Inquilab Logo

حکومتوں اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے

Updated: November 21, 2023, 12:54 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

نریندرمودی نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے وقت اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے کے بجائے غیر حاضری دکھائی تھی لیکن جب دوسری بار ووٹنگ ہوئی تو ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیاتھا۔

In the current situation, the thinking of the people and the government is different. Photo: INN
موجودہ حالات میں عوام اور حکومت کی سوچ مختلف ہے۔تصویر:آئی این این

ایسا لگتا ہے کہ ہزاروں  سال سے یہ دنیا جس نظام یا انتظام کے ذریعہ چلائی جا رہی تھی، انسان اب اس سے منہ موڑ رہا ہے، آج تک یہ دنیا یادنیا کا ہر ملک اور ہر قوم جس نظام کے ذریعہ چل رہا تھا یا چلایا جا رہا تھا ، وہ یہ تھا کہ ہر جگہ حکمراں  یا حکمراں  طبقات ملک کی اندرونی اور خارجہ پالیسی بناتے تھے اور وہ بھی اپنے حساب اور اپنی سہولت کے اعتبار سے، ان پالیسیوں  میں  بظاہر عوام کا نام لیا جاتا تھا لیکن ان کے بننے میں  عوام یا رعایا کا کوئی عمل دخل نہیں  ہوتا تھا۔ عوام انہیں  بے چارگی کے عالم میں  مانا کرتے تھے اور اسے اپنا مقدر سمجھتے تھے، لیکن انسان اب اس منزل سے دور ہوچکا ہے۔ اب عوام  چاہتے ہیں  کہ ملک ان کی خواہشوں  اور ان کی مرضی سے چلایا جائے۔ اب بادشاہوں  کی دنیا نہیں  رہی۔ ذراآ ج کی دنیا پر نظر ڈالئے۔ہر جگہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ عوام اور حکومتیں  ایک دوسرے سے میل نہیں  کھا رہی ہیں ، یہ دستور آج کی دنیا کے ہرملک میں  دیکھا جا رہا ہے۔ ہم کسی ایک قوم یا ملک کی بات نہیں  کر رہے ہیں ، ہم سارے جگ کی بات کر رہے ہیں ۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں  ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کو ہی لے لیجئے جسے آج دنیا ترقی کے مناصب میں  سب سے اونچا مقام دیتی ہے۔ حالیہ فلسطین اور غزہ کی مثال سامنے رکھئے۔ امریکہ میں  یہ دستور ہے کہ اسرائیل اس کیلئے ضروری ہے۔ یہ کہیں  آئین میں  تو نہیں  لکھا ہوا ہے لیکن جب سے ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں  آیا ہے، امریکہ نے اسرائیل کی ہر پالیسی اور ہر حکمت عملی کا ساتھ دیا ہے، چاہے وہ جائز ہو یا صریحاًناجائز۔موجودہ حالات کو دیکھئے۔ امریکی حکومت ہر معاملہ میں  اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے۔ امریکہ میں  فلسطین کی حمایت کیلئے جو مظاہرے ہوئے ہیں ، ویسے مظاہرے امریکہ میں  معدوم سمجھے جاتے تھے اور ان مظاہروں  میں  امریکہ میں  رہنے والے ہر مذہب کی حصہ داری تھی۔ ان یہودیوں  کی بھی جن کیلئے یہ کہا جاتا تھا کہ امریکہ کا نظام اس کی لابی کے قبضہ میں  ہے۔ بظاہر لگتا ہےکہ ان مظاہروں  کے باوجود امریکی ایڈمنسٹریشن اپنی پالیسی پر قائم ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں  ہے۔ 
  امریکہ کی بات کیوں  کریں ، تنازع کے اصل مرکز اسرائیل تک چلے چلئے۔ بے شک اسرائیل جیسا کہ بتایا گیا ،اسپتالوں  پر حملے کر رہا ہے، اپنے ہر حملے کے جواز میں  اس کا یہی کہناہے کہ اس کی ایجنسیوں  ،اور اس ایجنسی میں  موساد بھی شامل ہے جس کی ساری حقیقت اب دنیا کے سامنے ہے، نے  اسے بتایاہے کہ یہ اسپتال نہیں  ہیں ، یہاں  حماس کے مجاہد چھپے ہوئے ہیں ۔ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں  کہ نیتن یاہو دنیا کے تما م حکمرانوں  کی طرح بے رحم تو ضرور ہیں  ، لیکن ہر ظالم کی طرح عقل سے مکمل طور پر نابینا ہیں ۔ اگر وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں  کہ ان اسپتالوں  میں  حماس کے دہشت گرد پوشیدہ ہیں  تو پھر وہاں  سے کچھ غزہ والوں  کو پکڑ کر بھی دنیا کو بتائیں  کہ دیکھئے یہ ہیں  وہ دہشت گرد جن کی ہم بات کر رہے تھے۔ حالانکہ یہود یہ کر سکتا ہے۔ اگر ایسا کچھ کیا بھی ہے تو دنیا کے عوام نہیں  خود اسرائیلی نیتن یاہو سے پوچھیں  گے کہ تم نے دہشت گردوں  کو تو پکڑلیا مگر یہ بتاؤ کہ وہ اسرائیلی یرغمال کہاں  ہیں  جنہیں  یہ دہشت گرد لے گئےتھے، اگر اتنا کیا تھا اور تم اتنے ہی بہادر تھے تو ان کو بھی چھڑا لیتے۔یہی نہیں  ۔ اب کوئی دس دن پہلے تل ابیب میں  لاکھوں  اسرائیلیوں  نے زبردست اینٹی نیتن یاہو مظاہرے کئے تھے، یاد رہے کہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان کےوہ تمام علاقے جہاں  نئی کالونیاں  بنائی گئی تھیں  آج بالکل خالی پڑے ہوئے ہیں ۔ وہاں  کے مکین گھر بار چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں  ۔ یہ مظاہرین تل ابیب کے بھی نہیں  تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مظاہرین کسی دوسرے شہروں  سے آئے تھے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ ہزاروں  اسرائیلی، اسرائیل سے جا چکےہیں ۔ اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اسرائیلی عوام بھی اپنے حکمرانوں  کی سوچ سے الگ سوچ رکھتے ہیں ۔مثال ہی دیکھنا ہے تو ہندوستان ہی کو لے لیجئے۔ جنگ شروع ہوتے ہی نریندر مودی نے اپنے جگری دوست نیتن یاہو سے کہا تھا کہ اس وقت اسرائیل اور ہندوستان ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ، انہوں  نے اقوام متحدہ میں  ایک ووٹنگ کے وقت اسرائیل کےخلاف ووٹ دینے کے بجائے غیر حاضری دکھائی تھی لیکن جب دوسری بار ووٹنگ ہوئی تو ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیاتھا۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں  مودی کے اندھ بھکتوں  کے سوا ملک کی آبادی کا ہر ذی شعور طبقہ فلسطین کے ساتھ ہے۔
 اب ذرامسلم دنیا کی طرف چلئے۔ دنیا میں  ۵۷؍ ایسے ممالک ہیں  جہاں  مسلمانوں  کی اکثریت ہے، ہم نہیں  جانتے کہ کتنے مسلمانوں  کو ان ممالک کے نام بھی یاد ہوں گے، سوائے الجیریا اور تیونس کے جہاں  یورپی کالونیوں  سے جنگ کر کے ان ممالک کو آزادی دلائی گئی تھی۔ ان ممالک کے نام ازبر ہوں گے جہاں  اللہ نے تیل کی دولت دی ہے اور جو روزگار فراہم کرتے ہیں ۔ ان تمام ممالک کی ایک انجمن بھی ہے جسے اوآئی سی کہتے ہیں ، لیکن دنیا میں  ان مسلم ممالک کی کوئی ایسی توقیر اور عزت نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ اقوام متحدہ کے ممبر ہیں  اور کبھی کبھی ان کی رائے بھی لی جاتی ہے۔ اوآ ئی سی نے غزہ پرایک ہنگامی کانفرنس بلائی ، یہ ایک خصوصی کانفرنس تھی اور دس سال بعد بلائی گئی تھی، لیکن اسی کے ساتھ عرب لیگ کی کانفرنس بھی بلائی گئی، عربوں  میں  بہت غصہ تھا کہ یہ الگ الگ کانفرنسیں  کیوں  بلائی گئی ہیں ۔ عرب حکمرانوں  نے پھر دونوں  کی تاریخ یکجا کردی۔ کانفرنس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی بار محمدبن سلمان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ساتھ نظر آئے، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں  ہوا تھا، کانفرنس ہوئی تو عرب حکمرانوں  کو اندازہ ہوا کہ ایران ان سب سے بازی لے گیا ہے۔ ایک تو اسرائیل مسلم ممالک میں  جن ملکوں  سے خائف ہے ان میں  ایران سب سے اوپر ہے، عرب عوام کو معلوم ہوا کہ تیل کی دولت کے سوا ان کے پاس کچھ بھی نہیں  ہے، ایران ہر معاملہ میں  ان سےآ ّگے ہے، ایران کے پاس اپنے بنائے ہوئے ہتھیار ہیں ، اس کے پاس آبنائےہرمز ہے جسے بند کر کے امریکہ کیلئے بھاری دشواری پیدا کر سکتا ہے، ایران ہی نے یہ خیال سامنے رکھا کہ دو ریاستوں  کی بات بالکل ٹھیک ہے لیکن فلسطین کی صرف ایک ریاست ہونا چاہئے جس میں  یہودی، عیسائی اور مسلمان ایک شہری بن کر رہیں ۔ دنیا نے اس کی تائید کی۔ آج اگر ہم دیکھ رہے ہیں  کہ امریکہ بھی اسرائیل کی ڈیل کو رد کرتے ہوئے غزہ کو مالی امداد دینے پر رضامند ہے تو یہ ایران کی دھمکی کا ہی اثر ہے، ہم اسے جنگ بندی کا ابتدائی پیش خیمہ سمجھتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ عوام اور حکومت الگ الگ سوچ رہے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK