Inquilab Logo

ادیبوں کے پاس لفظ کم رہ جائیں تو پورے معاشرے کو گھبرا جانا چاہئے

Updated: February 14, 2023, 4:34 PM IST | Muhammad Hasan Askari | Mumbai

؍۶۹سال قبل (۱۹۵۴ء میں) لکھے گئے اس مضمون میں فاضل ادیب اور نقادنے الفاظ اور محاوروں کی کمی پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ اس مضمون کی اہمیت و معنویت آج ماضی سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پڑھئے اور سوچئے کہ کیا موجودہ ٹیکنالوجی کے دَور میں ہمارے یہاں الفاظ کی قلت اور محاوروں کی کمی کا مسئلہ اپنے عروج پر نہیں ہے؟ اس لئے کہ آج عوام ہی نہیں، جنہیں ادیب اور شاعر کہا جاتا ہے وہ بھی ’میسج‘ کی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ’شارٹ فارم‘ کی کمی نہیں۔

Two things must be in a man to control words. One is the desire to live and be interested in life and the desire to relate to other human beings.
لفظوں کو قابو میں لانے کے لئے آدمی کے اندر دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ ایک تو زندہ رہنے اور زندگی سے دلچسپی رکھنے کی خواہش اور دوسرے انسانوں سے تعلق رکھنے کی خواہش۔


کم بخت ادب میں جہاں اور بیس مصیبتیں ہیں وہاں ایک جھگڑا یہ بھی ہے کہ اس کے ایک عنصر کو باقی عناصر سے الگ کر کے سمجھنا چاہیں تو بات آدھی پونی رہ جاتی ہے۔ یہاں وہ ڈاکٹروں والی بات نہیں چلتی کہ کوئی کان کے امراض کا ماہر ہے تو کوئی ناک کی بیماریوں کا، ادب پارہ عناصر کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ یہاں تو کل ہی اصل چیز ہے۔ کہیں سے اینٹ، کہیں سے روڑا لے کے اور چاہے جو بن جائے ادب نہیں بنتا۔ ادب کا معاملہ تو وہی ہے جو اشیاء کا ہے۔ 
اشیاء میں لمبائی ہوتی ہے اور چوڑائی بھی لیکن ایک کے بغیر دوسری وجود میں نہیں آ سکتی۔ ادب کے بارے میں سوچنے بیٹھیں تو یہی الجھن پیش آتی ہے۔ ابھی ایک پہلو کے متعلق کوئی بات کہہ کے مطمئن بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ پتہ چلا یہ پہلو دوسرے پہلو سے جڑا ہوا ہے۔ جبھی تو ادبی تنقید کا کام ہوا سے لڑنے کے برابر ہے۔ 
مثلاً میں نے کچھ دن سے غل مچا رکھا ہے کہ ہمارے ادیبوں کو الفاظ پر قدرت حاصل نہیں۔ اس لئے ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ الفاظ کو قابو میں لائیں۔ اس سیدھے سادے بیان سے بہ ظاہر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ادیب لوگ روز صبح اٹھ کر نہار منہ لغت کا ایک صفحہ رٹ لیا کریں۔ یا پرانی کتابیں پڑھ پڑھ کے اچھے اچھے لفظوں کی ایک فہرست تیار کریں اور پھر اس فکرمیں رہیں کہ موقع بے موقع ایک زور دار سا لفظ ٹکا دیں۔ اگر بفرض اس طرح اچھی نثریا نظم لکھی بھی جا سکے تو محض ایک افسانہ چھپوانے کی خاطراتنا جھنجھٹ کون پالے گا کہ نور اللغات کی چار جلدیں ہر وقت کندھے پر اٹھائے پھرے۔ اصل پوچھنے کی بات تو یہ ہے کہ لفظ یاد کس طرح رہتے ہیں اور لفظوں پر قابو کیسے پایا جاتا ہے۔ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اکیلے شیکسپئر کو چھبیس ہزار الفاظ دے دیئے۔ حالانکہ ہماری پوری اردو زبان میں کل ملا کے چھپن ہزارالفاظ ہیں اور آج کل کے اردو ادیبوں کے پاس تو شاید دو تین ہزار سے زیادہ نہ ہوں گے۔ یہ کیا قصہ ہے؟ 
الفاظ اس آدمی کو یاد ہوتے ہیں جو زندہ ہو۔ یعنی جسے زندگی کے عوامل اور مظاہر سے جذباتی تعلق ہو اور جو اس تعلق سے جھجکے یا گھبرائے نہیں۔ ادیبوں کو چھوڑیئے ہم آپ جیسے عام آدمی روزانہ جو الفاظ بولتے ہیں ان میں ہماری پوری جسمانی ذہنی اور جذباتی سوانح عمری بند ہو جاتی ہے۔ گویا ہر آدمی دن بھر اپنی داستان اور بچپن سے لے کر آج تک کی تاریخ بیان کرتا پھرتا ہے۔ ان میں بہت سے لفظ تو ایسے تجربات کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں ہمارے شعور نے بھی قبول کر لیا ہے۔ بہت سے لفظوں میں وہ تجربات چھپے بیٹھے رہتے ہیں جن سے شعور بچتا ہے۔ لیکن جنہیں لاشعور ہمارے اوپر ٹھونستا ہے۔ دوسری طرف ایسے بھی لفظ ہوتے ہیں جنہیں ہم حافظے کی گولیاں کھانے کے بعد بھی یاد نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ ان کا تعلق ایسے ناخوشگوار تجربات سے ہوتا ہے جن سے ہم دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ ہم کتنے اور کس قسم کے الفاظ پر قابو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں زندگی سے ربط کتنا ہے اور ہم خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں طرح کے تجربات قبول کرنے کی ہمت کتنی رکھتے ہیں۔ 
جی ہاں، خوشگوار تجربے کو قبول کرنے کے لئے بھی ہمت چاہئے۔ بقول فراق صاحب، ’’بلائیں یہ بھی محبت کے سرگئی ہوں گی۔‘‘ اس میں بھی نفی خودی کا کرب برداشت کئے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ خود پرست آدمی نشاط کے قابل رہتا ہے نہ غم کے۔ اگر کوئی سکڑسمٹ کے بالکل اندر بند ہو جائے تو اسے لفظوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ کیونکہ الفاظ تو اس تعلق کا ذریعہ اظہار ہیں جو ہمارے اور خارجی چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔ خدا نے حضرت آدم کو سب سے پہلے چیزوں کے نام سکھائے تھے۔ پھر الفاظ محل اظہار کا ذریعہ ہی نہیں ہیں، ان کے پیچھے یہ خواہش کام کرتی ہے کہ ہم دوسروں سے تعلق پیدا کریں۔ 
چنانچہ لفظوں کو قابو میں لانے کے لئے آدمی کے اندر دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ ایک تو زندہ رہنے اور زندگی سے دلچسپی رکھنے کی خواہش۔ دوسرے انسانوں سے تعلق رکھنے کی خواہش۔ شیکسپئر نے چھبیس ہزار الفاظ لغت میں سے نقل نہیں کئے تھے، بلکہ وہ، چیزوں اور انسانوں کی دنیا سے چھبیس ہزار طرح متاثر ہوا تھا۔ کیونکہ ایک سیدھا سادا اور بذات خود مہمل سا لفظ ’’اور‘‘ استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ آدمی کی شخصیت میں اتنی لچک موجود ہے کہ وہ اپنی دلچسپی کو ایک چیز سے دوسری چیز تک منتقل کر سکے اور اس کے اندر گیرائی ہے کہ بیک وقت دو چیزوں کا احاطہ کر سکے۔ بہت سے لوگوں کی شخصیت ٹھٹھر کے رہ جاتی ہے۔ تو اسی لئے کہ وہ اپنی روح کی گہرائیوں سے میں سے ’’اور‘‘ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ میں شاعرانہ مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔ یہ ذرا سا لفظ ’’اور‘‘ کتناعظیم ہے۔ اس میں تو ایک پوری کائنات سما سکتی ہے۔ 
اتنی جھک سے مقصود میرا بس اتنا تھا کہ ادیبوں کے پاس لفظ کم رہ جائیں تو پورے معاشرے کو گھبرا جانا چاہئے۔ یہ تو ایک بہت بڑے سماجی خلل کی علامت ہے۔ باعمل لوگ ادب جیسی بے مصرف چیز سے ہزار بیگانہ رہیں لیکن ادب میں ان کی نبض بھی دھڑکتی ہے۔ ادب میں لفظوں کا توڑا  (کمی، قلت، قحط) ہو جائے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ معاشرے کو زندگی سے وسیع دلچسپی نہیں رہی یا تجربات کو قبول کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جب ادب مرنے لگے تو ادیبوں ہی کو نہیں بلکہ سارے معاشرے کو دعائے قنوت پڑھنی چاہئے۔ 
خیر اب لمبی چوڑی باتیں چھوڑ کے، یہ دیکھیں کہ آج کل کے ادب میں لفظوں کے قحط کی نوعیت کیا ہے۔ فی الحال محاورے کا معاملہ لیجئے! بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ محاوروں کے استعمال کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر سیدھے سادھے لفظوں سے کام چل جائے تو اس تکلف میں کیوں پڑیں؟ دو چار لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ محاورے استعمال ہوں اور اس کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ پرانا ادب پڑھا جائے۔ اگر اس طرح کے محاوروں کا استعمال سیکھا جا سکتا ہے تو پھر وہ لغت والا نسخہ ہی کیا برا ہے؟ خیر اپنی اپنی رائے تو اس معاملے میں سبھی دے لیتے ہیں۔ کوئی محاوروں کو قبول کرتا ہے، کوئی رد۔ لیکن جو بات پوچھنے کی ہے وہ کوئی نہیں پوچھتا، اصل سوال تو یہ ہے کہ محاورے کب استعمال ہوتے ہیں اور کیوں؟ اور محاوروں میں ہوتا کیا ہے؟ وہ ہمیں پسند کیوں آتے ہیں؟ ان سے بیان میں اضافہ کیا ہوتا ہے؟ 
خالص نظریاتی بحث تو مجھے آتی نہیں۔ ایک آدھ محاورے کوالٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔ سرشارؔ نے کہیں لکھا ہے، ’’چراغ میں بتی پڑی اور اس نیک بخت نے چادر تانی۔‘‘ اس اچھے خاصے طویل جملے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی شام ہی سے سو جاتی ہے، تو جو بات کم لفظوں میں ادا ہو جائے اسے زیادہ لفظوں میں کیوں کہا جائے؟ اس سے فائدہ؟ فائدہ یہ ہے کہ جملے کا اصل مطلب وہ نہیں جو میں نے بیان کیا ہے بلکہ اس سے کہیں زیاد ہ ہے۔ ’’شام ہونا‘‘ تو فطرت کاعمل ہے۔ ’’چراغ میں بتی پڑنا‘‘ انسانوں کی دنیا کاعمل ہے جو ایک فطری عمل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے اور یہ عمل خاصا ہنگامہ خیز ہے۔ 
جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے، جب سرسوں کے تیل کے چراغ جلتے تھے، انہیں یاد ہوگا کہ چراغ میں بتی پڑنے کے بعد کتنی چل پول مچتی تھی اندھیرا ہو چلا، ادھر بتی کے لئے روئی ڈھونڈی جا رہی ہے۔ روئی مل گئی تو جلدی میں بتی ٹھیک طرح نہیں بٹی جا رہی۔ کبھی بہت موٹی ہوگئی، کبھی بہت پتلی۔ دوسری طرف بچے بڑی بہن کے ہاتھ سے روئی چھین رہے ہیں۔ یہی وقت کھانا پکنے کا ہے۔ توے پر روٹی نظر نہیں آ رہی، روٹی پکانے والی الگ چلا رہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ’’چراغ میں بتی پڑنے‘‘ کے معنی محض یہ نہیں کہ شام ہوگئی۔ اس فقرے کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ایک پورا منظر سامنے آتا ہے چنانچہ اس محاورے میں فطرت کی زندگی اور انسانی زندگی گھل مل کر ایک ہو گئی ہے۔ بلکہ شام کے اندھیرے اور سناٹے پر انسانوں کی زندگی کی ہماہمی غالب آگئی ہے۔ 
(مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے ملاحظہ کیجئے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK