حقوق انسانی کی خلاف ورزی روکی جانی چاہئے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب حکومت، خواہ وہ مرکزی ہو یا ریاستی، اس جانب توجہ دے اور اسے روکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم سوالوں سے نہیں بچ سکتے۔
EPAPER
Updated: October 05, 2025, 8:31 AM IST | Aakar patel | Mumbai
حقوق انسانی کی خلاف ورزی روکی جانی چاہئے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب حکومت، خواہ وہ مرکزی ہو یا ریاستی، اس جانب توجہ دے اور اسے روکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم سوالوں سے نہیں بچ سکتے۔
مَیں جس تنظیم کی میں نمائندگی کرتا ہوں (ایمنسٹی انٹرنیشنل)، وہ ہر سال کے آخر میں ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ایک رپورٹ پیش کرتی ہے۔ یہ اس تنظیم کے عالمی جائزہ کا حصہ ہے جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ عموماً اس کا اصرار اُن خلاف ورزیوں پر ہوتا ہے جو حکومتوں کی جانب سے ہوئی ہوں۔ میں اِس سال کی رپورٹ کے مسودہ سے گزر رہا تھا جسے ستمبر میں حتمی شکل دی جائیگی۔ ا س کی ورق گردانی کے دوران خیال آیا کہ قارئین یہ جاننا چاہیں گے کہ ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کیا ہے۔ اسی لئے یہاں بعض واقعات کا سرسری جائزہ لیا جا رہا ہے جن کا تعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے ہے:
جنوری میں اتراکھنڈ نے یکساں سول کوڈ مسلط کرنے کے ضوابط منظور کئے۔ جو نوجوان جوڑے شادی کے بغیر ساتھ رہنے کا معاہدہ (لیو اِن ریلیشن) کرتے ہیں اُن پر رجسٹریشن لازمی قرار دیا گیا تاکہ ایسی بین مذہبی شادی سے بچا جائے جس کا تعلق تبدیلیٔ مذہب سے ہو۔ واضح رہنا چاہئے کہ ضوابط وضع کرنے سے پہلے حکومت کی مقرر کردہ نو رکنی پینل کی رپورٹ پر غور کیا جانا چاہئے تھا مگر یہ اس کے بغیر ہی منظور کر لیے گئے۔
فروری میں، راجستھان نے ایک بل متعارف کرایا جس کا بنیادی مقصد تبدیلیٔ مذہب کے بعد بین مذہب شادی کو مجرمانہ فعل قرار دینا تھا چنانچہ مسلمان کی ہندو سے یا ہندو کی مسلمان سے شادی ہو تو اُن کیلئے دس سال جیل کی سزا طے کی گئی۔ اس دوران مہاراشٹرنے بھی ایک قرارداد منظور کی جس کا مقصد بین مذہبی شادیوں کو روکنا تھا۔
اسی مہینے میں، مالون میونسپل کارپوریشن نے اسکریپ کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کی دکان منہدم کردی۔ بتایا گیا کہ اس کے بیٹے نے چمپئن ٹرافی میں پاکستان کے خلاف ہندوستان کی جیت پر کچھ کہہ دیا تھا۔ مارچ میں، مہاراشٹرا پولیس نے کنال کامرا کے خلاف `’’نیا بھارت‘‘ نامی اسٹینڈ اپ شو کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کی۔ جہاں شو تھا وہاں تشدد بھی ہوا۔ یہ واقعہ اس جیسے متعدد واقعات کی کڑی ہے جن کے سبب آزادیٔ اظہار ِ رائے مجروح ہوئی جو کہ شہریوں کا بنیادی حق ہے۔
پچھلے مہینے، دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بارہ طلباء کو حراست میں لیا۔ دراصل ۲۰۲۴ء میں ’’یونیورسٹی حکام کو اطلاع دیئے بغیر یا اُن کی اجازت لئے کے بغیر‘‘ مبینہ طور پر نعرے لگانے کے الزام میں دو پی ایچ ڈی طلباء کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ یہ طلباء اُسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مارچ میں بھی، آسام ریاستی پولیس نے صحافی دلاور حسین مجمدار کو ریاستی حکومت کے زیر انتظام بینک میں مبینہ مالی بدانتظامی کیخلاف احتجاج کی رپورٹنگ کرنے پر گرفتار کیا۔ انہوں نے اس بینک میں مالی مسائل کی سلسلہ وار رپورٹنگ کی تھی۔ یہاں واضح رہنا چاہئے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ اس بینک میں ڈائریکٹر ہیں۔
اپریل میں، لکھنؤ میں لوک گلوکار نیہا سنگھ راٹھور کے خلاف پہلگام میں دہشت گردوں کے حملوں سے متعلق تبصرہ کرنے پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ مئی میں، ہندوستان نے برطانوی، کشمیری ماہر تعلیم نتاشا کول کی اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا کا درجہ منسوخ کر دیا۔ وہ ملک کی سیاسی صورت حال کے خلاف باقاعدگی سے اپنے فنکارانہ انداز میں بولتی رہی ہیں۔ مئی میں بھی، ناگپور پولیس نے فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ سنانے پر آنجہانی کارکن ویرا ساتھیدار کی بیوی پشپا ساتھیدار سمیت تین لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ ہریانہ پولیس نے اشوکا یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کے خلاف دو ایف آئی آر درج کیں۔
ناگپور پولیس نے ۲۶؍ سالہ رجاز ایم صدیق کو انسٹاگرام پر آپریشن سندور کی توہین کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ بعد ازاں اس پر یو اے پی اے لگایا گیا۔ ۲۲؍ اپریل سے ۸؍ مئی کے درمیان، اسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سول رائٹس نے پہلگام حملے کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے کم از کم ۱۸۴؍ منافرتی واقعات کو ریکارڈ کیا۔ جون میں، ’’واؤلا وڑا‘‘ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو روک دیا گیا جو ’’دی اونین‘‘ سے متاثر ایک طنزیہ میم پیج ہے۔ اس کے بعد ممبئی پولیس نے ۱۹؍ افراد کو حراست میں لے لیا جو آزاد میدان میں فلسطینیوں کی حمایت میں رَیلی میں شامل ہونے کیلئے جمع ہوئے تھے۔ جولائی میں، حکومت نے ’’ایکس‘‘ کے دو ہزار سے زائد اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا، جن میں سے دو کا تعلق رائٹرز نیوز سے تھا۔ جولائی میں، مہاراشٹر اسپیشل پبلک سیکیورٹی ایکٹ آیا جو عوامی تحفظ کی آڑ میں اختلاف رائے کو جرم قرار دیتا ہے۔
اگست میں کشمیر نے صحافیوں، تاریخ دانوں، حقوق نسواں اور امن کے علمبرداروں کی تصنیف کردہ پچیس کتابوں پر پابندی عائد کر دی۔ ان پر `دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔ اگست میں بھی، گوہاٹی پولیس نے سدھارتھ وردراجن اور کرن تھاپر جیسے ممتاز صحافیوں کو تفصیل بتائے بغیر غداری کے مقدمے کے سلسلے میں طلب کیا۔ اگلے مہینے، گاندھی نگر کی ایک عدالت نے صحافیوں ابھیسار شرما اور راجو پارولیکر کو آسام میں معمولی رقم کے عوض اڈانی گروپ کو ایک وسیع رقبہ کی اراضی دینے کی رپورٹنگ کے لیے نوٹس جاری کیا۔ مئی میں چالیس روہنگیاؤں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر انڈمان اور نکوبار جزیرے پر لے جایا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ وہ تیر کر میانمار کے ایک مخصوص جزیرے پر پہنچ جائیں۔
پہلگام حملے کے بعد، کم از کم تین سو مسلمانوں کو آسام سے بنگلہ دیش واپس دھکیل دیا گیا۔ مئی میں، آسام نے اعلان کیا کہ وہ لوگوں کو، بالخصوص اُن لوگوں کو جو مسلم اکثریتی اضلاع میں ہیں، اسلحہ لائسنس فراہم کریگا۔ جولائی کی پہلی ششماہی میں آسام کے گول پاڑہ میں بے دخلی کی مہم کے بعد تقریباً اٹھارہ سو خاندان بے گھر ہو گئے۔ متاثرین میں بیشتر مسلمان تھے۔ جولائی میں آسام نے گیارہ ہزار بیگھہ سے زیادہ جنگلاتی اراضی پر دوبارہ دعویٰ کرنے کیلئے اوریام گھاٹ میں، جہاں زیادہ تر مسلم آبادی ہے، بے دخلی مہم شروع کی جس کو سپریم کورٹ نے روک دیا۔
مشکل یہ ہے کہ حکومت ایسے سوالوں پر یا تو خاموش رہتی ہے یا انکار ہی کردیتی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ n