Inquilab Logo

شمال مشرقی ریاستوں کےانتخابی نتائج اور ملک کیلئے وہاں سے برآمد ہونے والا سیاسی پیغام

Updated: March 13, 2023, 3:48 PM IST | Mumbai

میگھالیہ، تریپورہ اور ناگالینڈ میں انتخابات کے بعد جوتصویر سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ تینوں ریاستوں کی حکومتوں میں بی جے پی شامل ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ زیر نظر کالموں میں انقلاب نے اسی نکتے پر گفتگو کی ہے

BJP workers celebrating the victory of Nagaland in Jammu and Kashmir
ناگالینڈ کی کامیابی پر جموں کشمیر میں جشن مناتے ہوئے بی جے پی کارکنان

شمال مشرق کی تین ریاستوں ناگالینڈ، میگھالیہ اور تریپورہ کے انتخابی نتائج  اور اس کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال سے ۲؍ پیغام واضح طور پر اُبھر کر سامنے آ رہےہیں۔  پہلا پیغام  یہ ہے کہ بی جے پی اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔وہ اپنی اَناکو بالائے طاق رکھ سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر خون کے گھونٹ بھی پی سکتی ہے۔ اس حوالے سے دوسرا پیغام یہ ہے کہ اپوزیشن جما عتیں کس قدر بھی ذلیل و خوار ہو جائیں، ہوش کے ناخن نہیں لیں گی۔ اُن کی پیٹھ  دیوار سے لگ جائے تو بھی وہ آپس ہی میں دست و گریباں رہیں گی۔ مذکورہ تین چھوٹی ریاستوں میں دوران انتخابات اور مابعد انتخابات بی جے پی، کانگریس اور ترنمول کانگریس  کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہی باتیں سامنے آتی ہیں۔
  بی جے پی کے خواب بڑے اور عزائم بہت اونچے ہیں۔ اس کیلئے اسے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں واضح اکثریت کے ساتھ ہی بہت ساری ریاستوں میں اقتدار  یا پھر اقتدار میں حصہ داری چاہئے۔ اس کیلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ وہ  چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کی ناز برداری بھی کرلیتی ہے اور بڑی بڑی جماعتوں سے ٹکرا بھی جاتی ہے۔اصول ، ضابطہ اور اخلاق کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے، سب کچھ صرف اقتدار اور اس اقتدار کے حوالے سے اس کے ’مقاصد‘کی تکمیل ہے۔ میگھالیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میگھالیہ کی سابقہ حکومت میں بھی کسی زمانے میں شرد پوار کے دست راست کہلانے والے پی اے سنگما کے بیٹے کونراڈ سنگما کی پارٹی’  این پی پی‘ کے ساتھ بی جے پی حکومت میں شامل تھی لیکن اسمبلی کی مدت ختم ہوتےہوتے دونوں میں شدید ’دشمنی‘ ہوگئی تھی۔اس کی وجہ سے دوران انتخابات دونوں نے ایک دوسرے پر جم کر الزامات لگائے۔ یہاں پر کانگریس  اور ترنمول کانگریس  جیسی دو بڑی پارٹیوں کے ساتھ یونائٹیڈ ڈیموکریٹک پارٹی، وائس آف دی پیلز پارٹی ہل اسٹیٹ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ جیسی علاقائی پارٹیاں الگ الگ الیکشن لڑ رہی تھیں۔ بی جے پی کو کوسنے والی یہ تمام جماعتیں اگر مل کر الیکشن لڑی ہوتیں تو میگھالیہ کے نتائج کچھ اور ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ نتائج ظاہر ہونے کے بعد بھی ان جماعتوں کو ہوش نہیں آیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۶۰؍ رکنی اسمبلی میں ۲؍ سیٹ پانے والی بی جے پی جو این پی پی کو بدعنوانی کا منبع کہتی تھی،  اس کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگئی اور دوسری تمام جماعتیں اپنا اپنا منہ لے کر رہ گئیں۔
 سب سے زیادہ خراب صورتحال ناگالینڈ میں دیکھنے میں آئی، جہاں نتائج ظاہر ہوتے ہی ریاست کی ساری جماعتیں اقتدار کی گود میں جاکر بیٹھ گئیں۔ بی جےپی  نے یہاں این ڈی پی پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا اور۶۰؍ رکنی اسمبلی میں ۱۲؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس کی اتحادی کو ۲۵؍ سیٹیں ملی تھیں۔ اس طرح حکمراں محاذ کو واضح اکثریت مل گئی تھی ۔ ایسے میں یہاں پر ۷؍سیٹیں جیتنے والی این سی پی  اورایک سیٹ جیتنے والی جے ڈی یو کے اراکین  دیگر مقامی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک مضبوط اپوزیشن تو بنا ہی سکتے تھے لیکن افسوس کہ حلف برداری سے قبل ہی ساری جماعتوں نے بی جے پی ، این ڈی پی پی اتحاد کیلئے اپنی اپنی حمایت کااعلان کردیا۔
 تریپورہ میں پہلے سے بی جے پی کی حکومت تھی،اس کی وجہ سے اسے حکومت مخالف رجحان کا سامنا بھی تھا۔ ’افسپا‘ اور ’این آر سی‘ کی وجہ سے شمالی مشرقی ریاست کے باشندے مرکزی حکومت سے بھی ناراض تھے، اس کے باوجود ریاست میں بی جے پی کی اقتدار میں واپسی ہوئی۔ اس کی وجہ  اپوزیشن جماعتوں کا بکھراؤ تھا۔ یہاں پر کانگریس اور سی پی ایم نے اتحاد تو کیا لیکن کانگریس سے  الگ ہونے والی ۲؍ جماعتیں ترنمول کانگریس اور ’ٹپرا موتھا پارٹی‘ نے  ایک الگ محاذ کی صورت میں میدان میں تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  بی جے پی کا ووٹ شیئر کم ہونے کے باوجود اسے اتنی سیٹیں مل گئیں کہ وہ آسانی سے حکومت بنانے کے قابل ہوگئی جبکہ سیکولر ووٹ آپس ہی میں بکھر گئے۔اس طرح اپوزیشن جماعتوں نے رائے دہندگان کو یہی پیغام دینے کی کوشش کی کہ بی جے پی سے مقابلہ آرائی کیلئے وہ نہ تو اہل ہیں، نہ ہی اس تعلق سے سنجیدہ۔ کم ازکم ممتا بنرجی نے انتخابی نتائج کے بعد اپنے غیر سنجیدہ بیانات سے یہی ظاہر کیا ہے۔ ان کے سامنے کوئی ’مجبوری‘ تو ہوگی، اس کے باوجود انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ انہیں وقتی ’راحت‘ بھلے مل جائے لیکن وہ تنہا رہ کر نہ الیکشن جیت سکیں گی ، نہ ہی  بی جے پی کے چنگل سے خود کو بچاسکیں گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK