قوموں کا عروج و زوال قرآن کےآئینے میں‘‘ کے تحت جاری سیریز میں اب تک آپ نے قوم عاد، ثمود، سبا اور دیگر کے بارے میں پڑھا، آج بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے
EPAPER
Updated: July 07, 2023, 11:44 AM IST | Tayyab Shaheen Lodhi | Mumbai
قوموں کا عروج و زوال قرآن کےآئینے میں‘‘ کے تحت جاری سیریز میں اب تک آپ نے قوم عاد، ثمود، سبا اور دیگر کے بارے میں پڑھا، آج بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے اتنے احسان کئے ہیں کہ شاید ہی کسی اور قوم کو اللہ کے انعامات و اکرامات کا اتنا وافر حصہ ملا ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دُنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی ۔‘‘ (البقرہ:۴۷)
جب اللہ تعالیٰ نے اُن کو کنعان کے بیابانوں سے اٹھا کر مصر کے سبزہ زاروں میں پہنچایا تو دراصل یہ قبطیوں کی اصلاح کیلئے بنی اسرائیل کو ایک موقع بہم پہنچایا تھا ۔ مگر وہ (بنی اسرائیل) فریضہ ٔ اقامت ِ دین سے غافل رہے۔ اُنہوں نے وہاں کے قبطیوں کو دین سے کماحقہ روشناس نہیں کرایا۔ اس کے علاوہ قومی برتری کے جھوٹے اور جاہلانہ احساس میں بھی مبتلا ہوئے۔ آخر مصریوں میں قوم پرستی کی لہر آئی۔ اسرائیلیوں کو اقتدار سے علاحدہ کردیا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسرائیلی تہذیب مٹانے اور اسرائیلی قوم کو دنیا سے نابود کرنے کی سازشیں ہونے لگیں۔ اُن کی نسل کشی کے لئے اُن کے نوزائیدہ بچوں کو ایک قانون کے تحت قتل کیا جانے لگا اور لڑکیوں کو قبطیوں کی خدمت کے لئے باقی رکھا جانے لگا، قرآن فرماتا ہے
’’وہ تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ۔‘‘ (البقرہ:۴۹)
اُن سے زبردستی بیگار لی جاتی اور اُن کو سرعام رسوا کیا جاتا ۔ یہ مجبور قوم ذلت و نکبت کے دن گزار رہی تھی اور یوں لگتا تھا کہ گویا یہ قوم رسوائی اور غلامی کی زندگی پر قانع ہو چکی ہے اور ذلت اُس کا مقدر بن چکی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو سنا اور اُن کی ہدایت اور را ہبری کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مسلسل جد و جہد کے ذریعہ حالات کو سدھارنے کی کوشش کی مگر فرعون کو ان اصلاحی کوششوں کے پیچھے اپنا تخت ِ اقتدار ڈگمگاتا ہوا نظر آنے لگا اور وہ ان اصلاحی کوششوں کو نا کام کرنے پر تل گیا۔ آخر کار اس کے سوا اور کوئی چارۂ کا رنہ رہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائیں۔
درحقیقت، بنی اسرائیل کی پوری تاریخ دین سے دوری، نافرمانی اور سرکشی سے لبریز ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پوری قوم نے دیکھ لیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو فرعون کے ظلم واستحصال سے نجات دی اور پھر ان ظالموں کو اُن کے آنکھوں دیکھتے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ پھر سینا کے صحرا میں اُن کو بھوک، پیاس اور دھوپ سے محفوظ رکھا۔ مگر یہ قوم، کہ غلامانہ ذہنیت ہی جس کی سرشت بن چکی تھی، مصریوں کے عقائد سے بری طرح متاثر ہو چکی تھی اور مصریوں کے مشرکانہ تمدن میں پوری طرح رنگ چکی تھی چنانچہ حضرت موسیٰؑ کی چند دن کی غیر حاضری کے دوران شرک جیسی قبیح برائی میں مبتلا ہو گئی:
’’موسیٰؑ کے پیچھے ان کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے ۔‘‘ (الاعراف:۱۴۸)
پوری قوم کی بے حسی کا یہ عالم تھا کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے سوا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ تھا جوقوم کو اُس کی اِس غلط روش پر نکیر کرتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور سے واپس آکر قوم کو اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ فرمودہ اسلامی ضابطہ حیات سے روشناس کیا اور اسے اختیار کرنے کی تلقین کی، قرآن میں وارد ہے
’’اس کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور ان سے کہا: اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھالو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں۔ عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا۔ ‘‘ (الاعراف:۱۴۵)
مگر یہ قوم فقہی موشگافیوں میں پڑ گئی اور مختلف حیلوں سے احکام الٰہی کو پس پشت ڈالتی رہی۔ بنی اسرائیل سے وعدہ کیا گیا تھا کہ خطۂ فلسطین میں اسے آباد کیا جائے گا تاکہ وہ وہاں ایک اسلامی ریاست قائم کر کے دُنیا کی گمراہی کی لرزہ خیز تاریکیوں میں ہدایت کی مشعل روشن کرے مگر یہ لوگ اپنی ا س ذمہ داری سے پہکلو تہی کرنے اور جی چرانے لگے۔ اس بدبخت قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہاں تک کہہ دیا:
’’اے موسیٰؑ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائینگے جب تک وہ وہاں موجود ہیں بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ (المائدہ:۲۴)
ان کے جہادسے جی چرانے پر اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس اس نسل پر حرام کر دی اور وہ نسل جو اُس وقت موجود تھی اس کا ایک فرد بھی، حضرت موسیٰؑ کے دو مخلص صحابیوں کے سوا، فلسطین میں داخل نہ ہو سکا۔ سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے کئی برس بعد ارض فلسطین فتح ہوئی۔ وہ بھی شاید نئی نسل کی اسلامی تربیت کے بعد۔ مگر اس قوم میں چونکہ نافرمانی گویا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے ان لوگوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اللہ کی آیات کی غلط اور من مانی تاویلیں کر کے کتاب اللہ کو اپنی خواہشات ِ نفس کے تابع بنا لیا۔ مشرک قوموں کے اثرات قبول کر کے شرک و جاہلیت کے ہر فتنے میں مبتلا ہوئی۔ شریعت الٰہی کے احکام کو مسخ کیا اور دین کی روح کو یکسر ختم کر دیا۔ اُن کی اصلاح اور اقامت دین کیلئے انبیاء کرام اور اُن کے علاوہ مصلحین اٹھے تو اُن کو جھٹلایا اور ان کی ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہ رکھی حتیٰ کہ ’’بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو پھانسی پر چڑھایا۔‘‘ (المائدہ:۷۰)
اللہ تعالیٰ نے سبت (سنیچر) کا دن اُن کیلئے فراغت کا دن بنایا تھا مگر اس دن میں انہوں نے اللہ کےحکم کی نافرمانی کی۔ قرآن میں اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا، ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔‘‘ (البقرہ: ۶۵)
سرزمین فلسطین میں وہ کوئی مضبوط حکومت قائم نہ کر سکے۔ جتنے قبیلے تھے اتنی ہی ریاستیں وجود میں آگئیں اور ہر ریاست اقامت دین سے غافل تھی۔ فلسطین اور شام کی اصل قوموں یعنی حتّیوں، اَمویوں ، کنعانیوں، فِرزیوں وغیرہ میں بدترین قسم کا شرک اور اس پر مبنی انتہائی ظالم اورگندہ معاشرہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم موجود تھا کہ مشرک اور ظالم قوموں کو جہاد اور تبلیغ سے ختم کر کے فلسطین میں اسلامی ریاست قائم کی جائے مگر جہاد سے بنی اسرائیل کی غفلت اور تن آسانی کی وجہ سے نہ تو ان قوموں کا قلع قمع ہو سکا اور نہ کوئی متحدہ اسلامی ریاست قائم ہو سکی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ تک وہ پوری طرح مشرک قوموں کی تہذیب و تمدن میں رنگے جاچکے تھے۔ مگر شاید ابھی اُن کی مکمل رسوائی اور ذلت مطلوب نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مزید مہلت دی۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے اُن کی اصلاح کی کوشش کی۔ ان کے اعتقادات کی تعمیر کی اور ان کے اندر جہاد کی روح پھونکی اور تباہی کی طرف کشاں اور رواں دواں قوم کو ایک بار سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر حضرت سلیمانؑ کے بعد اسرائیلیوں میں طوائف الملوکی کی کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ بنی اسرائیل پھر دو ریاستوں میں تقسیم ہو گئے اور بدعملی کی آلائش میں گردن تک دھنس گئے۔ آخراللہ تعالیٰ کے عذاب نے انہیں آلیا۔
(بنی اسرائیل پر عذاب کی مزید تفصیل آئندہ ہفتے اِس مضمون کی آخری قسط میں پڑھئے)