ہ ہستی جو علم رکھتی ہے ، جس نے انسان کو پیدا کیا، اور جو اس کی رزق رساں ہے اُسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی حکمراں بھی ہو اوراُس کا دین زندگی کا نظام ہو، اور اُسی کو زندگی کا مرجع و منبع ٹھہرایا جائے۔
EPAPER
Updated: October 29, 2021, 12:37 PM IST
|
Sayed Qutb Shaheed
ہ ہستی جو علم رکھتی ہے ، جس نے انسان کو پیدا کیا، اور جو اس کی رزق رساں ہے اُسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی حکمراں بھی ہو اوراُس کا دین زندگی کا نظام ہو، اور اُسی کو زندگی کا مرجع و منبع ٹھہرایا جائے۔
سلم معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک پہلے ایک ایسا انسانی گروہ ظہور پزیر نہ ہو جو یہ فیصلہ کر چکا ہو کہ اس کی بندگی اور عبودیت تمام کی تمام صرف اللہ کے لئے مخصوص ہوگی، اور وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی اور ہستی کی بندگی کی شرکت گوارا نہیں کرے گا، نہ عقیدہ و تصور کے لحاظ سے غیر اللہ کی بندگی کو قبول کیا جائے گا، نہ عبادات و شعائر میں غیر اللہ کی اطاعت کو دخل اندازی کا موقع دیا جائے گا، اور نہ قوانین اور نظام زندگی کے اندر غیر اللہ کی بندگی کا کوئی شائبہ برداشت کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے بعد یہ گروہ انسانی بالفعل اپنی زندگی کو اللہ کی عبودیتِ خالصہ کی بنیاد پر منظم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اپنے ضمیر اور دِل کی دنیا سے وہ ان تمام اعتقادات و تصورات کو کھرچ دیتا ہے جو غیر اللہ کی الوہیت کے قائل اور اللہ کی الوہیت میں سے کسی اور کو بھی شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس معاشرے کی تمام مراسم عبادت ایک اللہ کے لئے مخصوص ہو جاتے ہیں اور اس کے سوا باقی سب سے اس کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے مثالی اسلامی معاشرے کے تمام قوانین کا ماخذ صرف خدا کی ذات ہوتی ہے ، اور ان الٰہی قوانین میں وہ کسی اور قانون کی آمیزش گوارا نہیں کرتا۔ یہی وہ رویہ ہے ، جس کو اختیار کرنے کے بعد یہ جماعت صحیح معنوں میں مسلم جماعت کہلائے گی اور جو معاشرہ یہ جماعت منظم کرے گی اُسے ’’مسلم معاشرہ‘‘ کہا جا سکے گا۔ اسلامی معاشرہ اسی صورت میں آشنائے وجود ہو سکتا ہے کہ انسانی افراد اور گروہ اللہ کے ماسوا ہر ہستی کو،چاہے وہ مستقل بالذات ہو یا اللہ کی شریک ہو، ٹھکرا کر صرف خدائے واحد و لا شریک کی بندگی کو اپنائیں اور مستقل طور پر طے کر لیں کہ وہ اپنا نظامِ زندگی اللہ کی بندگی پر استوار کریں گے۔ اسی اجتماع اور فیصلے سے ایک نیا معاشرہ جنم لے گا جو اگرچہ قدیم جاہلی معاشرہ ہی کے اندر سے برآمد ہوگا، مگر اپنے نئے عقیدہ و فکر اور نئے نظامِ زندگی کی بدولت فرسودہ جاہلی معاشرے کے لئے ایک چیلنج ثابت ہوگا۔ یہ نیا نظامِ زندگی اسلام کے رکن اول توحید، اور رسالت محمدیؐکے نورِ ازل کی جلوہ گاہ ہوگا !اس سلسلے میں آخری بات یہ سمجھ لینی چاہئے کہ موجودہ دور میں پائے جانے والے نام نہاد ’’مسلم‘‘ معاشرے بھی دراصل جاہلی معاشرہ موجود ہے۔ جس بنا پر ہم انہیں جاہلی معاشروں میں شمار کرتے ہیں وہ یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور ہستی کی الوہیت پر ایمان رکھتے ہیں یا غیر اللہ کے سامنے مراسمِ بندگی بجا لاتے ہیں بلکہ وہ اس معنی میں جاہلی معاشرے ہیں کہ ان کا نظامِ حیات بندگی ٔ رب کے اصول پر نہیں چل رہا ہے۔ وہ اگرچہ اللہ کے سوا کسی اور الٰہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر انہوں نے الوہیت کی صفت خاص یعنی حاکمیت کو دوسروں کے حوالے کر رکھا ہے ، اور غیر اللہ کی حاکمیت تسلیم کر رکھی ہے۔ یہی حاکمیت ان کے نظام زندگی، اقدار و معیار حیات، روایات، رسم و رواج الغرض تقریباً ان کی پوری حیات اجتماعی کی اساس ہے۔ ارباب حاکمیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ ‘‘ (المائدہ:۴۴)اور محکومین کے بارے میں فرمایا: ’’کیا آپ نے اِن (منافقوں) کو نہیں دیکھا جو (زبان سے) دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب یعنی قرآن) پر ایمان لائے جوآپ کی طرف اتارا گیا اور ان (آسمانی کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئیں (مگر) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمات (فیصلے کے لئے) شیطان (یعنی احکامِ الٰہی سے سرکشی پر مبنی قانون) کی طرف لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ اس کا (کھلا) انکار کر دیں، اور شیطان تویہی چاہتا ہے کہ انہیں دور دراز گمراہی میں بھٹکاتا رہے۔’’ (النساء:۶۰)
’’نہیں اے محمدؐ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ ‘‘ (النساء:۶۵)
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہود اور نصاریٰ کو اسی جرم کا مرتکب قرار دیا تھا اور ان کے جرائم کی فہرست میں شرک، کفر، اللہ کی بندگی سے انحراف اور اس کے مقابلے میں احبار اور رہبان کی بندگی اختیار کر لینا بتایا تھا، اور ان تمام جرائم کی واحد بنیاد یہ بتائی کہ انہوں نے احبار اور رہبان کو وہی حقوق اور اختیارات دے رکھے تھے جو آج اسلام کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنی ہی ملّت کے کچھ لوگوں کو دے رکھے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ویسا ہی شرک قرار پایا جیسا شرک نصاریٰ کا عیسٰی ابن مریم کو رب اور الٰہ بنانا، اور اُن کی بندگی کرنا تھا۔ اسلام کے نزدیک شرک کی ان دو اقسام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں یکساں لحاظ سے خدائے واحد کی بندگی سے خروج، دینِ الٰہی سے سرتابی اور لا الٰہ الا اللہ کی شہادت سے انحراف کے مترادف ہیں۔
اس بحث سے اب ہم خود بخود اس آخری نکتے تک پہنچ گئے ہیں، جسے بیان کیا جاچکا ہے ، یعنی انسانی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے اسلام کا دائمی اور ابدی طریقِ کار کیا ہے ، وہ طریق کار جو قید ِ زمان و مکان سے آزاد ہے اور ہر زمانے میں خواہ وہ دور حاضر ہو یا آنے والا کوئی دورِ بعید، اسلام کا واحد طریقہ کار رہے گا۔ مسلم معاشرے کی یہ فطرت معیّن ہو جانے کے بعد ہمیں ایک اور اہم سوال کا دو ٹوک جواب بھی مل سکتا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ وہ اصل کیا ہے جسے انسانی زندگی کا ماخذ و مرجع اور بِنا اور اساس ہونا چاہئے ؟ کیا اللہ کا دین اور اس کا پیش کردہ نظامِ حیات ہماری یہ ضرورت پوری کر سکتا ہے ؟ یا اس کے لئے ہمیں کسی انسانی نظامِ حیات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا؟ اسلام اس سوال کا نہایت دو ٹوک اور غیر مبہم جواب بلا تامّل و تردّد ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی کو من حیث المجموع جس اصل کو اپنا مرجّع و اساس قرار دینا چاہئے وہ اللہ کا دین اور اس کا تجویز کردہ نظامِ حیات ہے۔ جب تک اس کو حیاتِ اجتماعی کی اساس اور اس کا محور و مرکز نہ بنایا جائے گا لا الٰہ الا اللہ اور محمد الرسول اللہ کی شہادت جو اسلام کا رکنِ اول ہے نہ قائم ہو سکے گی اور نہ اپنے حقیقی اثرات و نتائج ہی پیدا کر سکے گی۔ جب تک اس اصل کو تسلیم نہ کیا جائے اور بے چوں و چرا اس کا اتباع نہ کیا جائے اُس وقت تک خدا کی بندگی ٔ خالص کا تقاضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہرگز پورا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اوررسولؐ تمہیں جو کچھ عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں اُس سے رُک جاؤ۔ ‘‘مزید برآں اسلام انسان کے سامنے یہ سوال بھی رکھتا ہے کہ: ’’کیا تم زیادہ علم رکھتے ہو یا اللہ؟‘‘ اور پھر خود ہی یہ جواب دیتا ہے کہ: ’’اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ‘‘، ’’جو کچھ تمہیں علم دیا گیا ہے وہ بہت کم ہے۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ وہ ہستی جو علم رکھتی ہے ، جس نے انسان کو پیدا کیا، اور جو اس کی رزق رساں ہے اُسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی حکمراں بھی ہو اور اُس کا دین زندگی کا نظام ہو، اور اُسی کو زندگی کا مرجع و منبع ٹھہرایا جائے۔ رہا انسان کے خود ساختہ افکار و نظریات تو ان میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ انحراف کا شکار ہو جاتے ہیں، کیوں کہ وہ انسانی علم پر مبنی ہوتے ہیں اور ناقص ہوتے ہیں، انسان خود ناآشنائے راز ہے اور جو علم اسے دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا اور ناقص ہے۔خدا کا دین کوئی چیستاں نہیں ہے اور نہ اُس کا پیش کردہ نظامِ حیات کوئی سیال شے ہے۔ کلمۂ شہادت کے دوسرے جُز میں اُس کی واضح حد بندی کر دی گئی ہے ، اور اُن نصوص و قواعد و اصول میں اُسے منضبط کر دیا گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائے ہیں۔ اگر کسی معاملے میں نص موجود ہو تو وہی بنائے فیصلہ ہوگی اور نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی گنجائش نہ ہوگی، اور اگر نص نہ پائی جائے گی تو اجتہاد اپنا رول ادا کرے گا، مگر اُن اصولوں اور ضابطوں کے تحت جو اللہ نے اپنے نظامِ حیات میں بیان کر دیے ہیں نہ کہ اہواء و خواہشات کا تابع بن کر:
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐکی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔‘‘ (النساء:۵۹)
اجتہاد و استنباط کے اصول بھی مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ اور وہ معلوم و معروف ہیں۔ ان میں کوئی ابہام نہیں پایا جاتا اور نہ اُن میں کسی نوعیت کا، ڈھیلا پن پایا جاتا ہے۔ مگر کسی کو یہ اجازت نہیں ہےکہ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون کو اللہ کی شریعت بتائے۔’’دین زندگی کے لئے ہے‘‘ یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے انتہائی غلط معنی پہنائے گئے ہیں اور اسے یکسر غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بے شک ’’دین زندگی کے لئے ہے‘‘ مگر کس قسم کی زندگی کے لئے ؟ یہ دین اس زندگی کے لئے ہے جسے یہ خود تعمیر کرتا، اور اپنے طریقِ کار کے مطابق پروان چڑھاتا ہے۔ یہ زندگی انسانی فطرت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتی ہے اور انسان کی تمام حقیقی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے۔ ضروریات سے مراد وہ ’’ضروریات‘‘ نہیں ہیں جن کو انسان بزعم خویش اپنی ضروریات سمجھ بیٹھتا ہے ، بلکہ ان کا تعین صرف وہی ہستی طے کر سکتی ہے اور کرے گی، جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی اور اپنی اور دوسری مخلوق کی تمام ضروریات سے بخوبی واقف ہے۔
’’کیا جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ اُس کے حال کو نہیں جانتا ہے۔ وہ تو باریک بین اور باخبر ہے۔ ‘‘ (سورہ ملک:۱۴)
دین کا کام یہ نہیں ہے کہ جس طرز کی بھی زندگی ہو وہ اُسے برحق ثابت کرتا پھرے ، اور اُس کے لئے سند جواز فراہم کر کے دے اور ایسا شرعی فتویٰ اس کے لئے مہیا کر دے جسے وہ مستعار لیبل کی طرح اپنے اوپر چسپاں کر لے۔ بلکہ دین تو اس لئے ہے کہ وہ زندگی کو اپنی کسوٹی پر پرکھے ، جو کھرا ہو اُسے برقرار رکھے اور جو کھوٹا ثابت ہو اسے اٹھا کر پرے پھینک دے۔ اگر زندگی کا پورا نظام بھی اُس کی مرضی کے خلاف ہو تو وہ اسے ختم کر کے اُس کی جگہ نئی زندگی کی تعمیر کرے۔
دین کی تعمیر کردہ یہ زندگی ہی اصل اور برحق زندگی ہوگی۔ اس فقرے کا مفہوم یہی ہے کہ اسلام زندگی کا دین ہے۔ اس فقرے میں اس کے علاوہ کسی اور مفہوم کی تلاش کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہوگی