Inquilab Logo Happiest Places to Work

والدین کی دُعا کا اثر تھا کہ عبداللہ بن مبارک پکاراٹھے’’خدایا وہ وقت آگیا!‘‘

Updated: January 26, 2024, 1:17 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اسلام نے جیسے سماج کے مختلف طبقات کے حقوق اور واجبات متعین کئے ہیں، اسی طرح بچوں سے متعلق ان کے سرپرستوں اور سماج کے فرائض کی بھی رہنمائی کی ہے۔ بچوں سے متعلق اسلام کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان دُنیا میں نئے انسان کی آمد پر خوش ہو نہ کہ غمگین اور فکر مند۔

Earnings are not everything for children; Giving them time is also fundamental and important. Photo: INN
بچوں کیلئے کماناہی سب کچھ نہیں؛ اُنہیں وقت دینا بھی بنیادی اور اہم ہے۔ تصویر : آئی این این

یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہیں، خود قرآن نے ان کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے (الفرقان :۷۴ ) اور اللہ تعالیٰ نے دو اولو العزم پیغمبروں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت زکریاؑ کے سلسلہ میں ذکر فرمایا، کہ انھوں نے خدا سے اولاد کے لئے دُعاء فرمائی اوراللہ تعالیٰ نے اس کو قبول فرمایا، (الصافات : ۱۰۰، مریم : ۵) اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی خواہش انسان کی ایک فطری اور جائز خواہش ہے، اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو انسان کے لئے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنایا ہے، بچوں کے بغیر کسی خوبصورت اور جاذبِ قلب و نظر سماج کا تصور بھی ممکن نہیں۔ 
اسلام نے جیسے سماج کے مختلف طبقات کے حقوق اور واجبات متعین کئے ہیں، اسی طرح بچوں سے متعلق ان کے سرپرستوں اور سماج کے فرائض کی بھی رہنمائی کی ہے۔ بچوں سے متعلق اسلام کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان دُنیا میں نئے انسان کی آمد پر خوش ہو نہ کہ غمگین اور فکر مند، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسحاقؑ اور حضرت زکریاؑ کو حضرت یحییٰ ؑ کی پیدائش کی اطلاع دی، تو اس کو ’’ خوشخبری ‘‘ سے تعبیر فرمایا گیا۔ یقیناً بچوں کی پیدائش خوشی کی بات ہے، اس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی کوئی تفریق نہیں، اسلام سے پہلے لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہوتے اور اس کو اپنے لئے باعث ِعار تصور کرتے تھے، قرآن مجید نے اس کو کافرانہ طریقہ قرار دیا ہے اور اس کی مذمت فرمائی، (الزخرف :۱۷) کیوں کہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لئے لڑکے زیادہ مفید ہوں گے یا لڑکیاں ؟ اور کون مشکل وقتوں میں اس کے کام آئے گا، اس کا سہارا بنے گا ؟
بچوں کا سب سے بنیادی حق ان کے زندہ رہنے کا حق ہے۔ ہندوستان نے بچوں کے حقوق پر منعقدہ کنونشن کے دستاویز پر دستخط کیا ہے، اس میں پہلا حق یہی ہے۔ اسلام نے جس طرح اس حق کی رعایت رکھی ہے، شاید ہی اس کی مثال مل سکے، عام طور پربچہ کا قانونی وجود اس وقت مانا جاتا ہے جب اس کی پیدائش ہوچکی ہو؛ لیکن اسلام کی نگاہ میں جس روز ماں کے رحم میں تخم انسانی نے قرار پکڑا، اسی دن سے وہ ایک قابل احترام اور لائقِ حفاظت انسان ہے؛ اسی لئے اسلام کی نظر میں اسقاط حمل جائز نہیں، بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی حفاظت اور بقاء کا انتظام نہ صرف والدین اور سرپرست بلکہ پوری انسانی برادری کا فریضہ ہے، اسی مقصد کیلئے شریعت نے ماؤں پریہ اخلاقی حق رکھا ہے کہ وہ بچوں کو دودھ پلائیں۔ قرآن مجید نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس کا ذکر کیا ہے۔ میڈیکل سائنس میں یہ ایک تسلیم شدہ امرہے کہ بچوں کیلئے ماں کے دودھ سے زیادہ مفید کوئی غذا نہیں، پھر جب تک بچے اس لائق نہ ہوجائیں کہ خود کسبِ معاش کرسکیں، اس وقت تک بچوں کی کفالت والدین اور والدین نہ ہوں تو دوسرے قریبی رشتہ داروں پر رکھی گئی ہے، ماں باپ کیلئے یہ روا نہیں رکھا گیا کہ وہ نابالغ بچوں کو مزدوری پر لگائیں اور اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی برتیں۔ ( الدر المختار مع الرد :۵؍۳۳۷)
آپؐنے سرپرستوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ بچوں کے معاملہ میں ایثار سے کام لیا جائے۔ سب سے زیادہ آپؐ نے جس بات کی تاکید فرمائی وہ بچوں کی تعلیم اور ان کی تربیت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام بچوں کی جبری تعلیم کا بھی قائل ہے تو بے جا نہ ہوگا؛ کیوں کہ آپ ؐ نے ہر مسلمان کیلئے تحصیل علم کو فرض قرار دیا ہے، ( ابن ماجہ عن انسؓ) ظاہر ہے کہ فرائض میں ضرورت پڑنے پر جبر سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔ امام بخاری ؒنے اپنی کتاب میں ایک عنوان کے تحت ثابت کیا ہے کہ پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہونا چاہئے۔ ( بخاری، باب الغتباط فی العلم و الحکمۃ )
’’ تعلیم ‘‘ میں دین کی تعلیم بھی داخل ہے کہ بقدرِ ضرورت علم دین حاصل کئے بغیر نہ انسان اپنی دُنیا کو بہتر بناسکتا ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے؛ اس لئے ایسے علم کا حصول بھی ضروری ہے، جس کے ذریعہ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرسکے اور ایک باعزت اور خود دار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اس کے لئے ممکن ہو۔ قرآن مجید نے اس کیلئے ایک جامع تعبیر اختیار کی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ۔ ( التحریم :۶) بچوں کو دوزخ سے بچانے کیلئے دین کی تعلیم تو ضروری ہے ہی، طریقۂ معاش کی بھی تعلیم ضروری ہے؛ تاکہ وہ جائز طریقہ پر اپنی ضروریات کو پوری کرسکیں اور غیر سماجی طریقہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ 
بچوں کی تعلیم اسلام کی نگاہ میں کس درجہ اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ گو اُصولی طور پر بالغ ہونے کے بعد بچوں کی کفالت باپ پر واجب نہیں، سوائے اس کے کہ وہ معذور ہو؛ لیکن اگر لڑکے حصولِ تعلیم میں مشغول ہوں اور والدین ان کے اخراجات ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، تو پھر ان کا نفقہ بھی واجب ہے، اسی طرح فقہاء نے طلبہ کیلئے زکوٰۃ کو جائز قراردیا اور بعض اہل علم نے ان کو بھی قرآن مجید کے بیان کئے ہوئے زکوٰۃ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کے زمرہ میں رکھا ہے۔ 
بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی ضروری ہے۔ تربیت ہی در اصل انسان کو انسان بناتی ہے، آپؐ نے فرمایا کہ کسی شخص نے اپنی اولاد کو اچھے اخلاق و آداب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ ( ترمذی، باب ماجاء فی ادب الولد ) ایک اور موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو تہذیب اور شائستگی سکھاؤ۔ (ابن ماجہ، باب بر الوالد الخ) آپؐ واقعی انسانی نفسیات کے عارف اور رہبر تھے اورہر چھوٹے بڑے معاملہ میں رہنمائی فرمایا کرتے تھے؛ چنانچہ ایک موقع پر نہایت جامعیت کے ساتھ آپ نے بچوں کے ان حقوق کا ذکر فرمایا، جو والدین پر ہیں، ارشاد ہوا :
’’ساتویں دن بچہ کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور نہلایا دھلایا جائے، تیرہ سال میں نماز و روزہ کے لئے سرزنش کی جائے، سولہ سال کی عمر میں باپ اس کی شادی کردے، پھر اس کا ہاتھ پکڑے اور کہے: میں نے تجھے اخلاق سکھادیئے، (قد أدبتک) تعلیم دے دی اور تمہارا نکاح کردیا، میں اللہ کی پناہ چاہتاہوں، اس سے کہ تو دُنیا میں میرے لئے فتنہ کا یا آخرت میں عذاب کا باعث بنے۔ ‘‘ (مسند احمد، ابن حبان عن انسؓ )
آپؐ نے اپنے اسوہ اور ارشادات کے ذریعہ ہمیں بچوں کی تعلیم و تربیت کے طریقوں سے بھی آگاہ فرمایا، اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ بچوں کے مزاج اور موقع و محل کو دیکھتے ہوئے کبھی نرمی کا اور کبھی سختی کا معاملہ کیا جائے، بے جا تشدد اور ہر وقت سخت گیری فائدہ کم اورنقصان زیادہ پہنچاتی ہے؛ اس لئے اصل میں بچوں کے ساتھ شفقت مطلوب ہے۔ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ میں نے کسی شخص کو بال بچوں میں رسولؐ اللہ سے زیادہ شفیق نہیں دیکھا۔ (مسلم) ایک بار حضرت اقرع بن حابسؓ نے حضورؐ کو دیکھا کہ آپؐ حضرت حسینؓ کا بوسہ لے رہے ہیں، حضرت اقرعؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ، میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی ان کا بوسہ نہیں لیا، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ‘‘ 
آپؐ کی شفقت و محبت کچھ اپنے ہی بچوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھی؛ بلکہ دوسرے کے بچوں کے ساتھ بھی آپؐ بہت ہی شفقت اور بے تکلفی کا معاملہ فرماتے۔ جب سفر میں جاتے یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو مدینے سے جو بچے آپؐ کو چھوڑنے یا آپ کے استقبال کیلئے آگے تک جاتے، آپؐ ان کو اپنی سواری پر آگے پیچھے بٹھالیتے۔ 
 بچوں کے ساتھ ہمیشہ بے احترامی اور حوصلہ شکنی کا رویہ بھی بہتر نہیں، ان کے مزاج اور نفسیات کا لحاظ ازحد ضروری ہے۔ جہاں حد سے زیادہ سختی بچوں کی تربیت کیلئے مضر ہے، وہیں یہ بھی روا نہیں کہ جہاں تنبیہ اور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہو، وہاں بھی اپنے آپ کو مہر بہ لب رکھا جائے، اس سے بچوں کی تربیت نہیں ہوپاتی اور ان میں بد تہذیبی کا رجحان بڑھتا جاتا ہے۔ بعض بچوں میں اپنی ہر ضد کو پورا کرنے کا مزاج بن جاتا ہے، یہ بات بچوں کے مستقبل کیلئے بہت ہی نقصان دہ ہے اسی لئے آپؐ نے حسب ِضرورت بچوں کی تنبیہ کا بھی حکم دیا ہے؛ چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ جب بچے دس سال کے ہوجائیں اور نماز پڑھنے میں کوتاہی کریں تو ان کی کسی قدر سرزنش بھی کی جائے۔ (ترمذی)۔ اسی لئے فقہاء نے والدین کو بال بچوں کی اور اساتذہ کو طلبہ کی مناسب حد میں رہتے ہوئے تادیب اور سرزنش کی اجازت دی ہے۔ 
بچوں کے لئے دُعاء ِخیر بھی ان کا ایک حق ہے، اپنے بچوں کیلئے بھی اور قوم کے بچوں کیلئے بھی؛ کیوں کہ دُعا بہر حال اثر رکھتی ہے، قرآن مجید میں بعض انبیاء کی دُعائیں ذکر کی گئی ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ سے اولاد کی صالحیت اور حق پر استقامت کا ذکر آیا ہے۔ اس سلسلہ میں مشہور محدث اور صاحب ِدل امام عبد اللہ بن مبارکؒ کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں گانے بجانے اور عیش و عشرت میں مست رہتے تھے۔ آپ کے والدین کو اس پر بڑی کڑھن تھی اور دن رات رو رو کر اللہ سے دُعائیں کرتے تھے۔ اسی درمیان جب ایک مرتبہ عیش و نشاط کی بزم آراستہ تھی اور شراب کا دور چل رہاتھا کہ آپ کی آنکھ لگ گئی اور آپ ؒ نے خواب میں دیکھا کہ ایک خوبصورت باغ ہے، جس میں ایک ٹہنی پر پرندہ بیٹھا ہوا ہے اور وہ اس آیت کو پڑھ رہا ہے :
’’کیا ایمان لانے والوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سےپگھلیں اوراس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں۔ ‘‘(الحدید : ۱۶)
امام عبد اللہ بن مبارک ؒ بے چین ہو کر اٹھے، ان کی زبان پر تھا کہ ’’ خدایا! وہ وقت آگیا!‘‘ پھر تو اسی وقت جام و سبو چکنا چور کردیئے، رنگین کپڑے اُتار پھینکے، غسل کیا اور خدا کے حضور توبہ کی، یہاں تک کہ علم و معرفت کے اُفق پر خورشید بن کر چمکے کہ شاید ہی کوئی محدث اورفقیہ ہو جس نے ان کی علمی عظمت اور فضل و تقویٰ کا اعتراف نہ کیا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ والدین کی دُعاء کا اثر تھا۔ 
اس سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے حق میں دُعا ضرور کیا کریں۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ مشینی دور میں بچوں کو سرپرست اپنا وقت نہیں دے پاتے جو بچوں کیلئے سب سے اہم ضرورت ہے، وہ باپ اور بزرگوں کی سچی محبت سے محروم ہیں اور بچوں کی تربیت کے پہلو پر بے توجہی عام ہے، کتابوں کی دکانوں پر ایسی کتابوں کی بھرمار ہے جن سے بچوں کے اخلاق بگڑتے ہیں ؛ لیکن ایسا لٹریچر مقدار اور معیار کے اعتبار سے بہت کم ہے جو بچوں کی فطری اور اخلاقی تربیت کا سروسامان ہو۔ ذرائع ابلاغ بھی بچوں میں تعمیری رجحان پیدا کرنے کے بجائے تخریبی اور غیر اخلاقی میلان پیدا کر رہے ہیں ؛ اس لئے بچوں کا حق صرف یہ نہیں کہ ان کیلئے خورد و نوش کا انتظام کردیا جائے بلکہ ان کیلئے اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو معلم اخلاق بنایا جائے اور لوگوں کو سمجھایا جائے کہ بچوں کیلئے کماناہی سب کچھ نہیں ؛ اُنہیں وقت دینا بھی بنیادی اور اہم ہے، اور ان کو اس سے محروم رکھنا ان کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی ہے !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK