Inquilab Logo

مجاہدین آزادی جو ہمیں یاد نہیں آتے

Updated: August 13, 2022, 1:44 PM IST | Abdul Hameed Yusuf | Mumbai

ء۱۸۵۷ءمیں تقریباً۵؍لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں، جن مسلمانوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جاتا تھا، ان کے جسم تڑپ تڑپ کر انگریزی ہندسہ کا۸؍بن جاتے تھے مگر چونکہ علماء کرام نے انگریزی حکومت کے جہاد کی فرضیت کا اعلان کیاتھا،اس وجہ سے مسلمان اسے ثواب کا کام سمجھ کر کرتے رہے اور سخت سے سخت اذیتیں بھی ان کے ارادوں کو متزلزل نہ کر سکیں۔

India got freedom in 1947 as a result of joint effort and sacrifice of Indians.Picture:INN
ہندوستانیوں کی مشترکہ جد جہد اور قربانی کے نتیجہ میں ہندوستان کو ۱۹۴۷ء میں آزادی ملی ۔ تصویر:آئی این این

انگریزی حکومت سے ہماری آزادی کو۷۵؍سال پورے ہو چکے ہیں۔اس موقع پر ہم ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ اور’ ہر گھر ترنگا ‘جیسے مختلف عناوین کے تحت مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کر رہے اور انھیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ ۱۵؍اگست کو علماء کرام کی قربانیوں کو یاد کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عہد کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔  ہم آج اگر آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اور ہمارا خود اپنا ایک عوام دوست دستور ہے تو یہ ہمارے آباء و اجداد کی دین ہے،جنہوں نے ہمیں غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے میں اپنی جانوں تک کی قربانیاں پیش کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان اس ملک میں بسنے والے ہر مذہب کے نما ئندہ افراد کی انگریزی استعمار کے خلاف مشترکہ جد و جہد کا نتیجہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر اس جد و جہد میں مسلمانوں،خصوصاً علماء کرام اور ان کے فتاویٰ کا ایک خاص اور ممتاز کردار رہا ہے۔ 
 انگریز تجارت کے بہانے اگست ۱۶۰۸ ء میں ہندوستان آئے تھے لیکن دھیرے دھیرے انھوں نے یہاں کی مقامی آبادی کو اپنا محکوم بنانا شروع کر دیا۔مختلف مقامات پر اُن کی مزاحمت ہوئی۔ ۱۶۶۸ ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی مغل فوج نے بنگال میں انھیں مکھیوں کی طرح مارا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد انگریزوں نے بنگال پر قبضہ کر لیا۔ ۱۷۵۶ ء میں وہاں کے نواب سراج الدولہ نے کلکتہ کا محاصرہ کیا اور انگریزوں کو شکست فاش دی۔ میسور میں ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو زبردست ٹکر دی لیکن کچھ ہندوستانیوں کی مدد سے انگریزی فوج نے ٹیپو سلطان کوشکست دے دی۔۱۷۹۹ء میں جب ٹیپو سلطان قتل کر دیئے گئے، تب انگریزوں کو لگا کہ انھوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا ہے۔  انگریز وں کے قبضے سے پہلے ہندوستان کے اکثر حصوں کی حکمرانی چونکہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی، اس لئے ہندوستان کے غلام بن جانے پر مسلمانوں کو زیادہ تکلیف پہنچی۔ یہی سبب ہے کہ ابتدائی دنوں میں مسلمان اکیلے ہی ملک کی آزادی کی خاطر انگریزوں سے بر سر پیکار رہے۔ بعد ازاں سب لوگ ساتھ آئے اور پھر انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے زیادہ منظم انداز میں دیگر اقوام نے بھی ہندوستان کی ’ مکمل آزادی‘ کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں اور بالآخر تمام ہندوستانیوں کی مشترکہ جد جہد اور قربانی کے نتیجہ میں ہندوستان کو ۱۹۴۷ء میں آزادی مل گئی۔
 جنگ آزادی کے بانی، اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو،عظیم شخصیت کے مالک ایک محدث کبیر تھے۔ ۱۸؍ویں صدی کے آغاز میں محدث اعظم شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے خواب دیکھا کہ ان کے ذریعہ ایک انقلاب برپا ہو گا اور باطل طاقتیں نیست و نابود ہو جائیں گی۔چنانچہ آ پ ؒ نے اس خواب کی بنیاد پرکام کرنا شروع کر دیا اور یہیں سے انگریزوں کے خلاف جنگ ِآزادی کا آغاز ہوتا ہے۔
  ان کی سرگرمیوں کا مرکز ان کے والد شاہ عبدالرحیم ؒ کی خانقاہ جامعہ رحیمیہ تھی۔مدرسہ رحیمیہ ابتداء ہی سے انقلابی تحریک کامرکز رہا ہے۔یہاں کے فضلاء و علماء نے سامراجی قوتوں کا جم کر مقابلہ کیا اور انگریزوں کے لئے سم قاتل ثابت ہوئے۔ گویا کہ عام مسلمان شاہ ولی اللہ محدث ؒ ہی کے زمانہ میں انگریزوں کے خلاف عملی طور پر میدان میں آگئے تھے۔ لیکن حقیقی معنوں میں لوگوں کے اندر جس چیز نے انگریزوں کے خلاف جہاد کی روح پھونکی وہ شاہ عبدالعزیز ؒ کا فتویٰ تھا۔ اس میں ہندوستان کو صراحت کے ساتھ دارالحرب قرار دیا گیاتھا۔ اس وقت ۱۸۰۳ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ’’ مخلوق خداکی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔‘‘ شاہ عبدالعزیز ؒ نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جب فتویٔ دارالحرب صادر کیاتو عام مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف اپنی منظم جد و جہد کا آغا ز کردیا۔ان میں شاہ اسمٰعیل شہید ؒ اور سید احمدشہید ؒ کے نام سر فہرست ہیں۔ انھوں نے انگریزوں کے خلاف عوام الناس کی ذہن سازی کی اور کئی مواقع پر ان کے ساتھ برسرپیکار ہوئے۔ اس میں بالاکوٹ کے مقام پر ۱۸۳۳ء میں انگریزوں کے خلاف کیا جانے والا جہاد خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ شاہ صاحب ؒ کے بعد جنگ آزادی کی لمبی جد و جہد میں ضرورت پڑنے پر بہت سارے علماء نے فتوے جاری کرکے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد پر ابھار ا، جس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا۔ شاہ رفیع الدین ؒ، قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ، مولانا عبدالحئی بڈھانوی ؒ اور دیگر علماء دہلی اور شمالی ہند نے ضرورت پڑنے پر فتاوے جاری کئے۔مولانا فضل حق خیرآبادیؒ کو انگریزوں کے خلاف فتویٰ دینے کے جرم میں ۱۸۵۹ءمیں قید کی سزا دی گئی۔ جنگِ آزادی۱۸۵۷ءکے دوران ایک انقلابی فتویٰ شائع کیا گیا جس میں دہلی اور اطرافِ دہلی کے باشندوں پر فرضیت جہاد کی بات کہی گئی تھی۔ اس فتویٰ پر مختلف ماہرین مفتیان کرام کے دستخط تھے۔  غرض یہ کہ موقع آنے پر علماء نے انگریزوں کے خلاف فتاوے صادر فرمائے اور مسلمانوں کے اندر انگریزوں سے جہاد کرنے کے حوالے سے ایسی روح پھونکی کہ وہ ملک کی آزادی کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں کودتے رہے یہاںتک کہ اسے انگریزی سامراج سے آزادکرالیا۔ صرف۱۸۵۷ءمیں تقریباً۵؍لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ جن مسلمانوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جاتا تھا، ان کے جسم تڑپ تڑپ کر انگریزی ہندسہ کا۸؍بن جاتے تھے مگر چونکہ علماء کرام نے جہاد کی فرضیت کا اعلان کیاتھا،اس وجہ سے مسلمان اسے ثواب کا کام سمجھ کر کرتے رہے اور سخت سے سخت اذیتیں بھی ان کے ارادوں کو متزلزل نہ کر سکیں۔ انگریزوں نے صرف عام مسلمان یا عام ہندوستانیوں ہی پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے علماء کی ایک بڑی تعداد پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ے لیکن مسلمانوں نے علم جہاد بلند رکھا اورحاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا حسرت موہانی ؒ، مولانامحمد علی جوہر ؒ، مولانا محمود حسنؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور مولانا حسین احمد مدنی ؒ وغیرہ کی قیادت میں آزادی کے کارواں کو اپنی منزل تک پہنچا کر ہی دم لیا۔  جنگ آزادی کے دوران چونکہ عیسائی انگریز وں کو علماء اور ان کے فتاویٰ کے سبب بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا،اس وجہ سے انھوں نے عوام کے اندر ان دونوں چیزوں کے اثر کو ختم کرنے یا کم کرنے کی اس وقت بھرپور کوشش کی تھی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے عناصر آج بھی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز ؒ کے فتویٰ دارالحرب کے خلاف خود ایک مسلم عالم سے کتاب لکھوائی گئی تھی۔ ہزاروں علماء کو انگریزی حکومت نے قتل کر دیا تا کہ ان کی تعداد کم ہو اور سیکڑوں مدارس کو تہس نہس کر دیا تا کہ علما ء پیدا نہ ہو سکیں۔ آج بھی فتاویٰ کی میڈیا کے ذریعہ منفی تشہیر کی جاتی ہے۔ حالانکہ شریعت کی روشنی میں صادر کئے گئے ان فتوؤں کے ذریعہ علماء کرام بہت سارے ان آپسی مسائل کو بہتر طور پر نمٹا دیتے ہیں جنھیں اگر کسی بھی سطح کی عدالت میں لے جایا جائے تو یقیناً ان لاکھوںمعاملات کی تعداد میں اضافہ ہو گا جن کے فیصلے برسوں گزر جانے کے بعد بھی نہیں ہو پاتے۔
 اس کے باوجود، ان علماء کو ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ لوگوں کو یہ باور کرایا جا تا ہے کہ مسلمان قوم کی پسماندگی کی اصل وجہ یہی علما ء ہیں جو اپنے فتوؤں کے ذریعہ مسلمانوں کو جدیدیت کے عالمی دھارے میںشامل نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ بہر حال، آج کل علما ء کرام اور فتاویٰ کے خلاف کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کی جارہی ہوں اور اول الذکر کو ترقی مخالف اورآخر الذکر کو دستورِہند میں مداخلت کا نام دیا جارہا ہو، مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علماء کرام اور ان کے فتوؤں نے ہندوستان کو آزادی دلانے میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہےلیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ باشعور مسلمانوں کو چھوڑ کر ہندوستانیوں کی اکثریت نے علماء کرام کی ان قربانیوں کو فراموش کر دیا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نصاب میں داخل تاریخ کی کتابوں میں ان کا بھی تذکر ہ ہوتا۔ علماء کی قربانیوں کو یاد نہ کرکے ہم دانستہ طور پر اپنی تاریخ کے ایک اہم حصے کو بھلانے کی غلطی کر رہے ہیں۔
(مضمون نگار کا تعلق دارالعلوم دیوبند (یوپی) کے شعبۂ انگریزی زبان و ادب سے ہے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK