت کا چوتھا واقعہ تھا۔ ۲۰۰۲ ءسے ہونے والی اموات میں ۲۰۱۴ء کے آس پاس جو کمی آئی تھی وہ صورتحال اب یکسر بدل گئی ہے۔ اب اس  میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس دوران ایک بھی کشمیری پنڈت لوٹ کر وادی میں نہیں آیا ہے۔ 
 پاکستان کے ساتھ ہماری جو لائن آف کنٹرول ہے وہ جیسی تھی ویسی ہی ہے لیکن چین کے ساتھ جو لائن آف کنٹرول ہے، چینی فوجی اس کے آگے بڑھ چکے ہیں۔ 
 اِس اعلان کے بعدکہ وزیر اعظم کی قیادت میں ملک کورونا کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑے گا جو تین ہفتے جاری رہے گی، وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کرلی ہے اور یہ نہیں بتارہے ہیں کہ کورونا کے خلاف اب ہماری جنگ کس انداز میں جاری رہے گی۔ لاک ڈاؤن ختم ہوچکا ہے جبکہ متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ جیسا کہ بہت سے تجزیہ کاروں نے لکھا ہے، مودی کے اقتدار میں گجرات نے صحت عامہ اور تعلیم جیسے شعبوں پر بالکل توجہ نہیں دی تھی۔ (اس کا نتیجہ ہے کہ) آج گجرات میں کورونا کے متاثرین کی تعداد کیرالا کے متاثرین سے ۱۰؍ گنا زیادہ ہے۔ 
 اب، ایسا لگتا ہے کہ کئی معاملات میں ہندوستان کے پیچھے ہوتے چلے جانے کی حقیقت سے بوکھلا کر وزیراعظم مودی نے سیاسی محاذ دوبارہ سنبھال لیا ہے۔ کورونا کی وباء پھیلنے لگی تھی تب مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت کو بے دخل کیا گیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اسی راستے پر راجستھان بھی جارہا ہے۔ اس منظرنامے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی طاقت ہی واحد مقصد ہے۔ اس طاقت سے کچھ اور حاصل کرنے کی بات شاید سوچی ہی نہیں جارہی ہے۔ 
 یہ ہمارے ملک کی اصل تصویر ہے جبکہ مودی کو اقتدار میں آئے ہوئے چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مسیحا سمجھنے جانے والے لیڈر کیلئے چھ سال کا عرصہ حالات میں معجزاتی تبدیلی کیلئے کافی ہونا چاہئے تھا۔ اگر اُنہوں نے مستحکم اور خوشگوار تبدیلی کا راستہ ہموار نہیں کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہی ہے جو بہت سے لوگ کافی عرصے سے کہتے آئے ہیں۔ انہوں نے مسائل کی جو تشخیص کی وہ تو غلط تھی ہی، جو علاج تجویز کیا وہ بھی غلط ثابت ہوا۔ 
 مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام حقائق سے اُن کے مداحوں اور حامیوں کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ اُن کی ستائش میں آج بھی رطب اللساں ہیں۔ مودی کے دور میں وطن عزیز کو جو نقصان پہنچا اور پہنچ رہا ہے اس کی اُنہیں کچھ فکر نہیں ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK